Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
لَـقَدۡ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِىۡ مَوَاطِنَ كَثِيۡرَةٍ‌ ۙ وَّيَوۡمَ حُنَيۡنٍ‌ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَـتۡكُمۡ كَثۡرَتُكُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡكُمۡ شَيۡـًٔـا وَّضَاقَتۡ عَلَيۡكُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّـيۡتُمۡ مُّدۡبِرِيۡنَ‌ۚ‏ ﴿25﴾
یقیناً اللہ تعالٰی نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں اپنی کژت پر ناز ہو گیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ۔
لقد نصركم الله في مواطن كثيرة و يوم حنين اذ اعجبتكم كثرتكم فلم تغن عنكم شيا و ضاقت عليكم الارض بما رحبت ثم وليتم مدبرين
Allah has already given you victory in many regions and [even] on the day of Hunayn, when your great number pleased you, but it did not avail you at all, and the earth was confining for you with its vastness; then you turned back, fleeing.
Yaqeenan Allah Taalaa ney boht say maidanon mein tumhen fatah di hai aur hunain ki laraee walay din bhi jabkay tumhen apni kasrat per naaz hogaya tha lekin uss ney tumhen koi faeeda na diya bulkay zamin bawajood apni kushadgi kay tum per tang hogaee phir tum peeth pher ker murr gaye.
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بہت سے مقامات پر مدد کی ہے ، اور ( خاص طور پر ) حنین کے دن جب تمہاری تعداد کی کثرت نے تمہیں مگن کردیا تھا ، ( ١٩ ) مگر وہ کثرت تعداد تمہارے کچھ کام نہ آئی ، اور زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی ، پھر تم نے پیٹھ دکھا کر میدان سے رخ موڑ لیا ۔
بیشک اللہ نے بہت جگہ تمہاری مدد کی ( ف٤۹ ) اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی ( ف۵۰ ) اور زمین اتنی وسیع ہو کر تم پر تنگ ہوگئی ( ف۵۱ ) پھر تم پیٹھ دے کر پھرگئے ،
اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے ۔ ابھی غَزوہ حنَین کے روز ﴿اس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو 23﴾ ۔ اس روز تمہیں اپنی کثرت تعداد کا غَرّہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے ۔
بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی اور ( خصوصاً ) حنین کے دن جب تمہاری ( افرادی قوت کی ) کثرت نے تمہیں نازاں بنا دیا تھا پھر وہ ( کثرت ) تمہیں کچھ بھی نفع نہ دے سکی اور زمین باوجود اس کے کہ وہ فراخی رکھتی تھی ، تم پر تنگ ہو گئی چنانچہ تم پیٹھ دکھاتے ہوئے پھر گئے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :23 جو لوگ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اعلان براءت کی خطرناک پالیسی پر عمل کرنے سے تمام عرب کے گوشے گوشے میں جنگ کی آگ بھڑک اُٹھے گے اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگا ، ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان اندیشوں سے کیوں ڈرے جاتے ہو ، جو خدا اس سے بہت زیادہ سخت خطرات کے موقعوں پر تمہاری مدد کر چکا ہے وہ اب بھی تمہاری مدد کو موجود ہے ۔ اگر یہ کام تمہاری قوت پر منحصر ہوتا تو مکہ ہی سے آگے نہ بڑھتا ، ورنہ بدر میں تو ضرور ہی ختم ہو جاتا ۔ مگر اس کی پشت پر تو اللہ کی طاقت ہے اور پچھلے تجربات تم پر ثابت کر چکے ہیں کہ اللہ ہی کی طاقت اب تک اس کو فروغ دیتی رہی ہے ۔ لہٰذا یقین رکھو کہ آج بھی وہی اسے فروغ دے گا ۔ غزوہ حُنین جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے شوال سن ۸ ھجری میں ان آیات کے نزول سے صرف بارہ تیرہ مہینے پہلے مکے اور طائف کے درمیان وادی حنین میں پیش آیا تھا ۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کی طرف سے ۱۲ ہزار فوج تھی جو اس سے پہلے کبھی کسی اسلامی غزوہ میں اکٹھی نہیں ہوئی تھی اور دوسری طرف کفار ان سے بہت کم تھے ۔ لیکن اس کے باوجود قبیلہ ہوازن کے تیر اندازوں نے ان کا منہ پھیر دیا اور لشکر اسلامی بری طرح تتر بتر ہو کر پسپا ہوا ۔ اس وقت صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور چند مٹھی بھر جانباز صحابہ تھے جن کے قدم اپنی جگہ جمے رہے اور انہی کی ثابت قدمی کو نتیجہ تھا کہ دوبارہ فوج کی ترتیب قائم ہو سکی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی ۔ ورنہ فتح مکہ سے جو کچھ حاصل ہوا تھا اس سے بہت زیادہ حنین میں کھو دینا پڑتا ۔
نصرت الٰہی کا ذکر مجاہد کہتے ہیں براۃ کی یہ پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بہت بڑا احسان مومنوں پر ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی آپ امداد فرمائی انہیں دشمنوں پر غالب کر دیا اور ایک جگہ نہیں ہر جگہ اس کی مدد شامل حال رہی اسی وجہ سے فتح و ظفر نے کبھی ہم رکابی نہ چھوڑی ۔ یہ صرف تائید ربانی تھی نہ کہ مال اسباب اور ہتھیار کی فراوانی اور نہ تعداد کی زیادتی ۔ یاد کرلو حنین والے دن تمہیں ذرا اپنی تعداد کی کثرت پر ناز ہو گیا تو کیا حال ہوا ؟ پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے تھے ۔ معدودے چند ہی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہرے اسی وقت اللہ کی مدد نازل ہوئی اس نے دلوں میں تسکین ڈال دی یہ اس لیے کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ مدد اسی اللہ کی طرف سے ہے اس کی مدد سے چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے گروہوں کے منہ پھیر دیئے ہیں ۔ اللہ کی امداد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔ یہ واقعہ ہم عنقریب تفصیل وار بیان کریں ، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسند کی حدیث میں ہے بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین چھوٹا لشکر چار سو کا ہے اور بہترین بڑا لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کی تعداد تو اپنی کمی کے باعث کبھی مغلوب نہیں ہو سکتی ۔ یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ یہ روایت سوائے ایک راوی کے باقی سب راویوں نے مرسل بیان کی ہے ۔ ابن ماجہ اور بہیقی میں بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ سنہ ٨ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ماہ شوال میں جنگ حقین ہوئی تھی ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے فارغ ہوئے اور ابتدائی امور سب انجام دے چکے اور عموما مکی حضرات مسلمان ہو چکے اور انہیں آپ آزاد بھی کر چکے تو آپ کو خبر ملی کہ قبیلہ ہوازن جمع ہوا ہے اور آپ سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے ۔ ان کا سردار مالک بن عوف نصری ہے ۔ ثقیف کا سارا قبیلہ ان کے ساتھ ہے اسی طرح بنو جشم بنو سعد بن بکر بھی ہیں اور بنو ہلال کے کچھ لوگ بھی ہیں اور کچھ لوگ بنو عمرو بن عامر کے اور عون بھی عامر کے بھی ہیں یہ سب لوگ مع اپنی عورتوں اور بچوں اور گھریلو مال کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں ۔ یہاں تک کے اپنی بکریوں اور اونٹوں کو بھی انہوں نے ساتھ ہی رکھا ہے تو آپ نے اس لشکر کو لے کر جو اب آپ کے ساتھ مہاجرین اور انصار وغیرہ کا تھا ان کے مقابلے کے لیے چلے تقریباً دو ہزار نو مسلم مکی بھی آپ کے ساتھ ہو لیے ۔ مکہ اور طائف کے درمیان کی وادی میں دونوں لشکر مل گئے اس جگہ کا نام حنین تھا صبح سویرے منہ اندھیرے قبیلہ ہوازن جو کمین گاہ میں چپھے ہوئے تھے انہوں نے بےخبری میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا بےپنا تیر باری کرتے ہوئے آگے بڑھے اور تلواریں چلانی شروع کر دیں یہاں مسلمانوں میں دفعتاً ابتری پھیل گی اور یہ منہ پھر کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف بڑھے آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے جانور کی دائیں جانب سے نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب بائیں طرف سے نکیل پکڑے ہوئے تھے جانور کی تیزی کو یہ لوگ روک رہے تھے آپ با آواز بلند اپنے تئیں پہنچوا رہے تھے مسلمانوں کو واپسی کا حکم فرما رہے تھے اور ندا کرتے جاتے تھے کہ اللہ کے بندو کہاں چلے ، میری طرف آؤ ۔ میں اللہ کا سچا رسول ہوں میں نبی ہوں ، جھوٹا نہیں ہوں ۔ میں اولاد عبد المطلب میں سے ہوں ۔ آپ کے ساتھ اس وقت صرف اسی یا سو کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہ رہ گئے تھے ۔ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ حضرت ایمن بن ام ایمن ، حضرت اسامہ بن زید وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تھے پھر آپ نے اپنے چچا حضرت عباس کو بہت بلند آواز والے تھے حکم دیا کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے میرے صحابیوں کو آواز دو کہ وہ نہ بھاگیں پس آپ نے یہ کہہ کر اے ببول کے درخت تلے بیعت کرنے والو اے سورہ بقرہ کے حاملو پس یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچنی تھی کہ انہوں نے ہر طرف سے لبیک لبیک کہنا شروع کیا اور آواز کی جانب لپک پڑے اور اسی وقت لوٹ کر آپ کے آس پاس آکر کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ اگر کسی کا اونٹ اڑ گیا تو اس نے اپنی زرہ پہن لی اونٹ پر سے کود گیا اور پیدل سرکار نبوت میں حاضر ہو گیا جب کچھ جماعت آپ کے ارد گرد جمع ہو گئی آپ نے اللہ سے دعا مانگنی شروع کی کہ باری الٰہی جو وعدہ تیرا میرے ساتھ ہے اسے پورا فرما پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور اسے کافروں کی طرف پھینکا جس سے ان کی آنکھوں اور ان کا منہ بھر گیا وہ لڑائی کے قابل نہ رہے ۔ ادھر مسلمانوں نے ان پر دھاوا بول دیا ان کے قدم اکھڑ گئے بھاگ نکلے ۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور مسلمانوں کی باقی فوج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی اتنی دیر میں تو انہوں نے کفار کو قید کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھیر کر دیا مسند احمد میں ہے حضرت عبد الرحمن فہری جن کا نام یزید بن اسید ہے یا یزید بن انیس ہے اور کرز بھی کہا گیا ہے فرماتے ہیں کہ میں اس معرکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا دن سخت گرمی والا تھا دوپہر کو ہم درختوں کے سائے تلے ٹھہر گئے سورج ڈھلنے کے بعد میں نے اپنے ہتھیار لگا لیے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے پہنچا سلام کے بعد میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوائیں ٹھنڈی ہو گئی ہیں آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے بلال اس وقت بلال ایک درخ کے سائے میں تھے حضور کی آواز سنتے ہی پرندے کی طرح گویا اڑ کر لبیک و سعد یک و انا فداوک کہتے ہوئے حاضر ہوئے ۔ آپ نے فرمایا میری سواری تیار کرو اسی وقت انہوں نے زین نکالی جس کے دونوں پلے کھجور کی رسی کے تھے جس میں کوئی فخر و غرور کی چیز نہ تھی جب کس چکے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے ہم نے صف بندی کر لی شام اور رات اسی طرح گذری پھر دونوں لشکروں کی مڈ بھیڑ ہو گئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جیسے قرآن نے فرمایا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی کہ اے اللہ کے بندو میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں اے مہاجرین میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں پھر اپنے گھوڑے سے اتر پڑے مٹی کی ایک مٹھی بھرلی اور یہ فرما کر ان کے چہرے بگڑ جائیں کافروں کی طرف پھینک دی اسی سے اللہ نے انہیں شکست دے دی ۔ ان مشرکوں کا بیان ہے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں اور منہ میں یہ مٹی نہ آئی ہو اسی وقت ہمیں ایسا معلوم ہو نے لگا کہ گویا زمین و آسمان کے درمیان لوہا کسی لوہے کی کے طشت پر بج رہا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ بھاگے ہوئے مسلمان جب ایک سو آپ کے پاس واپس پہنچ گئے آپ نے اسی وقت حملہ کا حکم دیدیا اول تو منادی انصار کی تھی پھر خزرج ہی پر رہ گئی یہ قبیلہ لڑائی کے وقت بڑا ہی صابر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر سے میدان جنگ کا نظارہ دیکھا اور فرمایا اب لڑائی گرما گرمی سے ہو رہی ہے ۔ اس میں ہے کہ اللہ نے جس کافر کو چاہا قتل کرا دیا جسے چاہا قید کرا دیا ۔ اور ان کے مال اور اولادیں اپنے نبی کو فے میں دلا دیں ۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا اے ابو عمارہ کیا تم لوگ رسول اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے حنین والے دن بھاگ نکلے تھے؟ آپ نے فرمایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم پیچھے نہ ہٹا تھا بات یہ ہے کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیر اندازی کے فن کے استاد تھے اللہ کے فضل سے ہم نے انہیں پہلے ہی حملے میں شکست دے دی لیکن جب لوگ مال غنیمت پر جھک پڑے انہوں نے موقع دیکھ کر پھر جو پوری مہارت کے ساتھ تیروں کی بار برسائی تو یہاں بھگڈر مچ گئی ۔ سبحان اللہ رسول اللہ رصلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شجاعت اور پوری بہادری کا یہ موقع تھا ۔ لشکر بھاگ نکلا ہے اس وقت آپ کسی تیز سواری پر نہیں جو بھاگنے دوڑنے میں کام آئے بلکہ خچر پر سوار ہیں اور مشرکوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنے تئیں چھپاتے نہیں بلکہ اپنا نام اپنی زبان سے پکار پکار کر بتا رہے ہیں کہ نہ پہنچاننے والے بھی پہنچا لیں ۔ خیال فرمائیے کہ کس قدر ذات واحد پر آپ کا توکل ہے اور کتنا کامل یقین ہے آپ کو اللہ کی مدد پر ۔ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امر رسالت کو پورا کر کے ہی رہے گا اور آپ کے دین کو دنیا کے اور دینوں پر غالب کر کے ہی رہے گا فصلوات اللہ وسلامہ علیہ ابد ابدا ۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں کے اوپر سکینت نازل فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے جنہیں کوئی نہ دیکھتا تھا ۔ ایک مشرک کا بیان ہے کہ حنین والے دن جب ہم مسلمانوں سے لڑنے لگے ایک بکری کا دودھ نکالا جائے اتنی دیر بھی ہم نے انہیں اپنے سامنے جمنے نہیں دیا فورا بھاگ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کا تعاقب شروع کیا یہاں تک کہ ہمیں ایک صاحب سفید خچر پر سوار نظر پڑے ہم نے دیکھا یہ کہ خوبصورت نورانی چہرے والے کچھ لوگ ان کے ارد گرد ہیں ان کی زبان سے نکلا کہ تمہارے چہرے بگڑ جائیں واپس لوٹ جاؤ بس یہ کہنا تھا کہ ہمیں شکست ہو گئی یہاں تک کہ مسلمان ہمارے کندھوں پر سوار ہوگئے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں بھی اس لشکر میں تھا آپ کے ساتھ صرف اسی مہاجر و انصار رہ گئے تھے ہم نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی ہم پر اللہ نے اطمینان و سکون نازل فرما دیا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی طرف بڑھ رہے تھے جانور نے ٹھوکر کھائی آپ زین پر سے نیچے کی طرف جھک گئے میں نے آواز دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہو جائیے اللہ آپ کو اونچا ہی رکھے آپ نے فرمایا ایک مٹھی مٹی کی تو بھر دو میں نے بھر دی آپ نے کافروں کی طرف پھینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں پھر فرمایا مہاجر و انصار کہاں ہیں میں نے کہا یہیں ہیں فرمایا نہیں آواز دو میرا آواز دینا تھا کہ وہ تلواریں سونتے ہوئے لپک لپک کر آگئے اب تو مشرکین کی کچھ نہ چلی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ بیہیقی کی ایک روایت میں ہے شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ حنین کے دن جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ لشکر شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا رہ گئے ہیں تو مجھے بدر والے دن اپنے باپ اور چچا کا مارا جانا یاد آیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں ، میں نے اپنے جی میں کہا کہ ان کے انتقام لینے کا اس سے اچھا موقعہ اور کون سا ملے گا ؟ آؤ پیغمبر کو قتل کر دوں اس ارادے سے میں آپ کی دائیں جانب سے بڑھا لیکن وہاں میں نے عباس بن عبدالمطلب کو پایا سفید چاندی جیسی زرہ پہنے مستعد کھڑے ہیں میں نے سوچا کہ یہ چچا ہیں اپنے بھتیجے کی پوری حمایت کریں گے چلو بائیں جانب سے جا کر اپنا کام کروں اور ادھر سے آیا تو دیکھا ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب کھڑے ہیں میں نے کہا ان کے بھی چچا کے لڑکے بھائی ہیں اپنے بھائی کی ضرور حمایت کریں گے پھر میں رکاوٹ کاٹ کر پیھے کی طرف آیا آپ کے قریب پہنچ گیا اب یہی باقی رہ گیا تھا کہ تلوار سونت کر وار کر دوں کہ میں نے دیکھا ایک آگ کا کوڑا بجلی کی طرف چمک کر مجھ پر پڑا چاہتا ہے میں نے آنکھیں بند کرلیں اور پچھلے پاؤں پیچھے کی طرف ہٹا اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میری جانب التفات کیا اور فرمایا شیبہ میرے پاس آیا ، اللہ اس کے شیطان کو دور کر دے ۔ اب میں نے آنکھ کھول کر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو واللہ آپ مجھے میرے کانوں اور آنکھوں سے بھی زیادہ محبوب تھے آپ نے فرمایا شیبہ جا کافروں سے لڑ شیبہ کا بیان ہے کہ اس جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں میں بھی تھا لیکن میں اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی معرفت کی بناء پر نہیں نکلا تھا بلکہ میں نے کہا واہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کہ ہوازن قریش پر غالب آ جائیں؟ میں آپ کے پاس ہی کھڑا ہوا تھا تو میں نے ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ کر کہا یا رسول اللہ میں تو ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ رہا ہوں آپ نے فرمایا شیبہ وہ تو سوا کافروں کے کسی کو نظر نہیں آتے ۔ پھر آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر دعا کی یا اللہ شیبہ کو ہدایت کر پھر دوبارہ سہ بارہ یہی کیا اور یہی کہا واللہ آپ کا ہاتھ ہٹنے سے پہلے ہی ساری دنیا سے زیادہ آپ کی محبت میں اپنے دل میں پانے لگا ۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اس غزوے میں آپ کے ہم رکاب تھا میں نے دیکھا کہ کوئی چیز آسمان سے اتری رہی ہے چیونٹیوں کی طرح اس نے میدان گھیر لیا اور اسی وقت مشرکوں کے قدم اکھڑ گئے واللہ ہمیں کوئی شک نہیں کہ وہ آسمانی مدد تھی ۔ یزید بن عامر سوابی اپنے کفر کے زمانے میں جنگ حنین میں کافرں کے ساتھ تھا بعد میں یہ مسلمان ہوگئے تھے ان سے جب دریافت کیا جاتا کہ اس موقعہ پر تمہارے دلوں کا رعب و خوف سے کیا حال تھا ؟ تو وہ طشت میں کنکریاں رکھ کر بجا کر کہتے بس یہی آواز ہمیں ہمارے دل سے آ رہی تھی بےطرح کلیجہ اچھل رہا تھا اور دل دہل رہا تھا ۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے رعب سے مدد دی گئی ہے ۔ مجھے جامع کلمات دیئے گئے ہیں الغرض کفار کو اللہ نے یہ سزا دی اور یہ ان کے کفر کا بدلہ تھا ۔ باقی ہوازن پر اللہ نے مہربانی فرمائی انہیں توبہ نصیب ہوئی مسلمان ہو کر خدمت مخدوم میں حاضر ہوئے اس وقت آپ فتح مندی کے ساتھ لوٹتے ہوئے مکہ شریف جعرانہ کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ جنگ کو بیس دن کے قریب گذر چکے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ اب تم دو چیزوں میں سے ایک پسند کر لو یا تو قیدی یا مال؟ انہوں نے قیدیوں کا واپس لینا پسند کیا ان قیدیوں کی چھوٹوں بڑوں کی مرد عورت کی بالغ نابالغ کی تعداد چھ ہزار تھی ۔ آپ نے یہ سب انہیں لوٹا دیئے ان کا مال بطور غنیمت کے مسلمانوں میں تقسیم ہوا اور نو مسلم جو مکہ کے آزاد کردہ تھے انہیں بھی آپ نے اس مال میں سے دیا کہ ان کے دل اسلام کی طرف پورے مائل ہو جائیں ان میں سے ایک ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمائے ۔ مالک بن عوف نصری کو بھی آپ نے سو اونٹ دیئے اور اسی کو اس کی قوم کا سردار بنا دیا جیسے کہ وہ تھا اسی کی تعریف میں اسی نے اپنے مشہور قصیدے میں کہا ہے کہ میں نے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہ کسی اور کو دیکھا نہ سنا ۔ دینے میں اور بخشش و عطا کرنے میں اور قصوروں سے درگزر کرنے میں دنیا میں آپ کا ثانی نہیں آپ کل قیامت کے دن ہونے والے تمام امور سے مطلع فرماتے رہتے ہیں یہی نہیں شجاعت اور بہادری میں بھی آپ بےمثل ہیں میدان جنگ میں گرجتے ہوئے شیر کی طرح آپ دشمنوں کی طرف بڑھتے ہیں ۔