Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
قَاتِلُوا الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوۡلُهٗ وَلَا يَدِيۡنُوۡنَ دِيۡنَ الۡحَـقِّ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ حَتّٰى يُعۡطُوا الۡجِزۡيَةَ عَنۡ يَّدٍ وَّهُمۡ صٰغِرُوۡنَ‏ ﴿29﴾
ان لوگوں سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ شے کو حرام نہیں جانتے نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں ۔
قاتلوا الذين لا يؤمنون بالله و لا باليوم الاخر و لا يحرمون ما حرم الله و رسوله و لا يدينون دين الحق من الذين اوتوا الكتب حتى يعطوا الجزية عن يد و هم صغرون
Fight those who do not believe in Allah or in the Last Day and who do not consider unlawful what Allah and His Messenger have made unlawful and who do not adopt the religion of truth from those who were given the Scripture - [fight] until they give the jizyah willingly while they are humbled.
Unn logon say laro jo Allah per aur qayamat kay din per eman nahi latay jo Allah aur uss kay rasool ki haram kerda shey ko haram nahi jantay na deen-e-haq ko qabool kertay hain unn logon mein say jinhen kitab di gaee hai yahan tak kay woh zaleel-o-khuwar hoker apney hath say jizya ada keren.
وہ اہل کتاب ( ٢٥ ) جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ، نہ یوم آخرت پر ( ٢٦ ) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے ، اور نہ دین حق کو اپنا دین مانتے ہیں ان سے جنگ کرو ، یہاں تک کہ وہ خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں ۔ ( ٢٧ )
لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور قیامت پر ( ف٦۱ ) اور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیا اللہ اور اس کے رسول نے ( ف٦۲ ) اور سچے دین ( ف٦۳ ) کے تابع نہیں ہوتے یعنی وہ جو کتاب دیے گئے جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہو کر ( ف٦٤ )
جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے 26 اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے 27 اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ۔ ﴿ان سے لڑو﴾ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں ۔ 28 ؏ ٤
۔ ( اے مسلمانو! ) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ ( بھی ) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق ( یعنی اسلام ) اختیار کرتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ ( حکمِ اسلام کے سامنے ) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :26 ”اگرچہ اہل کتاب خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کے مدعی ہیں لیکن فی الواقع نہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر ۔ خدا پر ایمان رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی بس اس بات کو مان لے کہ خدا ہے ، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خدا کو الٰہ واحد اور رب واحد تسلیم کرے اور اس کی ذات ، اس کی صفات ، اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں نہ خود شریک بنے نہ کسی کو شریک ٹھہرائے ۔ لیکن نصاریٰ اور یہود دونوں اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ، جیسا کہ بعد والی آیات میں بتصریح بیان کیا گیا ہے ۔ اس لیے ان کا خدا کو ماننا بے معنی ہے اور اسے ہرگز ایمان باللہ نہیں کہا جا سکتا ۔ اسی طرح آخرت کو ماننے کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی یہ بات مان لے کہ ہم مرنے کے بعد پھر اُٹھائے جائیں گے ، بلکہ اس کے ساتھ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ وہاں کوئی سعی سفارش ، کوئی فدیہ ، اور کسی بزرگ سے منتسب ہونا کام نہ آئے گا اور نہ کوئی کسی کا کفارہ بن سکے گا ، خدا کی عدالت میں بے لاگ انصاف ہو گا اور آدمی کے ایمان و عمل کے سوا کسی چیز کا لحاظ نہ رکھا جائے گا ۔ اس عقیدے کے بغیر آخرت کو ماننا لا حاصل ہے ۔ لیکن یہود و نصاریٰ نے اسی پہلو سے اپنے عقیدے کو خراب کر لیا ہے ۔ لہٰذا ان کا ایمان بالآخرت بھی مسلّم نہیں ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :27 یعنی اس شریعت کو اپنا قانون زندگی نہیں بناتے جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعہ سے نازل کی ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :28 یعنی لڑائی کی غایت یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں اور دین حق کے پیرو بن جائیں ، بلکہ اس کی غایت یہ ہے کہ ان کی خودمختاری و بالادستی ختم ہو جائے ۔ وہ زمین میں حاکم اور صاحب امر بن کر نہ رہیں بلکہ زمین کے نظام زندگی کی باگیں اور فرمانروائی و امامت کے اختیارات متبعین دین حق کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ ان کے ماتحت تابع و مطیع بن کر رہیں ۔ جزیہ بدل ہے اس امان اور اس حفاظت کا جو ذمیوں کو اسلامی حکومت میں عطا کی جائے گی ۔ نیز وہ علامت ہے اس امر کی کہ یہ لوگ تابع امر بننے پر راضی ہیں ۔ ” ہاتھ سے جزیہ دینے“ کا مفہوم سیدھی طرح مطیعانہ شان کے ساتھ جزیہ ادا کرنا ہے ۔ اور چھوٹے بن کر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین میں بڑے وہ نہ ہوں بلکہ وہ اہل ایمان بڑے ہوں جو خلافتِ الہٰی کا فرض انجام دے رہے ہیں ۔ ابتداء یہ حکم یہود و نصاریٰ کے متعلق دیا گیا تھا ، لیکن آگے چل کر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوس سے جزیہ لے کر انہیں ذمی بنایا اور اس کے بعد صحابہ کرام نے بالانفاق بیرون عرب کی تمام قوموں پر اس حکم کو عام کر دیا ۔ یہ جزیہ وہ چیز ہے جس کے لیے بڑی بڑی معذرتیں اُنیسویں صدی عیسوی کے دور مذلت میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں اور اس دور کی یادگار کچھ لوگ اب بھی موجود ہیں جو صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں ۔ لیکن خدا کا دین اس سے بہت بالا و برتر ہے کہ اسے خدا کے باغیوں کے سامنے معذرت پیش کرنے کی کوئی حاجت ہو ۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے دین کو اختیار نہیں کرتے اور اپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہوں پر چلتے ہیں وہ حد سے حد بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جو غلطی کرنا چاہتے ہیں کریں ، لیکن انہیں اس کا قطعا کوئی حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی اقتدار و فرمانروائی کی باگیں ان کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریں اور چلائیں ۔ یہ چیز جہاں کہیں ان کو حاصل ہو گی ، فساد رونما ہوگا اور اہل ایمان کا فرض ہوگا کہ ان کو اس سے بے دخل کرنے اور انہیں نظام صالح کا مطیع بنانے کی کوشش کریں ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ جزیہ آخر کس چیز کی قیمت ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس آزادی کی قیمت ہے جو انہیں اسلامی اقتدار کے تحت اپنی گمراہیوں پر قائم رہنے کے لیے دی جاتی ہے ، اور اس قیمت کو اس صالح نظام حکومت کے نظم و نسق پر صَرف ہونا چاہیے جو انہیں اس آزادی کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے ۔ اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جزیہ ادا کرتے وقت ہر سال ذمیوں میں یہ احساس تازہ ہوتا رہے گا کہ خدا کی راہ میں زکوٰۃ دینے کے شرف سے محرومی اور اس کے بجائے گمراہیوں پر قائم رہنے کی قیمت ادا کرنا کتنی بڑی بد قسمتی ہے جس میں وہ مبتلا ہیں ۔