Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّلۡمِزُكَ فِى الصَّدَقٰتِ‌ ۚ فَاِنۡ اُعۡطُوۡا مِنۡهَا رَضُوۡا وَاِنۡ لَّمۡ يُعۡطَوۡا مِنۡهَاۤ اِذَا هُمۡ يَسۡخَطُوۡنَ‏ ﴿58﴾
ان میں وہ بھی ہیں جو خیراتی مال کی تقسیم کے بارے میں آپ پر عیب رکھتے ہیں اگر انہیں اس میں مل جائے تو خوش ہیں اور اگر اس میں سے نہ ملا تو فوراً ہی بگڑ کھڑے ہوئے ۔
و منهم من يلمزك في الصدقت فان اعطوا منها رضوا و ان لم يعطوا منها اذا هم يسخطون
And among them are some who criticize you concerning the [distribution of] charities. If they are given from them, they approve; but if they are not given from them, at once they become angry.
Inn mein woh bhi hain jo kheyraati maal ki taqseem kay baray mein aap per aib rakhtay hain agar enhen iss mein say mill jaye to khush hain aur agar iss mein say na mila to foran hi bigar kharen huye.
اور انہی ( منافقین ) میں وہ بھی ہیں جو صدقات ( کی تقسیم ) کے بارے میں آپ کو طعنہ دیتے ہیں ۔ ( ٤٧ ) چنانچہ اگر انہیں صدقات میں سے ( ان کی مرضی کے مطابق ) دے دیا جائے تو راضی ہوجاتے ہیں ، اور اگر ان میں سے انہیں نہ دیا جائے تو ذرا سی دیر میں ناراض ہوجاتے ہیں ۔
اور ان میں کوئی وہ ہے کہ صدقے بانٹنے میں تم پر طعن کرتا ہے ( ف۱۳٤ ) تو اگر ان ( ف۱۳۵ ) میں سے کچھ ملے تو راضی ہوجائیں اور نہ ملے تو جبھی وہ ناراض ہیں ،
اے نبی ، ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں ۔ اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جائیں ، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں ۔ 57
اور ان ہی میں سے بعض ایسے ہیں جو صدقات ( کی تقسیم ) میں آپ پر طعنہ زنی کرتے ہیں ، پھر اگر انہیں ان ( صدقات ) میں سے کچھ دے دیا جائے تو وہ راضی ہو جائیں اور اگر انہیں اس میں سے کچھ نہ دیا جائے تو وہ فوراً خفا ہو جاتے ہیں
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :57 عرب میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے تمام ان باشندوں پر جو ایک مقرر مقدار سے زائد مال رکھتے تھے ، باقاعدہ زکوۃ عائد کی گئی تھی اور وہ ان کی زرعی پیداوار سے ان کے مویشیوں سے ان کے اموال تجارت سے ان کے معدنیات سے اور ان کے سونے چاندی کے ذخائر سے ۲-۱/۲ فی صدی ، ۵ فی صدی ، ۱۰۰ فی صدی کی مختلف شرحوں کے مطابق وصول کی جاتی تھی ۔ یہ سب اموال زکوۃ ایک منظم طریقہ سے وصول کیے جاتے اور ایک مرکز پر جمع ہو کر منظم طریقہ سے خرچ کیے جاتے ۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ملک کے اطراف سے اتنی دولت سمٹ کر آتی اور آپ کے ہاتھوں خرچ ہوتی تھی جو عرب کے لوگوں نے کبھی اس سے پہلے کسی ایک شخص کے ہاتھوں جمع اور تقسیم ہوتے نہیں دیکھی تھی ۔ دنیا پرست منافقین کے منہ میں اس دولت کو دیکھ کر پانی بھر بھر آتا تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اس بہتے ہوئے دریا سے ان کو خوب سیر ہو کر پینے کا موقع ملے ، مگر یہاں پلانے والا خود اپنے اوپر اور اپنے متعلقین پر اس دریا کے ایک ایک قطرے کو حرام کر چکا تھا اور کوئی یہ توقع نہ کر سکتا تھا کہ اس کے ہاتھوں سے مستحق لوگوں کے سوا کسی اور کے لب تک جام پہنچ سکے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم صدقات کو دیکھ دیکھ کر دلوں میں گھٹتے تھے اور تقسیم کے موقع پر آپ کو طرح طرح کے الزامات سے مطعون کرتے تھے ۔ دراصل شکایت تو انہیں یہ تھی کہ اس مال پر ہمیں دست درازی کا موقع نہیں دیا جاتا ، مگر اس حقیقی شکایت کو چھپا کر وہ الزام یہ رکھتے تھے کہ مال کی تقسیم انصاف سے نہیں کی جاتی اور اس میں جانب داری سے کام لیا جاتا ہے ۔
مال ودولت کے حریص منافق بعض منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے کہ آپ مال زکوٰۃ صحیح تقسیم نہیں کرتے وغیرہ ۔ اور اس سے ان کا ارادہ سوائے اپنے نفع کے حصول کے اور کچھ نہ تھا انہیں کچھ مل جائے تو راضی راضی ہیں ۔ اگر اتفاق سے یہ رہ جائیں تو بس ان کے نتھنے پھولے جاتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال زکوٰۃ جب ادھر ادھر تقسیم کر دیا تو انصار میں سے کسی نے ہانک لگائی کہ یہ عدل نہیں اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ ایک نو مسلم صحرائی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سونا چاندی بانٹتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا کہ گر اللہ نے تجھے عدل کا حکم دیا ہے تو تو عدل نہیں کرتا ۔ آپ نے فرمایا تو تباہ ہو اگر میں بھی عادل نہیں تو زمین پر اور کون عادل ہو گا ؟ پھر آپ نے فرمایا اس سے اور اس جیسوں سے بچو میری امت میں ان جیسے لوگ ہوں گے قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ جب نکلیں انہیں قتل کر ڈالو ۔ پھر نکلیں تو مار ڈالو پھر جب ظاہر ہوں پھر گردنیں مارو ۔ آپ فرماتے ہیں اللہ کی قسم نہ میں تمہیں دوں نہ تم سے روکوں میں تو ایک خازن ہوں ۔ جنگ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ذوالخویصرہ ہر قوص نامی ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا تو عدل نہیں کرتا انصاف سے کام کر آپ نے فرمایا اگر میں بھی عدل نہ کروں تو تو پھر تیری بربادی کہیں نہیں جا سکتی ۔ جب اس نے پیٹھ پھیری تو آپ نے فرمایا اس کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جن کی نمازوں کے مقابلے میں تمہاری نمازیں تمہیں حقیر معلوم ہونگی اور ان کے روزوں کے مقابلے میں تم میں سے ایک اور کو اپنے روزے حقیر معلوم ہوں گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے تمہیں جہاں بھی مل جائیں ان کے قتل میں کمی نہ کرو آسمان تلے ان مقتولوں سے بدتر مقتول اور کوئی نہیں ۔ پھر ارشاد ہے کہ انہیں رسول کے ہاتھوں جو کچھ بھی اللہ نے دلوادیا تھا اگر یہ اس پر قناعت کرتے صبر و شکر کرتے اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے وہ اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں ہمیں اور بھی دلوائے گا ۔ ہماری امیدیں ذات الہٰی سے ہی وابستہ ہیں تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا ۔ پس ان میں اللہ کی تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ جو دے اس پر انسان کو صبر و شکر کرنا چاہئے ۔ توکل ذات واحد پر رکھے ، اسی کو کافی وافی سمجھے ، رغبت اور توجہ ، لالچ اور امید اور توقع اس کی ذات پاک سے رکھے ۔ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کی اطاعت میں سرمو فرق نہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے کہ جو احکام ہوں انہیں بجالانے اور جو منع کام ہوں انہیں چھوڑ دینے اور جو خبریں ہوں انہیں مان لینے اور صحیح اطاعت کرنے میں وہ رہبری فرمائے ۔