Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
فَلَا تُعۡجِبۡكَ اَمۡوَالُهُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُهُمۡ‌ؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمۡ بِهَا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَتَزۡهَقَ اَنۡفُسُهُمۡ وَهُمۡ كٰفِرُوۡنَ‏ ﴿55﴾
پس آپ کو ان کے مال و اولاد تعجب میں نہ ڈال دیں اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں ۔
فلا تعجبك اموالهم و لا اولادهم انما يريد الله ليعذبهم بها في الحيوة الدنيا و تزهق انفسهم و هم كفرون
So let not their wealth or their children impress you. Allah only intends to punish them through them in worldly life and that their souls should depart [at death] while they are disbelievers.
Pus aap ko inn kay maal-o-aulad tajjub mein na daal den. Allah ki chahat yehi hai kay iss say enhen duniya ki zindagi mein hi saza dey aur inn kay kufur hi ki halat mein inn ki janen nikal jayen.
تمہیں ان کے مال اور اولاد ( کی کثرت ) سے تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں سے ان کو دنیوی زندگی میں عذاب دے ( ٤٥ ) اور ان کی جان بھی کفر ہی کی حالت میں نکلے ۔
تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد کا تعجب نہ آئے ، اللہ ہی چاہتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ان چیزوں سے ان پر وبال ڈالے اور اگر کفر ہی پر ان کا دم نکل جائے ( ف۱۲۸ )
اِن کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاؤ ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اِنہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے 54 اور یہ جان بھی دیں تو اِنکارِ حق ہی کی حالت میں دیں ۔ 55
سو آپ کو نہ ( تو ) ان کے اموال تعجب میں ڈالیں اور نہ ہی ان کی اولاد ۔ بس اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں انہی ( چیزوں ) کی وجہ سے دنیوی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :54 یعنی اس مال و اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کر جو منافقانہ رویہ انہوں نے اختیار کیا ہے ، اس کی وجہ سے مسلم سوسائٹی میں یہ انتہائی ذلیل و خوار ہو کر رہیں گے اور وہ ساری شان ریاست اور عزت و ناموری اور مشخیت و چودھراہٹ ، جو اب تک عربی سوسائٹی میں ان کو حاصل رہی ہے ، نئے اسلامی نظام اجتماعی میں وہ خاک میں مل جائے گی ۔ ادنی ادنی غلام اور غلام زادے اور معمولی کاشتکار اور چرواہے ، جنہوں نے اخلاص ایمانی کا ثبوت دیا ہے ، اس نئے نظام میں باعزّت ہوں گے ، اور خاندانی چودھری اپنی دنیا پرستی کی بدولت بے عزت ہو کر رہ جائیں گے ۔ اس کیفیت کا ایک دلچسپ نمونہ وہ واقعہ ہے جو ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں پیش آیا ۔ قریش کے چند بڑے بڑے شیوخ ، جن میں سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام جیسے لوگ بھی تھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے اپنے پاس بلا کر بٹھاتے اور ان شیوخ سے کہتے کہ اس کے لیے جگہ خالی کرو ۔ تھوڑی دیر میں نوبت یہ آئی کہ یہ حضرات سرکتے سرکتے پائین مجلس میں پہنچ گئے ۔ باہر نکل کر حارث بن ہشام نے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگوں نے دیکھا آج ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا ؟ سہیل بن عمرو نے کہا اس میں عمر کا کچھ قصور نہیں ، قصور ہمارا ہے کہ جب ہمیں اس دین کی طرف دعوت دی گئی تو ہم نے منہ موڑا اور یہ لوگ اس کی طرف دوڑ کر آئے ۔ پھر یہ دونوں صاحب دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج ہم نے آپ کا سلوک دیکھا ، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے ، مگر اب اس کی تلافی کی بھی کوئی صورت ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زبان سے کچھ جواب نہ دیا اور صرف سرحد روم کی طرف اشارہ کردیا ۔ مطلب یہ تھا کہ اب میدان جہاد میں جان و مال کھپاؤ تو شاید وہ پوزیشن پھر حاصل ہو جائے جسے کھو چکے ہو ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :55 یعنی اس ذلت و رسوائی سے بڑھ کر مصیبت ان کے لیے یہ ہوگی کہ جن منافقانہ اوصاف کو یہ اپنے اندر پرورش کر رہے ہیں ان کی بدولت انہیں مرتے دم تک صدق ایمانی کی توفیق نصیب نہ ہو گی اور اپنی دنیا خراب کر لینے کے بعد یہ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوں گے کہ آخرت بھی خراب بلکہ خراب تر ہوگی ۔
کثرت مال و دولت عذاب بھی ہے ان کے مال و اولاد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھ ۔ ان کی دنیا کی اس ہیرا پھیری کی کوئی حقیقت نہ گن یہ ان کے حق میں کوئی بھلی چیز نہیں یہ تو ان کے لئے دنیوی سزا بھی ہے کہ نہ اس میں سے زکوٰۃ نکلے نہ اللہ کے نام خیرات ہو ۔ قتادہ کہتے ہیں یہاں مطلب مقدم موخر ہے یعنی تجھے ان کے مال و اولاد اچھے نہ لگنے چاہئیں اللہ کا ارادہ اس سے انہیں اس حیات دنیا میں ہی سزا دینے کا ہے پہلا قول حضرت حسن بصری کا ہے وہی اچھا اور قوی ہے امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ اس میں یہ ایسے پھنسے رہیں گے کہ مرتے دم تک راہ ہدایت نصیب نہیں ہو گی ۔ یوں ہی بتدریج پکڑ لئے جائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا یہی حشمت و جاہت مال و دولت جہنم کی آگ بن جائے گا ۔