Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَاِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ اسۡتَجَارَكَ فَاَجِرۡهُ حَتّٰى يَسۡمَعَ كَلَامَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبۡلِغۡهُ مَاۡمَنَهٗ‌ ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿6﴾
اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے یہ اس لئے کہ یہ لوگ بے علم ہیں ۔
و ان احد من المشركين استجارك فاجره حتى يسمع كلم الله ثم ابلغه مامنه ذلك بانهم قوم لا يعلمون
And if any one of the polytheists seeks your protection, then grant him protection so that he may hear the words of Allah . Then deliver him to his place of safety. That is because they are a people who do not know.
Agar mushrikon mein say koi tujh say panah talab keray to tu ussay panah dey dey yahan tak kay woh kalam Allah sunn ley phir ussay apni jaye amaan tak phoncha dey. Yeh iss liye kay yeh log bey ilm hain.
اور اگر مشرکین میں سے کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسے اس وقت تک پناہ دو جب تک وہ اللہ کا کلام سن لے ۔ ( ٥ ) پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو ۔ ( ٦ ) یہ اس لئے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں علم نہیں ہے ۔
اور اے محبوب اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے ( ف۱٤ ) تو اسے پناہ دو کہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو ( ف۱۵ ) یہ اس لیے کہ وہ نادان لوگ ہیں ( ف۱٦ )
اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے ﴿ تاکہ اللہ کا کلام سنے﴾ تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے ۔ پھر اسے اس ( کی امن کی جگہ ) تک پہنچا دو ، یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے ۔ 8 ؏ ١
اور اگر مشرکوں میں سے کوئی بھی آپ سے پناہ کا خواست گار ہو تو اسے پناہ دے دیں تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر آپ اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دیں ، یہ اس لئے کہ وہ لوگ ( حق کا ) علم نہیں رکھتے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :8 یعنی دوران جنگ میں اگر کوئی دشمن تم سے درخواست کرے کہ میں اسلام کو سمجھنا چاہتا ہوں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اسے امان دے کر اپنے ہاں آ نے کا موقع دیں اور اسے سمجھائیں ، پھر اگر وہ قبول نہ کرے تو اسے اپنی حفاظت میں اس کے ٹھکانے تک واپس پہنچا دیں ۔ فقہ اسلامی میں ایسے شخص کو جو امان لے کر دارالاسلام میں آئے مُستامن کہا جاتا ہے ۔
امن مانگنے والوں کو امن دو منافقوں کی گردن ماردو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ جن کافروں سے آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے اگر کوئی آپ سے امن طلب کرے تو آپ اس کی خواہش پوری کر دیں اسے امن دیں یہاں تک کہ وہ قرآن کریم سن لے آپ کی باتیں سن لے دین کی تعلیم معلوم کرلے حجت ربانی پوری ہو جائے ۔ پھر اپنے امن میں ہی اسے اس کے وطن پہنچا دو بےخوفی کے ساتھ یہ اپنے امن کی جگہ پہنچ جائے ممکن ہے کہ سوچ سمجھ کر حق کو قبول کرلے ۔ یہ اس لئے ہے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں انہیں دینی معلومات بہم پہنچاؤ اللہ کی دعوت اس کے بندوں کے کانوں تک پہنچادو ۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ جو تیرے پاس دینی باتیں سننے سمجھنے کے لئے آئے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو وہ امن میں ہے یہاں تک کہ کلام اللہ سنے پھر جہاں سے آیا ہے وہاں باامن پہنچ جائے اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو جو دین سمجھنے اور اللہ کی طرف سے لائے ہوئے پیغام کو سننے کے لئے آتے انہیں امن دے دیا کرتے تھے حدیبیہ والے سال بھی قریش کے جتنے قاصد آئے یہاں انہیں کوئی خطرہ نہ تھا ۔ عروہ بن مسعود ، مکرزبن حفص ، سہیل بن عمرو وغیرہ یکے بعد دیگرے آتے رہے ۔ یہاں آکر انہیں وہ شان نظر آئی جو قیصر و کسریٰ کے دربار میں بھی نہ تھی یہی انہوں نے اپنی قوم سے کہا پس یہ رویہ بھی بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا ۔ مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا قاصد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم مسلیمہ کی رسالت کے قائل ہو؟ اس نے کہاں ہاں آپ نے فرمایا اگر قاصدوں کا قتل میرے نزدیک ناجائز نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا ۔ آخر یہ شخص حضرت ابن مسعود کوفی کی امارت کے زمانے میں قتل کر دیا گیا اے ابن النواحہ کہا جاتا تھا آپ کو جب معلوم ہوا کہ یہ مسیلمہ کا ماننے والا ہے تو آپ نے بلوایا اور فرمایا اب تو قاصد نہیں ہے اب تیری گردن مارنے سے کوئی امر مانع نہیں چنانچہ اسے قتل کر دیا گیا اللہ کی لعنت اس پر ہو ۔ الغرض دارالحرب سے جو قاصد آئے یا تاجر آئے یا صلح کا طالب آئے یا آپس میں اصلاح کے ارادے سے آئے یا جزیہ لے کر حاضر ہو امام یا نائب امام نے اسے امن وامان دے دیا ہو تو جب تک وہ دارالاسلام میں رہے یا اپنے وطن نہ پہنچ جائے اسے قتل کرنا حرام ہے ۔ علماء کہتے ہیں ایسے شخص کو دارالاسلام میں سال بھر تک نہ رہنے دیا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک وہ یہاں ٹھہر سکتا ہے پھر چار ماہ سے زیادہ اور سال بھر کے اندر دو قول ہیں امام شافعی وغیرہ علماء کے ہیں رحمہم اللہ تعالیٰ ۔