Surah

Information

Surah # 8 | Verses: 75 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 88 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 30-36 from Makkah
وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنۡ قَوۡمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذۡ اِلَيۡهِمۡ عَلٰى سَوَآءٍ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡخَآٮِٕنِيۡنَ‏ ﴿58﴾
اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہد نامہ توڑ دے اللہ تعالٰی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔
و اما تخافن من قوم خيانة فانبذ اليهم على سواء ان الله لا يحب الخاىنين
If you [have reason to] fear from a people betrayal, throw [their treaty] back to them, [putting you] on equal terms. Indeed, Allah does not like traitors.
Aur agar tujhay kissi qom ki khayanat ka darr ho to barabari ki haalat mein unn ka ehad naama tor dey Allah Taalaa khayanat kerney walon ko pasand nahi farmata.
اور اگر تمہیں کسی قوم سے بدعہدی کا اندیشہ ہو تو تم وہ معاہدہ ان کی طرف صاف سیدھے طریقے سے پھینک دو ، ( ٤٠ ) یاد رکھو کہ اللہ بد عہدی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
اور اگر تم کسی قوم سے دغا کا اندیشہ کرو ( ف۱۱۰ ) تو ان کا عہد ان کی طرف پھینک دو برابری پر ( ف۱۱۱ ) بیشک دغا والے اللہ کو پسند نہیں ،
اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو عَلانیہ اس کے آگے پھینک دو 43 ، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ؏ ۷
اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں ۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :43 اس آیت کے رو سے ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اگر کسی شخص یا گروہ یا ملک سے ہمارا معاہدہ ہو اور ہمیں اس کے طرزِ عمل سے یہ شکایت لاحق ہو جائے کہ وہ عہد کی پابندی میں کوتاہی برت رہا ہے ، یا یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ موقع پاتے ہی ہمارے ساتھ غداری کر بیٹھے گا ، تو ہم اپنی جگہ خود فیصلہ کرلیں کہ ہمارے اور اس کے درمیان معاہدہ نہیں رہا اور یکایک اس کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا شروع کردیں جو معاہدہ نہ ہونے کہ صورت ہی میں کیا جاسکتا ہو ۔ اس کے برعکس ہمیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو ہم کوئی مخالفانہ کاروائی کرنے سے پہلے فریق ثانی کو صاف صاف بتا دیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب معاہدہ باقی نہیں رہا ، تا کہ فسخ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو حاصل ہے ویسا ہی اس کو بھی ہو جائے اور وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ معاہدہ اب بھی باقی ہے ۔ اسی فرمان الہٰی کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی بین الاقوامی پالیسی کا یہ مستقل اصول قرار دیا تھا کہ من کان بینہ وبین قوم عھد فلا یحلن عقدہ حتی ینقضی امدھا او ینبذ الیھم عل سواء ۔ ”جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو اسے چاہیے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے عہد کا بند نہ کھولے ۔ یا نہیں تو ان کا عہد برابری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرف پھینک دے “ ۔ پھر اسی قاعدے کو آپ نے اور زیادہ پھیلا کر تمام معاملات میں عام اصول یہ قائم کیا تھا کہ لا تخن من خانک”جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سےخیانت نہ کر“ ۔ اور یہ اصول صرف وعظوں میں بیان کرنے اور کتابوں کی زینت بننے کے لیے نہ تھا بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کی پابندی کی جاتی تھی ۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب امیر معاویہ نے اپنے عہد بادشاہی میں سرحد روم پر فوجوں کا اجتماع اس غرض سے کرنا شروع کیا کہ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی یکایک رومی علاقہ پر حملہ کر دیا جائے تو ان کی اس کاروائی پر عمرو بن عَنبَسَہ صحابی رضی اللہ عنہ نے سخت احتجاج کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث سنا کر کہا کہ معاہدہ کی مدت کے اندر یہ معاندانہ طرز عمل اختیار کرنا غداری ہے ۔ آخر کار امیر معاویہ کو اس اصول کے آگے سر جھکا دینا پڑا اور سرحد پر اجتماع فوج روک دیا گیا ۔ یک طرفہ فسخ معاہدہ اور اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دینے کا طریقہ قدیم جاہلیت میں بھی تھا اور زمانہ حال کی مہذب جاہلیت میں بھی اس کا رواج موجود ہے ۔ چنانچہ اس کی تازہ ترین مثالین جنگ عظیم نمبر ۲ میں روس پر جرمنی کے حملے اور ایران کے خلاف روس و برطانیہ کی فوجی کاروائی میں دیکھی گئی ہیں ۔ عموماً اس کاروائی کے لیے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ حملہ سے پہلے مطلع کر دینے سے دوسرا فریق ہوشیار ہو جاتا اور سخت مقابلہ کرتا ، یا اگر ہم مداخلت نہ کرتے تو ہمارا دشمن فائدہ اٹھا لیتا لیکن اس قسم کے بہانے اگر اخلاقی ذمہ داریوں کو ساقط کر دینے کے لیے کافی ہوں تو پھر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی بہانے نہ کیا جا سکتا ہو ۔ ہر چور ، ہر ڈاکو ، ہر زانی ، ہر قاتل ، ہر جعلساز اپنے جرائم کے لیے ایسی ہی کوئی مصلحت بیان کر سکتا ہے ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہ لوگ بین الاقوامی سوسائٹی میں قوموں کے لیے ان بہت سے افعال کو جائز سمجھتے ہیں جو خود ان کی نگاہ میں حرام ہیں جب کہ ان کا ارتکاب قومی سو سائٹی میں افراد کی جانب سے ہو ۔ اس موقع پر جان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی قانون صرف ایک صورت میں بلا اطلاع حملہ کرنے کو جائز رکھتا ہے ، اور وہ صورت یہ ہے کہ فریق ثانی علی الاعلان معاہدہ کو توڑ چکا ہو اور اس نے صریح طور پر ہمارے خلاف معاندانہ کاروائی کی ہو ۔ ایسی صورت میں یہ ضروری نہیں رہتا کہ ہم اسے آیت مذکورہ بالا کے مطابق فسخ معاہدہ کا نوٹس دیں ، بلکہ ہمیں اس کے خلاف بلا اطلاع جنگی کاروائی کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے ۔ فقہائے اسلام نے یہ استثنائی حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل سے نکالا ہے کہ قریش نے جب بنی خُزاعہ کے معاملہ میں صلح حُدَیبیہ کو اعلانیہ توڑ دیا تو آپ نے پھر انہیں فسخ معاہدہ کا نوٹس دینے کی کوئی ضرورت نہ سمجھی ، بلکہ بلا اطلاع مکہ پر چڑھائی کر دی ۔ لیکن اگر کسی موقع پر ہم اس قاعدہ استثناء سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو لازم ہے کہ وہ تمام حالات ہمارے پیش نظر رہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کاروائی کی تھی ، تا کہ پیروی ہو تو آپ کے پورے طرز عمل کہ ہو نہ کہ اس کے کسی ایک مفید مطلب جزء کی ۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ: اولاً ، قریش کی خلاف ورزی عہد ایسی صریح تھی کہ اس کے نقض عہد ہونے میں کسی کلام کا موقع نہ تھا ۔ خود قریش کے لوگ بھی اس کے معترف تھے کہ واقعی معاہدہ ٹوٹ گیا ہے ۔ انہوں نے خود ابو سفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا تھا جس کے صاف معنی یہی تھے کہ ان کے نزدیک بھی عہد باقی نہیں رہا تھا ۔ تا ہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ناقضِ عہد قوم کو خود بھی اپنے نقض عہد کا اعتراف ہو ۔ البتہ یہ یقیناً ضروری ہے کہ نقضِ عہد بالکل صریح اور غیر مشتبہ ہو ۔ ثانیاً ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے عہد ٹوٹ جانے کے بعد پھر اپنی طرف سے صراحتہ یا اشارةً و کنایہ یتہ ایسی کوئی بات نہیں کی کہ جس سے یہ ایماء نکلتا ہو کہ اس بدعہدی کے باوجود آپ ابھی تک ان کو ایک معاہد قوم سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کے معاہدانہ روابط اب بھی قائم ہیں ۔ تمام روایات بالاتفاق یہ بتاتی ہیں کہ جب ابوسفیان نے مدینہ آکر تجدید معاہدہ کی درخواست پیش کی تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا ۔ ثالثاً ، قریش کے خلاف جنگی کاروائی آپ نے خود کی اور کھلم کھلا کی ۔ کسی ایسی فریب کاری کا شائبہ تک آپ کے طرز عمل نہیں پایا جاتا کہ آپ نے بظاہر صلح اور بباطن جنگ کا کوئی طریقہ استعمال فرمایا ہو ۔ یہ اس معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے ، لہٰذا آیت مذکورہ بالا کے حکم عام سے ہٹ کر اگر کوئی کاروائی کی جا سکتی ہے تو ایسے ہی مخصوص حالات میں کی جاسکتی ہے اور اسی سیدھے سیدھے شریفانہ طریقہ سے کی جا سکتی ہے جو حضور نے اختیار فرمایا تھا ۔ مزید براں اگر کسی معاہد قوم سے کسی معاملہ میں ہماری نزاع ہو جائے اور ہم دیکھیں کہ گفت وشنید یا بین الاقوامی ثالثی کے ذریعہ سے وہ نزاع طے نہیں ہوتی ، یا یہ کہ فریق ثانی اس کو بزور طے کرنے پر تلا ہوا ہے ، تو ہمارے لیے یہ بالکل جائز ہے کہ ہم اس کو طے کرنے میں طاقت استعمال کریں لیکن آیت مذکورہ بالا ہم پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ ہمارا یہ استعمال طاقت صاف صاف اعلان کے بعد ہونا چاہیے اور کھلم کھلا ہونا چاہیے ۔ چوری چھپے ایسی جنگی کاروائیاں کرنا جن کا علانیہ اقرار کرنے کے لیے ہم تیار نہ ہوں ، ایک بد اخلاقی ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو نہیں دی ہے ۔
اللہ خائنوں کو پسند نہیں فرماتا ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی اگر کسی سے تمہارا عہد و پیمان ہو اور تمہیں خوف ہو کہ یہ بدعہدی اور وعدہ خلافی کریں گے تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ برابری کی حالت میں عہد نامہ توڑ دو اور انہیں اطلاع کردو تاکہ وہ بھی صلح کے خیال میں نہ رہیں ۔ کچھ دن پہلے ہی سے انہیں خبر دو ۔ اللہ خیانت کو ناپسند فرماتا ہے کافروں سے بھی تم خیانت نہ کرو ۔ مسند احمد میں ہے کہ امیر معاویہ نے لشکریوں کی روم کی سرحد کی طرف پیش قدمی شروع کی کہ مدت صلح ختم ہوتے ہی ان پر اچانک حملہ کر دیں تو ایک شیخ اپنی سواری پر سوار یہ کہتے ہوئے آئے کہ وعدہ وفائی کرو ، عذر درست نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا فرمان ہے کہ جب کسی قوم سے عہد و پیمان ہو جائیں تو نہ کوئی گرہ کھولو نہ باندھو جب تک کہ مدت صلح ختم نہ جوئے یا انہیں اطلاع دے کر عہد نامہ چاک نہ ہو جائے ۔ جب یہ بات حضرت معاویہ کو پہنچی تو آپ نے اسی وقت فوج کو واپسی کا حکم دے دیا ۔ یہ شیخ حضرت عمرو بن عنبسہ تھے ۔ حضرت سلمان فارسی نے ایک شہر کے قلعے کے پاس پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم مجھے بلاؤ میں تمہیں بلاؤں گا جیسے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو انہیں بلاتے دیکھا ہے ۔ پھر فرمایا میں بھی انہیں میں سے ایک شخص تھا پس مجھے اللہ عزوجل نے اسلام کی ہدایت کی اگر تم بھی مسلمان ہو جاؤ تو جو ہمارا حق ہے وہی تمہارا حق ہوگا اور جو ہم پر ہے تم پر بھی وہی ہوگا اور اگر تم اس نہیں مانتے تو ذلت کے ساتھ تمہیں جزیہ دینا ہوگا اسے بھی قبول نہ کرو تو ہم تمہیں ابھی سے مطلع کرتے ہیں جب کہ ہم تم برابری کی حالت میں ہیں اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں رکھتا ۔ تین دن تک انہیں اسی طرح دعوت دی آخر چوتھے روز صبح ہی حملہ کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فتح دی اور مدد فرمائی ۔