Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
مَا كَانَ لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ اَنۡ يَّعۡمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ بِالـكُفۡرِ‌ؕ اُولٰۤٮِٕكَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ ۖۚ وَ فِى النَّارِ هُمۡ خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿17﴾
لائق نہیں کہ مشرک اللہ تعالٰی کی مسجدوں کو آباد کریں ۔ درآں حالیکہ وہ خود اپنے کفر کے آپ ہی گواہ ہیں ان کے اعمال غارت و اکارت ہیں اور وہ دائمی طور پر جہنمی ہیں ۔
ما كان للمشركين ان يعمروا مسجد الله شهدين على انفسهم بالكفر اولىك حبطت اعمالهم و في النار هم خلدون
It is not for the polytheists to maintain the mosques of Allah [while] witnessing against themselves with disbelief. [For] those, their deeds have become worthless, and in the Fire they will abide eternally.
Laeeq nahi kay mushrik Allah Taalaa ki masjidon ko abad keren. Daran halanakay woh khud apney kufur kay aap hi gawah hain inn kay aemaal gharat-o-ikarat hain aur woh daeemi tor per jahannumi hain.
مشرکین اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں ، ( ١٥ ) حالانکہ وہ خود اپنے کفر کے گواہ بنے ہوئے ہیں ، ان لوگوں کے تو اعمال ہی غارت ہوچکے ہیں ، اور دوزخ ہی میں ان کو ہمیشہ رہنا ہے ۔
مشرکوں کو نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں ( ف۳۸ ) خود اپنے کفر کی گواہی دے کر ( ف۳۹ ) ان کا تو سب کیا دھرا اِکارت ہے اور وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے ( ف٤۰ )
مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں در انحالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں ۔ 19 ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے 20 اور جہنّم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے ۔
مشرکوں کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں درآنحالیکہ وہ خود اپنے اوپر کفر کے گواہ ہیں ، ان لوگوں کے تمام اعمال باطل ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ دوزخ ہی میں رہنے والے ہیں
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :19 یعنی جو مساجد خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنی ہوں ان کے متولی ، مجاور ، خادم اور آباد کار بننے کے لیے وہ لوگ کسی طرح موزوں نہیں ہو سکتے جو خدا کے ساتھ خداوندی کی صفات ، حقوق اور اختیارات میں دوسروں کو شریک کرتے ہوں ۔ پھر جبکہ وہ خود بھی توحید کی دعوت قبول کرنے سے انکار کرچکے ہوں اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہو کہ ہم اپنی بندگی و عبادت کو ایک خدا کے لیے مخصوص کر دینا قبول نہیں کریں گے تو آخر انہیں کیا حق ہے کہ کسی ایسی عبادت گاہ کے متولی بنے رہیں جو صرف خد اکی عبادت کے لیے بنائی گئی تھی ۔ یہاں اگرچہ بات عام کہی گئی ہے اور اپنی حقیقت کے لحاظ سے یہ عام ہے بھی لیکن خاص طور پر یہاں اس کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجد حرام پر سے مشرکین کی تولیت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس پر ہمیشہ کے لیے اہل توحید کی تولیت قائم کر دی جائے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :20 یعنی جو تھوڑی بہت واقعی خدمت انہوں نے بیت اللہ کی انجام دی وہ بھی اس وجہ سے ضائع ہوگئی کہ یہ لوگ اس کے ساتھ شرک اور جاہلانہ طریقوں کی آمیزش کرتے رہے ۔ ان کی تھوڑی بھلائی کو ان کی بہت بڑی برائی کھا گئ ۔
مشرکوں کو اللہ کے گھر سے کیا تعلق؟ یعنی اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں کو اللہ کی مسجدوں ( کی تعمیر ) کرنے والے بننا لائق ہی نہیں یہ مشرک ہیں بیت اللہ سے انہیں کیا تعلق؟ مساجد کو مسجد بھی پڑھا گیا ہے پس مراد مسجد حرام ہے جو روئے زمین کی مسجدوں سے اشرف ہے جو اول دن سے صرف اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہے جس کی بنیادیں خلیل اللہ نے رکھیں تھیں اور یہ لوگ مشرک ہیں حال و قال دونوں اعتبار سے تم نصرانی سے پوچھو وہ صاف کہے گا میں نصرانی ہوں ، یہود سے پوچھو وہ اپنی یہودیت کا اقرار کریں گے ، صابی سے پوچھو وہ بھی اپنا صابی ہونا اپنی زبان سے کہے گا ، مشرک بھی اپنے مشرک ہو نے کے لیے اقراری ہیں ان کے اس شرک کی وجہ سے ان کے اعمال اکارت ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ناری ہیں ۔ یہ تو مسجد حرام سے اور اللہ کی راہ روکتے ہی ہیں یہ گو کہیں لیکن دراصل یہ اللہ کے اولیاء نہیں اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو متقی ہوں لیکن اکثر لوگ علم سے کورے اور خالی ہوتے ہیں ۔ ہاں بیت اللہ کی آبادی مومنوں کے ہاتھوں ہوتی ہے پس جس کے ہاتھ سے مسجدوں کی آبادی ہو اس کے ایمان کا قرآن گواہ ہے ۔ مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم کسی کو مسجد میں آنے جانے کی عادت والا دیکھو تو اس کے ایمان کی شہات دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور حدیث میں ہے مسجدوں کے آباد کرنے والے اللہ والے ہیں اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مسجد والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب پوری قوم پر سے ہٹا لیتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم کہ میں زمین والوں کو عذاب کرنا چاہتا ہوں لیکن اپنے گھروں کے آباد کرنے والوں اور اپنی راہ میں آپس میں محبت رکھنے والوں اور صبح سحری کے وقت استغفار کرنے والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب ہٹا لیتا ہوں ۔ ابن عساکر میں ہے کہ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ الگ تھلگ پڑی ہوئی ادھر ادھر کی بکھری بکری کو پکڑ کر لے جاتا ہے پس تم پھوٹ اور اختلاف سے بچو جماعت کو اور عوام کو اور مسجدوں کو لازم پکڑے رہو ۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ مسجدیں اس زمین پر اللہ کا گھر ہیں جو ان میں داخل ہو اللہ کا ان پر حق ہے کہ وہ مساجد کا احترام کریں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جو نماز کی اذان سن کر پھر بھی مسجد میں آکر باجماعت نماز نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی وہ اللہ کا نافرمان ہے کہ مسجدوں کی آبادی کرنے والے اللہ کے اور قیامت کے ماننے والے ہی ہوتے ہیں ۔ پھر فرمایا نمازی بدنی عبادت نماز کے پابند ہوتے ہیں اور مالی عبادت زکوٰۃ کے بھی ادا کرنے والے ہوتے ہیں ان کی بھلائی اپنے لیے بھی ہوتی ہے اور پھر عام مخلوق کے لیے بھی ہوتی ہے ان کے دل اللہ کے سوا اور کسی سے ڈرتے نہیں یہی راہ یافتہ لوگ ہیں ۔ موحد ایمان دار قرآن وحدیث کے ماتحت پانچوں نمازوں کے پابند صرف اللہ کا خوف کھانے والے اس کے سوا دوسرے کی بندگی نہ کرنے والے ہی راہ یافتہ اور کامیاب اور بامقصد ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ بقول حضرت ابن عباس قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ عسی وہاں یقین کے معنی میں ہے امید کے معنی میں نہیں مثلاً فرمان ہے ( آیت عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا ) تو مقام محمود میں پہنچانا یقینی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شافع محشر بننا یقینی چیز ہے جس میں کوئی شک شبہ نہیں ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں عسی کلام اللہ میں حق و یقین کے لیے آتا ہے