Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا نَّكَثُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ وَهَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ وَهُمۡ بَدَءُوۡكُمۡ اَوَّلَ مَرَّةٍ‌ ؕ اَتَخۡشَوۡنَهُمۡ‌ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشَوۡهُ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿13﴾
تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو ۔
الا تقاتلون قوما نكثوا ايمانهم و هموا باخراج الرسول و هم بدءوكم اول مرة اتخشونهم فالله احق ان تخشوه ان كنتم مؤمنين
Would you not fight a people who broke their oaths and determined to expel the Messenger, and they had begun [the attack upon] you the first time? Do you fear them? But Allah has more right that you should fear Him, if you are [truly] believers.
Tum inn logon ki sirkoobi kay liye kiyon tayyar nahi hotay jinhon ney apni qasmon ko tor diya aur payghumbar ko jila watan kerney ki fikar mein hain aur khud hi awwal baat unhon ney tum say cher ki hai. Kiya tum inn say dartay ho? Allah hi ziyada mustahiq hai kay tum uss ka darr rakho ba-shart-e-kay tum eman walay ho.
کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑا ، اور رسول کو ( وطن سے ) نکالنے کا ارادہ کیا ، اور وہی ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف ( چھیڑ چھاڑ کرنے میں ) پہل کی ؟ ( ١٢ ) کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ ( اگر ایسا ہے ) تو اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو ، اگر تم مومن ہو ۔
کیا اس قوم سے نہ لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں ( ف۳۰ ) اور رسول کے نکالنے کا ارادہ کیا ( ف۳۱ ) حالانکہ انہیں کی طرف سے پہلی ہوتی ہے ، کیا ان سے ڈرتے ہو تو اللہ کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو ،
کیا تم نہ لڑو گے 16 ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو ۔
کیا تم ایسی قوم سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قًسمیں توڑ ڈالیں ( یعنی معاہدۂ امن توڑ کر حالت جنگ بحال کر دی ) اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو جلاوطن کرنے کا ارادہ کیا حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے تم سے ( عہد شکنی اور جنگ کی ) ابتداء کی ، کیا تم ان سے ڈرتے ہو جبکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو بشرطیکہ تم مومن ہو
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :16 اب تقریر کا رخ مسلمانوں کی طرف پھرتا ہے اور ان کو جنگ پر ابھارنے اور دین کے معاملہ میں کسی رشتہ و قرابت اور کسی دنیوی مصلحت کا لحاظ نہ کرنے کی پُر زور تلقین کی جاتی ہے ۔ اس حصہ تقریر کی پوری روح سمجھنے کے لیے پھر ایک مرتبہ اس صورت حال کو سامنے رکھ لینا چاہیے جو اس وقت درپیش تھی ۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام اب ملک کے ایک بڑے حصہ پر چھا گیا تھا اور عرب میں کوئی ایسی بڑی طاقت نہ رہی تھی جو اس کو دعوت مبارزت دے سکتی ہو ، لیکن پھر بھی جو فیصلہ کن قدم اور انتہائی انقلابی قدم اس موقع پر اُٹھایا جا رہا تھا اس کے اندر بہت سے خطرناک پہلو ظاہر بین نگاہوں کو نظر آرہے تھے: اوّلاً تمام مشرک قبائل کو بیک وقت معاہدات کی منسوخی کا چیلنج دے دینا ، پھر مشرکین کے حج کی بندش ، کعبے کی تولیت میں تغیر ، اور رسوم جاہلیت کا کلّی انسداد یہ معنی رکھتا تھا کہ ایک مرتبہ سارے ملک میں آگ سی لگ جائے اور اور مشرکین و منافقین اپنا آخری قطرہ خون تک اپنے مفادات اور تعصبات کی حفاظت کے لیے بہا دینے پر آمادہ ہو جائیں ۔ ثانیًا حج کو صرف اہل توحید کے لیے مخصوص کر دینے اور مشرکین پر کعبے کا راستہ بند کر دینے کے معنی یہ تھے کہ ملک کی آبادی کا ایک معتدبہ حصہ ، جو ابھی مشرک تھا ، کعبہ کی طرف اس نقل و حرکت سے باز رہ جائے جو صرف مذہبی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ معاشی حیثیت سے بھی عرب میں غیر معمولی حیثیت رکھتی تھی اور جس پر اس زمانہ میں عرب کی معاشی زندگی کا بہت بڑا انحصار تھا ۔ ثالثًا جو لوگ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے ان کے لیے یہ معاملہ بڑی کڑی آزمائش کا تھا کیونکہ ان کے بہت سے بھائی بند ، عزیز اقارب ابھی تک مشرک تھے اور ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے مفاد قدیم نظام جاہلی کے مناصب سے وابستہ تھے ۔ اب جو بظاہر تمام مشرکین عرب کا تہس نہس کر ڈالنے کی تیاری کی جا رہی تھی تو اس کے معنی یہ تھے کہ یہ نئے مسلمان خود اپنے ہاتھوں اپنے خاندانوں اور اپنے جگر گوشوں کو پیوند خاک کریں اور ان کے جاہ و منصب اور صدیوں کے قائم شدہ امتیازات کا خاتمہ کردیں ۔ اگرچہ فی الواقع ان میں سے کوئی خطرہ بھی عملًا بروئے کار نہ آیا ۔ اعلان براءت سے ملک میں حرب کلّی کی آگ بھڑکنے کے بجائے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ تمام اطراف و اکناف عرب سے بچے کھچے مشرک قبائل اور امراء و ملوک کے وفد آنے شروع ہوگئے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسلام و اطاعت کا عہد کیا اور ان کے اسلام قبول کر لینے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو اس کی پوزیشن پر بحال رکھا ۔ لیکن جس وقت اس نئی پالیسی کا اعلان کیا جا رہا تھا اس وقت تو بہر حال کوئی بھی اس نتیجہ کو پیشگی نہ دیکھ سکتا تھا ۔ نیز یہ کہ اس اعلان کے ساتھ ہی اگر مسلمان اسے بزور نافذ کر نے کے لیے پوری طرح تیار نہ ہو جاتے تو شاید یہ نتیجہ برآمد بھی نہ ہو تا ۔ اس لیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کو اس موقع پر جہاد فی سبیل اللہ کی پر جوش تلقین کی جاتی اور ان کے ذہن سے ان تمام اندیشوں کو دور کر دیا جاتا جو اس پالیسی پر عمل کرنے میں ان کو نظر آرہے تھے اور ان کو ہدایت کی جاتی کہ اللہ کی مرضی پوری کرنے میں انہیں کسی چیز کی پروا نہ کرنی چاہیے ۔ یہی مضمون اس تقریر کا موضوع ہے ۔
ظالموں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچاؤ مسلمانوں کو پوری طرح جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ یہ وعدہ شکن قسمیں توڑنے والے کفار وہی ہیں جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے کی پوری ٹھان لی تھی چاہتے تھے کہ قید کرلیں یا قتل کر ڈالیں یا دیس نکالا دے دیں ان کے مکر سے اللہ کا مکر کہیں بہتر تھا ۔ صرف ایمان کی بناء پر دشمنی کر کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مومنوں کو وطن سے خارج کر تے رھے بھڑ بھڑا کر اٹھ کھڑے ہوتے تھے تاکہ تجھے مکہ شریف سے نکال دیں ۔ برائی کی ابتداء بھی انہیں کی طرف سے ہے بدر کے دن لشکر لے کر نکلے حالانکہ معلوم ہو چکا تھا کہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے لیکن تاہم غرور و فخر سے اللہ کے لشکر کو شکست دینے کے ارادے سے مسلمانوں سے صف آراء ہوگئے جیسے کہ پورا واقع اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ انہوں نے عہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ کے حلیفوں سے جنگ کی ۔ بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعدہ کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لشکر کشی کی ان کی خوب سرکوبی کی اور مکہ فتح کر لیا فالحمدللہ ۔ فرماتا ہے کہ تم ان نجس لوگوں سے خوف کھاتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو تمہارے دل میں بجز اللہ کے کسی کا خوف نہ ہونا چاہیئے وہی اس لائق ہے کہ اس سے ایماندار ڈرتے رہیں دوسری آیت میں ہے ان سے نہ ڈرو صرف مجھ سے ہی ڈرتے رہو میرا غلبہ ، میری سلطنت میری سزاء ، میری قدرت ، میری ملکیت ، بیشک اس قابل ہے کہ ہر وقت ہر دل میری ہیبت سے لزرتا رہے تمام کام میرے ہاتھ میں ہیں جو چاہوں کر سکتا ہوں اور کر گذرتا ہوں ۔ میری منشا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا راز بیان ہو رہا ہے کہ اللہ قادر تھا جو عذاب چاہتا ان پر بھیج دیتا لیکن اس کی منشاء یہ ہے کہ تمہارے ہاتھوں انہیں سزا دے ان کی بربادی تم خود کرو تمہارے دل کی خود بھڑاس نکل جائے اور تمہیں راحت و آرام شادمانی و کامرانی حاصل ہو ۔ یہ بات کچھ انہیں کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام مومنوں کے لیے بھی ہے ۔ خصوصاً خزاعہ کا قبیلہ جن پر خلاف عہد قریش اپنے حلیفوں میں مل کر چڑھ دوڑے ان کے دل اسی وقت ٹھنڈے ہوں گے ان کے غبار اسی وقت بیٹھیں گے جب مسلمانوں کے ہاتھوں کفار نیچے ہوں ابن عساکر میں ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غضبناک ہوتیں تو آپ ان کی ناک پکڑ لیتے اور فرماتے اے عویش یہ دعا کرو اللھم رب النبی محمد اغفر ذنبی اذھب غیظ قلبی واجرنی من مضلات الفتن اے اللہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پروردگار میرے گناہ بخش اور میرے دل کا غصہ دور کر اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے ۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے توبہ قبول فرما لے ۔ وہ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے خوب آگاہ ہے ۔ اپنے تمام کاموں میں اپنے شرعی احکام میں اپنے تمام حکموں میں حکمت والا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے وہ عادل و حاکم ہے ظلم سے پاک ہے ایک ذرے برابر بھلائی برائی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا بدلہ دنیا اور آخرت میں دیتا ہے ۔