Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَقَالَتِ الۡيَهُوۡدُ عُزَيۡرُ ۨابۡنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الۡمَسِيۡحُ ابۡنُ اللّٰهِ‌ؕ ذٰ لِكَ قَوۡلُهُمۡ بِاَ فۡوَاهِهِمۡ‌ ۚيُضَاھِــُٔــوۡنَ قَوۡلَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ‌ ؕ قَاتَلَهُمُ اللّٰهُ ‌ۚ  اَنّٰى يُؤۡفَكُوۡنَ ﴿30﴾
یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے ۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں ۔
و قالت اليهود عزير ابن الله و قالت النصرى المسيح ابن الله ذلك قولهم بافواههم يضاهون قول الذين كفروا من قبل قتلهم الله انى يؤفكون
The Jews say, "Ezra is the son of Allah "; and the Christians say, "The Messiah is the son of Allah ." That is their statement from their mouths; they imitate the saying of those who disbelieved [before them]. May Allah destroy them; how are they deluded?
Yahood kehtay hain kay uzair Allah ka beta hai aur nasrani kehtay hain kay maseeh Allah ka beta hai yeh qol sirf unn kay mun ki baat hai. Aglay munkiron ki baat ki yeh bhi naqal kerney lagay Allah enehn ghaarat keray woh kaisay paltaye jatay hain.
یہودی تو یہ کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں ، ( ٢٨ ) اور نصرانی یہ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ، یہ سب ان کی منہ کی بنائی ہوئی باتیں ہیں ۔ یہ ان لوگوں کی سی باتیں کر رہے ہیں جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں ۔ ( ٢٩ ) اللہ کی مار ہو ان پر ! یہ کہاں اوندھے بہکے جارہے ہیں؟
اور یہودی بولے عزیر اللہ کا بیٹا ہے ( ف٦۵ ) اور نصرانی بولے مسیح اللہ کا بیٹا ہے ، یہ باتیں وہ اپنے منہ سے بکتے ہیں ( ف٦٦ ) اگلے کافروں کی سی بات بناتے ہیں ، اللہ انہیں مارے ، کہاں اوندھے جاتے ہیں ( ف٦۷ )
یہودی کہتے ہیں کہ عزَیر اللہ کا بیٹا ہے ، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ 29 یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے ۔ 30 خدا کی مار ان پر ، یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں ۔
اور یہود نے کہا: عزیر ( علیہ السلام ) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصارٰی نے کہا: مسیح ( علیہ السلام ) اللہ کے بیٹے ہیں ۔ یہ ان کا ( لغو ) قول ہے جو اپنے مونہہ سے نکالتے ہیں ۔ یہ ان لوگوں کے قول سے مشابہت ( اختیار ) کرتے ہیں جو ( ان سے ) پہلے کفر کر چکے ہیں ، اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :29 عُزَیر سے مراد عَزرا ( Ezra ) ہیں جن کو یہودی اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں ۔ ان کا زمانہ سن ٤۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے ۔ اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جو دور ابتلاء بنی اسرائیل پر آیا اس میں نہ صرف یہ کہ توراۃ دنیا سے گم ہو گئی تھی بلکہ بابل کی اسیری نے اسرائیلی نسلوں کو اپنی شریعت ، اپنی روایات اور اپنی قومی زبان ، عبرانی تک سے ناآشنا کر دیا تھا ۔ آخر کار انہی عزیر یا عزرا نے بائیبل کے پُرانے عہد نامے کو مرتب کیا ، اور شریعت کی تجدید کی ۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل ان کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور یہ تعظیم اس حد تک بڑھ گئی کہ بعض یہودی گروہوں نے ان کو ابن اللہ تک بنا دیا ۔ یہاں قرآن مجید کے ارشاد کا مقصود یہ نہیں ہے کہ تمام یہودیوں نے بالاتفاق عزرا کاہن کو خدا کا بیٹا بنایا ہے بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ خدا کے متعلق یہودیوں کے اعتقادات میں جو خرابی رونما ہوئی وہ اس حد تک ترقی کر گئی کہ عزرا کو خدا کا بیٹا قرار دینے والے بھی ان میں پیدا ہوئے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :30 یعنی مصر ، یونان ، روم ، ایران اور دوسرے ممالک میں جو قومیں پہلے گمراہ ہو چکی تھیں ان کے فلسفوں اور اوہام و تخیلات سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے بھی ویسے ہی گمراہانہ عقیدے ایجاد کر لیے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو المائدہ حاشیہ ۱۰۱ ) ۔
بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے ان تمام آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں ، کافروں ، یہودیوں اور نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے ۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں یہود و عزیر کو اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں اللہ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ ان لوگوں کو حضرت عزیر کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا ۔ عزیر علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گذر ہوا دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا ؟ میرے کپڑوں کا کیا ہو گا ؟ آپ اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا ؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ ۔ آپ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی ۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا اے عزیر پھر تو یہ تو بتا کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس نے کہا آپ یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں؟ آپ کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں وہ کھا لو چنانچہ آپ وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں انہوں نے کہا ہم سب آپ کے نزدیک سچے ہیں آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے یہ یک وقت پوری توراۃ لکھ ڈالی ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں عزیر علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے حضرت عزیر علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ اللہ کے بیٹے ہیں ۔ حضرت مسیح کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے ۔ پس ان دونوں گروہوں کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے؟ مسند احمد ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہو گئی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کر دیا اور رقم بھی دی یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ التسلیم کے پاس چلے جاؤ چنانچہ یہ مدینہ شریف آ گئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی آپ خود ان کے پاس آئے اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی ( آیت اتخذوا ) کی تلاوت ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی آپ نے فرمایا ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی پھر آپ نے فرمایا عدی کیا تم اس سے بےخبر ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے؟ کیا تمہارے خیال میں اللہ سے بڑا اور کوئی ہے؟ کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے؟ پھر آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے مان لی اور اللہ کی توحید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی ادا کی آپ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا یہود پر غضب الٰہی اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہوگئے ہیں ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے ۔ سدی فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ کی کتاب کو ایک طرف ہٹا دیا ۔ اسی لئے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے ۔ اسی کے فرمان شریعت ہیں ، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں ، اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے ۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے ، اس جیسا اس کا شریک ، اس کا نظیر اس کا مددگار اس کی ضد کا کوئی نہیں وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار ۔