Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَا لَـكُمۡ اِذَا قِيۡلَ لَـكُمُ انْفِرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اثَّاقَلۡـتُمۡ اِلَى الۡاَرۡضِ‌ ؕ اَرَضِيۡتُمۡ بِالۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا مِنَ الۡاٰخِرَةِ‌ ۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا فِى الۡاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيۡلٌ‏ ﴿38﴾
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو ۔ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ریجھ گئے ہو ۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے ۔
يايها الذين امنوا ما لكم اذا قيل لكم انفروا في سبيل الله اثاقلتم الى الارض ارضيتم بالحيوة الدنيا من الاخرة فما متاع الحيوة الدنيا في الاخرة الا قليل
O you who have believed, what is [the matter] with you that, when you are told to go forth in the cause of Allah , you adhere heavily to the earth? Are you satisfied with the life of this world rather than the Hereafter? But what is the enjoyment of worldly life compared to the Hereafter except a [very] little.
Aey eman walon tumhen kiya hogaya hai kay jab tum say kaha jata hai kay chalo Allah kay raastay mein kooch kero to tum zamin say lagay jatay ho. Kiya tum aakhirat kay ewaz duniya ki zindagani per hi reejh gaye ho. Suno! Duniya ki zindagi to aakhirat kay muqablay mein kuch yun hi si hai.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ اللہ کے راستے میں ( جہاد کے لیے ) کوچ کرو تو تم بوجھل ہو کر زمین سے لگ گئے ؟ ( ٣٦ ) کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی پر راضی ہوچکے ہو؟ ( اگر ایسا ہے ) تو ( یاد رکھو کہ ) دنیوی زندی کا مزہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ، مگر تھوڑا ۔
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا جب تم سے کہا جائے کہ خدا کی راہ میں کوچ کرو تو بوجھ کے مارے زمین پر بیٹھ جاتے ہو ( ف۸۸ ) کیا تم نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے پسند کر لی اور جیتی دنیا کا اسباب آخرت کے سامنے نہیں مگر تھوڑا ( ف۸۹ )
38 اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے ؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا ؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا ۔ 39
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ( جہاد کے لئے ) نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین ( کی مادی و سفلی دنیا ) کی طرف جھک جاتے ہو ، کیا تم آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے ہو؟ سو آخرت ( کے مقابلہ ) میں دنیوی زندگی کا ساز و سامان کچھ بھی نہیں مگر بہت ہی کم ( حیثیت رکھتا ہے )
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :38 یہاں سے وہ خطبہ شروع ہوتا ہے جو غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نازل ہوا تھا ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :39 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ عالم آخرت کے بے پایاں زندگی اور وہاں کے بے حد وحساب سازو سامان کو جب تم دیکھو گے تب تمہیں معلوم ہو گا کہ دنیا کے تھوڑے سے عرصہ حیات میں لطف اندوزی کے جو بڑے سے بڑے امکانات تم کو حاصل تھے اور زیادہ سے زیادہ جو اسباب عیش تم کو میسر تھے وہ غیر محدود امکانات اور اس نعیم و ملک کبیر کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے ۔ اور اس وقت تم کو اپنی اس ناعاقبت اندیشی و کم نگاہی پر افسوس ہو گا کہ تم نے کیوں ہمارے سمجھانے کے باوجود دنیا کے عارضی اور قلیل منافع کی خاطر اپنے آپ کو ان ابدی اور کثیر منافع سے محروم کر لیا ۔ دوسرے یہ کہ متاع حیاۃ دنیا آخرت میں کام آنے والی چیز نہیں ہے ۔ یہاں تم خواہ کتنا ہی سروسامان مہیا کر لو ، موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہر چیز سے دست بردار ہونا پڑے گا ، اور سرحد موت کے دوسری جانب جو عالم ہے وہاں ان میں سے کوئی چیز بھی تمہارے ساتھ منتقل نہ ہوگی ۔ وہاں اس کا کوئی حصہ اگر تم پا سکتے ہو تو صرف وہی جسے تم نے خدا کی رضا پر قربان کیا ہو اور جس کی محبت پر تم نے خدا اور اس کے دین کی محبت کو ترجیح دی ہو ۔
غزوہ تبوک اور جہاد سے گریزاں لوگوں کو انتباہ ایک طرف تو گرمی سخت پڑ رہی تھی دوسری طرف پھل پک گئے تھے اور درختوں کے سائے بڑھ گئے تھے ۔ ایسے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دور دراز کے سفر کے لئے تیار ہوگئے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ چلنے کے لئے سب سے فرما دیا کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں جو تنبیہ کی گئی ان آیتوں کا شروع اس آیت سے ہے کہ جب تمہیں اللہ کی راہ کے جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو تم کیوں زمین میں دھنسنے لگتے ہو ۔ کیا دنیا کی ان فانی چیزوں کی ہوس میں آخرت کی باقی نعمتوں کو بھلا بیٹھے ہو؟ سنو دنیا کی تو آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمے کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس انگلی کو کوئی سمندر میں ڈبو کر نکالے اس پر جتنا پانی سمندر کے مقابلے میں ہے اتنا ہی مقابلہ دنیا کا آخرت سے ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ میں نے سنا ہے آپ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ کا ثبوات دیتا ہے آپ نے فرمایا بلکہ میں نے دو لاکھ کا فرمان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے پھر آپ نے اس آیت کے اسی جملے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ دنیا جو گذر گئی اور جو باقی ہے وہ سب آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے ۔ مروی ہے کہ عبدالعزیز بن مروان نے اپنے انتقال کے وقت اپنا کفن منگوایا اسے دیکھ کر فرمایا بس میرا تو دنیا سے یہی حصہ تھا میں اتنی دنیا لے کر جا رہا ہوں پھر پیٹھ موڑ کر رو کر کہنے لگے ہائے دنیا تیرا زیادہ بھی کم ہے اور تیرا کم تو بہت ہی چھوٹا ہے افسوس ہم تو دھوکے میں ہی رہے ۔ پھر ترک جہاد پر اللہ تعالیٰ ڈانٹتا ہے کہ سخت درد ناک عذاب ہوں گے ۔ ایک قبیلے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لئے بلوایا وہ نہ اٹھے اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک لی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنے دل میں اترانا مت کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار ہیں اگر تم درست نہ رہے تو اللہ تمہیں برباد کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ کا دوسرے لوگوں کو مددگار کر دے گا ۔ جو تم جیسے نہ ہوں گے ۔ تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ یہ نہیں کہ تم نہ جاؤ تو مجاہدین جہاد کر ہی نہ سکیں ۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ تمہارے بغیر بھی اپنے دشمنوں پر اپنے غلاموں کو غالب کر سکتا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ ( اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 41؀ ) 9- التوبہ:41 ) اور ( مَا كَانَ لِاَھْلِ الْمَدِيْنَةِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ يَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَلَا يَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖ ۭذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا يُصِيْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَةٌ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَـطَــــــُٔوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيْظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ ١٢٠؀ۙ ) 9- التوبہ:120 ) یہ سب آیتیں ( وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ ١٢٢؀ۧ ) 9- التوبہ:122 ) سے منسوخ ہیں لیکن امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ منسوخ نہیں بلکہ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے نکلنے کو فرمائیں وہ فرمان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہو جائیں فی الواقع یہ توجیہ بہت عمدہ ہے واللہ اعلم ۔