Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
قُلْ لَّنۡ يُّصِيۡبَـنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَـنَا ۚ هُوَ مَوۡلٰٮنَا ‌ ۚ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿51﴾
آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں سوائے اللہ کے ہمارے حق میں لکھے ہوئے کوئی چیز پہنچ ہی نہیں سکتی وہ ہمارا کارساز اور مولیٰ ہے ، مومنوں کوتواللہ تعالٰی کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے ۔
قل لن يصيبنا الا ما كتب الله لنا هو مولىنا و على الله فليتوكل المؤمنون
Say, "Never will we be struck except by what Allah has decreed for us; He is our protector." And upon Allah let the believers rely.
Aap keh dijiye kay humen siwaye Allah kay humaray haq mein likhay huye kay koi cheez phonch hi nahi sakti woh humara kaar saaz aur mola hai. Mominon ko to Allah ki zaat pak per hi bharosa kerna chahaiye.
کہہ دو کہ : اللہ نے ہمارے مقدر میں جو تکلیف لکھ دی ہے ہمیں اس کے سوا کوئی اور تکلیف ہرگز نہیں پہنچ سکتی ۔ وہ ہمارا رکھوالا ہے ، اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے ۔
تم فرماؤ ہمیں نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا وہ ہمارا مولیٰ ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے ،
ان سے کہو ہمیں ہرگز کوئی ﴿برائی یا بھلائی﴾ نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے ۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے ، اور اہل ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ 51
۔ ( اے حبیب! ) آپ فرما دیجئے کہ ہمیں ہرگز ( کچھ ) نہیں پہنچے گا مگر وہی کچھ جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے ، وہی ہمارا کارساز ہے اور اللہ ہی پر ایمان والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :51 ”یہاں دنیا پرست اور خدا پرست کی ذہنیت کے فرق کو واضح کیا گیا ہے ۔ دنیا پرست جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کے نفس کی خوشی بعض دنیوی مقاصد کے حصول پر منحصر ہوتی ہے ۔ یہ مقاصد اسے حاصل ہو جائیں تو وہ پھول جاتا ہے اور حاصل نہ ہوں تو اس پر مردنی چھا جاتی ہے ۔ پھر اس کا سہارا تمام تر مادی اسباب پر ہوتا ہے ۔ وہ سازگار ہوں تو اس کا دل بڑھنے لگتا ہے اور ناسازگار ہوتے نظر آئیں تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے ۔ بخلاف اس کے خدا پرست انسان جو کچھ کرتا ہے اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کام میں اس کا بھروسہ اپنی قوت یا مادی اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے ۔ راہ حق میں کام کرتے ہوئے اس پر مصائب نازل ہوں یا کامرانیوں کی بارش ہو ، دونوں صورتوں میں وہ یہی سمجھتا ہے کہ جو کچھ اللہ کی مرضی ہے وہ پوری ہو رہی ہے ۔ مصائب اس کا دل نہیں توڑ سکتے اور کامیابیاں اس کو اتراہٹ میں مبتلا نہیں کر سکتیں ۔ کیونکہ اول تو دونوں کو وہ اپنے حق میں خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور اسے ہر حال میں یہ فکر ہوتی ہے کہ خدا کی ڈالی ہوئی اس آزمائش سے بخیریت گذر جائے ۔ دوسرے اس کے پیش نظر دنیوی مقاصد نہیں ہوتے کہ ان کے لحاظ سے وہ اپنی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ کر ے ۔ اس کے سامنے تو رضائے الہٰی کا مقصد وحید ہوتا ہے اور اس مقصد سے اس کے قریب یا دور ہونے کا پیمانہ کسی دنیوی کامیابی کا حصول یا عدم حصول نہیں ہے بلکہ صرف یہ امر ہے کہ راہ خدا میں جان و مال کی بازی لگانے کا جو فرض اس پر عائد ہوتا تھا اسے اس نے کہاں تک انجام دیا ۔ اگر یہ فرض اس نے ادا کر دیا ہو تو خواہ دنیا میں اس کی بازی بالکل ہی ہر گئی ہو لیکن اسے پورا بھروسا رہتا ہے کہ جس خدا کے لیے اس نے مال کھپایا اور جان دی ہے وہ اس کے اجر کو ضائع کرنے والا نہیں ہے ۔ پھر دنیوی اسباب سے وہ آس ہی نہیں لگاتا کہ ان کی سازگار حالات میں بھی اسی عزم و ہمت کے ساتھ کام کیے جاتا ہے جس کا اظہار اہل دنیا سے صرف سازگار حالات ہی میں ہوا کرتا ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ ان دنیا پرست منافقین سے کہہ دو کہ ہمارا معاملہ تمہارے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے ۔ تمہاری خوشی و رنج کے قوانین کچھ اور ہیں اور ہمارے کچھ اور تم اطمینان اور بے اطمینانی کسی اور ماخذ سے لیتے ہو اور ہم کسی اور ماخذ سے ۔