Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَاِنۡ نَّكَثُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ عَهۡدِهِمۡ وَطَعَنُوۡا فِىۡ دِيۡـنِكُمۡ فَقَاتِلُوۡۤا اَٮِٕمَّةَ الۡـكُفۡرِ‌ۙ اِنَّهُمۡ لَاۤ اَيۡمَانَ لَهُمۡ لَعَلَّهُمۡ يَنۡتَهُوۡنَ‏ ﴿12﴾
اگر یہ لوگ عہد و پیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ ۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آجائیں ۔
و ان نكثوا ايمانهم من بعد عهدهم و طعنوا في دينكم فقاتلوا اىمة الكفر انهم لا ايمان لهم لعلهم ينتهون
And if they break their oaths after their treaty and defame your religion, then fight the leaders of disbelief, for indeed, there are no oaths [sacred] to them; [fight them that] they might cease.
Agar yeh log ehad-o-paymaan kay baad bhi apni qasmon ko tor den aur tumharay deen mein taana zani keren to tum bhi unn sardaraan-e-kufur say bhir jao. Unn ki qasmen koi cheez nahi mumkin hai kay iss tarah woh baaz aajayen.
اور اگر ان لوگوں نے اپنا عہد دے دینے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالی ہوں اور تمہارے دین کو طعنے دیے ہوں ، تو ایسے کفر کے سربراہوں سے اس نیت سے جنگ کرو کہ وہ باز آجائیں ۔ ( ١١ ) کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی قسموں کی کوئی حقیقت نہیں ۔
اور اگر عہد کرکے اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین پر منہ آئیں تو کفر کے سرغنوں سے لڑو ( ف۲۸ ) بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں اس امید پر کہ شاید وہ باز آئیں ( ف۲۹ )
اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے کرنے شروع کر دیں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ۔ شاید کہ ﴿پھر تلوار ہی کے زور سے﴾ وہ باز آئیں گے ۔ 15
اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قَسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم ( ان ) کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو بیشک ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ ( اپنی فتنہ پروری سے ) باز آجائیں
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :15 اس جگہ سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ قسم اور عہد و پیمان سے مراد کفر چھوڑ کر اسلام قبول کر لینے کا عہد ہے ۔ اس لیے کہ ان لوگوں سے اب کوئی اور معاہدہ کرنے کا تو کوئی سوال باقی ہی نہ رہا تھا ۔ پچھلے سارے معاہدے وہ توڑ چکے تھے ۔ ان کی عہد شکنیوں کی بنا پر ہی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے برأت کا اعلان اُنہیں صاف صاف سنایا جا چکا تھا ۔ یہ بھی فرما دیا گیا تھا کہ آخر ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ اور یہ فرمان بھی صادر ہو چکا تھا کہ اب انہیں صرف اسی صورت میں چھوڑا جا سکتا ہے کہ یہ کفر و شرک سے توبہ کر کے اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کی پابندی قبول کرلیں اس لیے یہ آیت مرتدین سے جنگ کے معاملہ میں بالکل صریح ہے ۔ دراصل اس میں اس فتنہ ارتداد کی طرف اشارہ ہے جو ڈیڑھ سال بعد خلافت صدیقی کی ابتداء میں برپا ہوا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر جو طرز عمل اختیار کیا وہ ٹھیک اس ہدایت کے مطابق تھا جو اس آیت میں پہلے ہی دی جا چکی تھی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ”مرتد کی سزا اسلامی قانون میں“ ) ۔
وعدہ خلاف قوم کو دندان شکن جواب دو اگر یہ مشرک اپنی قسموں کو توڑ کر وعدہ خلافی اور عہد شکنی کریں اور تمہارے دین پر اعتراض کرنے لگیں تو تم ان کے کفر کے سروں کو توڑ مروڑ دو ۔ اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے ، دین میں عیب جوئی کرے ، اس کا ذکر اہانت کے ساتھ کرے اسے قتل کر دیا جائے ۔ ان کی قسمیں محض بے اعتبار ہیں ۔ یہی طریقہ ان کے کفر و عناد سے روکنے کا ہے ۔ ابو جہل ، عتبہ ، شیبہ امیہ وغیرہ یہ سب سردارن کفر تھے ۔ ایک خارجی نے حضرت سعد بن وقاص کو کہا کہ یہ کفر کے پیشواؤں میں سے ایک ہے آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے میں تو ان میں سے ہوں جنہوں نے کفر کے پیشواؤں کو قتل کیا تھا ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ اس آیت والے اس کے بعد قتل نہیں کئے گئے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ آیت عام ہے گو سبب نزول کے اعتبار سے اس سے مراد مشرکین قریش ہیں لیکن حکماً یہ انہیں اور سب کو شامل ہے واللہ اعلم ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف لشکر بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تمہیں ان میں کچھ لوگ ایسے ملیں گے جن کی چندھیا منڈی ہوئی ہوگی تو تم اس شیطانی بیٹھک کو تلوار سے دو ٹکڑے کر دینا واللہ ان میں سے ایک کا قتل دوسرے ستر لوگوں کے قتل سے بھی مجھے زیادہ پسند ہے اسلیے کہ فرمان الٰہی ہے کفر کے اماموں کو قتل کرو ( ابن ابی حاتم )