Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ جَاهِدِ الۡـكُفَّارَ وَالۡمُنٰفِقِيۡنَ وَاغۡلُظۡ عَلَيۡهِمۡ‌ؕ وَ مَاۡوٰٮهُمۡ جَهَـنَّمُ‌ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿73﴾
اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو اور ان پر سخت ہو جاؤ ان کی اصلی جگہ دوزخ ہے جو نہایت بدترین جگہ ہے ۔
يايها النبي جاهد الكفار و المنفقين و اغلظ عليهم و ماوىهم جهنم و بس المصير
O Prophet, fight against the disbelievers and the hypocrites and be harsh upon them. And their refuge is Hell, and wretched is the destination.
Aey nabi! Kafiron aur munafiqon say jihad jari rakho aur inn per sakht hojao inn ki asli jagah dozakh hai jo nihayat bad tareen jagah hai.
اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو ، ( ٦١ ) اور ان پر سختی کرو ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے ، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے ۔
اے غیب کی خبریں دینے والے ( نبی ) جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں پر ( ف۱۷۳ ) اور ان پر سختی کرو ، اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے ، اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی ،
81 اے نبی ، کفّار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ ، 82 آخرِکار ان کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے ۔
اے نبی ( معظم! ) آپ کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان پر سختی کریں ، اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے ، اور وہ برا ٹھکانا ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :81 یہاں سے وہ تیسری تقریر شروع ہوتی ہے جو غزوہ تبوک کے بعد نازل ہوئی تھی ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :82 اس وقت تک منافقین کے ساتھ زیادہ تر درگزر کا معاملہ ہو رہا تھا ، اور اسکے دو وجوہ تھے ۔ ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ابھی اتنی مضبوط نہ ہوئی تھی کہ باہر کے دشمنوں سے لڑنے کے ساتھ ساتھ گھر کے دشمنوں سے بھی لڑائی مول لے لیتے ۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے جو لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے ان کو ایمان و یقین حاصل کرنے کے لیے کافی موقع دینا مقصود تھا ۔ یہ دونوں وجوہ اب باقی نہیں رہے تھے ۔ مسلمانوں کی طاقت اب تمام عرب کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی اور عرب سے باہر کی طاقتوں سے کشمکش کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا اس لیے ان آستین کے سانپوں کا سر کچلنا اب ممکن بھی تھا اور ضروری بھی ہو گیا تھا ، تا کہ یہ لوگ بیرونی طاقتوں سے ساز باز کر کے ملک میں کوئی اندرونی خطرہ نہ کھڑا کر سکیں ۔ پھر ان لوگوں کو پورے ۹ سال تک سوچنے ، سمجھنے اور دین ِ حق کو پرکھنے کا موقع بھی دیا جا چکا تھا جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اگر ان میں واقعی خیر کی کوئی طلب ہوتی ۔ اس کے بعد ان کے ساتھ مزید رعایت کی کوئی وجہ نہ تھی ۔ اس لیے حکم ہوا کہ کفار کے ساتھ ساتھ اب ان منافقین کے خلاف بھی جہاد شروع کر دیا جائے اور جو نرم رویہ اب تک ان کے معاملہ میں اختیار کیا جاتا رہا ہے ، اسے ختم کر کے اب ان کے ساتھ سخت برتاؤ کیا جائے ۔ منافقین کے خلا ف جہاد اور سخت برتاؤ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان سے جنگ کی جائے ۔ دراصل اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی منافقانہ روش سے چشم پوشی اب تک برتی گئی ہے ، جس کی وجہ سے یہ مسلمانوں میں ملے جلے رہے ، اور عام مسلمان ان کو اپنی ہی سوسائٹی کا ایک جز سمجھتے رہے ، اور ان کو جماعت کے معاملات میں دخل دینے اور سوسائٹی میں اپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع ملتا رہا ، اس کو آئندہ کے لیے ختم کر دیا جائے ۔ اب جو شخص بھی مسلمانوں میں شامل رہ کر منافقانہ روش اختیار کرے اور جس کے طرز عمل سے بھی یہ ظاہر ہو کہ وہ خدا اور رسول اور اہل ایمان کا مخلص رفیق نہیں ہے ، اسے کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے ، علانیہ اس کو ملامت کی جائے ، سوسائٹی میں اس کے لیے عزت و اعتبار کا کوئی مقام باقی نہ رہنے دیا جائے ، معاشرت میں اس سے قطع تعلق ہو ، جماعتی مشوروں سے وہ الگ رکھا جائے ، عدالتوں میں اس کی شہادت غیر معتبر ہو ، عہدوں اور مناصب کا دروازہ اس کے لیے بند رہے ، محفلوں میں اسے کوئی منہ نہ لگائے ، ہر مسلمان اس سے ایسا برتاؤ کرے جس سے اس کو خود معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں کہیں بھی اس کا کوئی وقار نہیں اور کسی دل میں بھی اس کےلیے احترام کا کوئی گوشہ نہیں ۔ پھر اگر ان میں سے کوئی شخص کسی صریح غداری کا مرتکب ہو تو اس کے جرم پر پردہ نہ ڈالا جائے ، نہ اسے معاف کیا جائے ، بلکہ علیٰ رؤس الاَشہاد اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے ۔ یہ اک نہایت اہم ہدایت تھی جو اس مرحلہ پر مسلمانوں کو دی جانی ضروری تھی ۔ اس کے بغیر اسلامی سوسائٹی کو تنزل و انحطاط کے اندرونی اسباب سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا ۔ کوئی جماعت جو اپنے اندر منافقوں اور غداروں کو پرورش کرتی ہو اور جس میں گھریلو سانپ عزت اور تحفظ کے ساتھ آستینوں میں بٹھائے جاتے ہوں ، اخلاقی زوال اور بالآخر کامل تباہی سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ نفاق کا حال طاعون کا سا ہے اور منافق وہ چوہا ہے جو اس وبا کے جراثیم لیے پھرتا ہے ۔ اس کو آبادی میں آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے کا موقع دینا گویا پوری آبادی کو موت کے خطرے میں ڈالنا ہے ۔ ایک منافق کو مسلمانوں کی سوسائٹی میں عزت و احترام کا مرتبہ حاصل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہزاروں آدمی غداری و منافقت پر دلیر ہو جائیں اور یہ خیال عام ہو جائے کہ اس سوسائٹی میں عزت پانے لیے اخلاص ، خیر خواہی اور صداقت ایمانی کچھ ضروری نہیں ہے بلکہ جھوٹے اظہار ایمان کے ساتھ خیانت اور بے وفائی کا رویہ اختیار کر کے بھی یہاں آدمی پھل پھول سکتا ہے ۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مختصر سے حکیمانہ فقرے میں بیان فرمایا ہے کہ من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علیٰ ھدم الاسلام ۔ ” جس شخص نے کسی صاحب بدعت کی تعظیم و توقیر کی وہ دراصل اسلام کی عمارت ڈھانے میں مدد گار ہوا“ ۔
چار تلواریں؟ کافروں منافقوں سے جہاد کا اور ان پر سختی کا حکم ہوا ۔ مومنوں سے جھک کر ملنے کا حکم ہوا ۔ کافروں کی اصلی جگہ جہنم مقرر فرما دی ۔ پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے چار تلواروں کے ساتھ مبعوث فرمایا ایک تلوار تو مشرکوں میں فرماتا ہے ( آیت فاذا انسلح الاشھر الحرم فاقتلو المشرکین ) حرمت والے مہینوں کے گذرتے ہی مشرکوں کی خوب خبر لو ۔ دوسری تلوار اہل کتاب کے کفار میں فرماتا ہے ( قاتلوا الذین لایومنون الح ، ) جو اللہ پر قیامت کے دن ایمان نہیں لاتے اللہ رسول کے حرام کئے ہوئے کو حرام نہیں مانتے ۔ دین حق کو قبول نہیں کرتے ان اہل کتاب سے جہاد کرو جب تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جھک کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دینا منظور نہ کرلیں ۔ تیسری تلوار منافقین ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ ( آیت جاھد الکفار والمنافقین ) کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو ۔ چوتھی تلوار باغیوں میں فرمان ہے ( آیت فقاتلو اللتی تبغی حتی تفئی الی امر اللہ ) باغیوں سے لڑو جب تک کہ پلٹ کر وہ اللہ کے احکام کی حکم برداری کی طرف نہ آ جائیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ منافق جب اپنا نفاق ظاہر کرنے لگیں تو ان سے تلوار سے جہاد کرنا چاہئے ۔ امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہاتھ سے نہ ہو سکے تو ان کے منہ پر ڈانٹ ڈپٹ سے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں سے تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور منافقوں کے ساتھ زبانی جہاد کو فرمایا ہے اور یہ کہ ان پر نرمی نہ کی جائے ۔ مجاہد کا بھی تقریبا یہی قول ہے ۔ ان پر حد شرعی کا جاری کرنا بھی ان سے جہاد کرنا ہے مقصود یہ ہے کہ کبھی تلوار بھی ان کے خلاف اٹھانی پڑے گی ورنہ جب تک کام چلے زبان کافی ہے جیسا موقعہ ہو کر لے ۔ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی بات زبان سے نہیں نکالی ۔ حالانکہ درحقیقت کفر کا بول بول چکے ہیں اور اپنے ظاہری اسلام کے بعد کھلا کفر کر چکے ہیں ۔ یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے ایک جہنی اور ایک انصاری میں لڑائی ہو گئی ۔ جہنی شخص انصاری پر چھا گیا تو اس منافق نے انصار کو اس کی مدد پر ابھارا اور کہنے لگا واللہ ہماری اور اس محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تو وہی مثال ہے کہ اپنے کتے کو موٹا تازہ کر کہ وہ تجھے ہی کاٹے واللہ اگر ہم اب کی مرتبہ مدینے واپس گئے تو ہم ذی عزت لوگ ان تمام کمینے لوگوں کو وہاں سے نکال کر باہر کریں گے ۔ ایک مسلمان نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ گفتگو دہرادی ۔ آپ نے اسے بلوا کر اس سے سوال کیا تو یہ قسم کھا کر انکار کر گیا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میری قوم کے جو لوگ حرہ کی جنگ میں کام آئے ان پر مجھے بڑی ہی رنج و صدمہ ہو رہا تھا اس کی خبر حضرت زید بن ارقم کی پہنچی تو اس نے مجھے خط میں لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے آپ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ انصار کو اور انصار کے لڑکوں کو بخش دے ۔ نیچے کے راوی ابن الفضل کو اس میں شک ہے کہ آپ نے اپنی اس دعا میں ان کے پوتوں کا نام بھی لیا یا نہیں؟ پس حضرت انس رضی اللہ عنہ نے موجود لوگوں میں سے کسی سے حضرت زید کی نسبت سوال کیا تو اس نے کہا یہی وہ زید ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی ۔ واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک منافق نے کہا اگر یہ سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی زیادہ احمق ہیں حضرت زید نے کہا و اللہ آنحضرت صلی اللہ علی وسلم بالکل سچے ہیں اور بیشک تو اپنی حماقت میں گدھے سے بڑھا ہوا ہے ۔ پھر آپ نے یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گذار کی لیکن وہ منافق پلٹ گیا اور صاف انکار کر گیا اور کہا کہ زید نے جھوٹ بولا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور حضرت زید کی سچائی بیان فرمائی ۔ لیکن مشہور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المطلق کا ہے ممکن ہے راوی کو اس آیت کے ذکر میں وہم ہو گیا ہو اور دوسری آیت کے بدلے اسے بیان کر دیا ہو ۔ یہی حدیث بخاری شریف میں ہے لیکن اس جملے تک کہ زندہ وہ ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی ۔ ممکن ہے کہ بعد کا حصہ موسیٰ بن عقبہ راوی کا اپنا قول ہو ۔ اسی کی ایک روایت میں یہ پچھلا حصہ ابن شہاب کے قول سے مروی ہے واللہ اعلم ۔ مغازی اموی میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ تبوک کے واقعہ کے بعد ہے کہ جو منافق موخر چھوڑ دیئے گئے تھے اور جن کے بارے میں قرآن نازل ہوا انمیں سے بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی تھے ۔ ان میں جلاس بن عوید بن صامت بھی تھا ان کے گھر میں عمیر بن سعد کی والدہ تھیں جو اپنے ساتھ حضرت عمیر کو بھی لے گئی تھیں جب ان منافقوں کے بارے میں قرآنی آیتیں نازل ہوئیں تو جلاس کہنے لگا کہ واللہ اگر یہ شخص اپنے قول میں سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی بدتر ہیں حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ یہ سن کر فرمانے لگے کہ یوں تو آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور آپ کی تکلیف مجھ پر میری تکلیف سے بھی زیادہ شاق ہے لیکن آپ نے اسوقت تو ایسی بات منہ سے نکالی ہے کہ اگر میں اسے پہنچاؤں تو رسوائی ہے اور نہ پہنچاؤں تو ہلاکت ہے ، رسوائی یقینا ہلاکت سے ہلکی چیز ہے ۔ یہ کہہ کر یہ بزرگ حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور ساری بات آپ کو کہہ سنائی ۔ جلاس کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر قسمیں کھا کھا کر کہا کہ عمیر جھوٹا ہے میں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ مروی ہے کہ اس کے بعد جلاس نے توبہ کر لی اور درست ہوگئے یہ توبہ کی بات بہت ممکن ہے کہ امام محمد بن اسحاق کی اپنی کہی ہوئی ہو ، حضرت کعب کی یہ باتیں نہیں واللہ اعلم ۔ اور روایت میں ہے کہ جلاس بن سوید بن صامت اپنے سوتیلے بیٹے حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ قبا سے آ رہے تھے دونوں گدھوں پر سوار تھے اس وقت جلاس نے یہ کہا تھا اس پر ان کے صاحبزادے نے فرمایا کہ اے دشمن رب میں تیری اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کروں گا فرماتے ہیں کہ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نہ نازل ہو یا مجھ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آ جائے یا اس گناہ میں میں بھی اپنے باپ کا شریک نہ کر دیا جاؤں چنانچہ میں سیدھا حاضر ہوا اور تمام بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مع اپنے ڈر کے سنا دی ۔ ابن جریر میں ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علی وسلم ایک سائے دار درخت تلے بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کہ ابھی تمہارے پاس ایک شخص آئے گا اور تمہیں شیطان دیکھے گا خبردار تم اس سے کلام نہ کرنا اسی وقت ایک انسان کیری آنکھوں والا آیا آپ نے اس سے فرمایا تو اور تیرے ساتھی مجھے گالیاں کیوں دیتے ہو؟ وہ اسی وقت گیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر آیا سب نے قسمیں کھا کھا کر کہا ہم نے کوئی ایسالفظ نہیں کہا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے درگذر فرما لیا پھر یہ آیت اتری ۔ اس میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے وہ قصد کیا جو پورا نہ ہوا مراد اس سے جلاس کا یہ ارادہ ہے کہ اپنے سوتیلے لڑکے کو جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بات کہدی تھی قتل کر دے ۔ ایک قول ہے کہ عبداللہ بن ابی نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا تھا ۔ یہ قول بھی ہے کہ بعض لوگوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے سرداربنا دیں گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی نہ ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ دس سے اوپر اوپر آدمیوں نے غزوہ تبوک میں راستے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دے کر قتل کرنا چاہا تھا ۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اور حضرت عمار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے آگے پیچھے تھے ایک چلتا تھا دوسرا نکیل تھامتا تھا ہم عقبہ میں تھے کہ بارہ شخص منہ پر نقاب ڈالے آئے اور اونٹنی کو گھیر لیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں للکارا اور وہ دم دباکر بھاگ کھڑے ہوئے آپ نے ہم سے فرمایا کیا تم نے انہیں پہچانا ؟ ہم نے کہا نہیں لیکن انکی سواریاں ہماری نگاہوں میں ہیں آپ نے فرمایا یہ منافق تھے اور قیامت تک ان کے دل میں نفاق رہے گا ۔ جانتے ہو کہ کس ارادے سے آئے تھے؟ ہم نے کہا نہیں فرمایا اللہ کے رسول کو عقبہ میں پریشان کرنے اور تکلیف پہنچانے کے لئے ۔ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم انکی قوم کے لوگوں سے کہلوا دیجئے کہ ہر قوم والے اپنے دشمنوں سے لڑے ان پر فتح حاصل کرکے پھر اپنے ان ساتھیوں کو بھی قتل کر ڈالا ۔ آپ نے ان کے لئے بددعا کی کہ یا اللہ ان کے دلوں پر آتشیں پھوڑے پیدا کر دے ۔ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرا دیا کہ میں عقبہ کے راستے میں جاؤں گا ۔ اسکی راہ کوئی نہ آئے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیچھے سے چلا رہے تھے کہ ایک جماعت اپنی اونٹنیوں پر سوار آ گئی حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی سواریوں کو مارنا شروع کیا اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے آپ کی سواری کو نیچے کی طرف چلانا شروع کر دیا جب نیچے میدان آ گیا آپ سواری سے اتر آئے اتنے میں عمار رضی اللہ عنہ بھی واپس پہنچ گئے ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کون تھے پہچان بھی؟ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے کہا منہ تو چھپے ہوئے تھے لیکن سواریاں معلوم ہیں پوچھا انکا ارادہ کیا تھا جانتے ہو؟ جواب دیا کہ نہیں آپ نے فرمایا انہوں نے چاہا تھا کہ شور کر کے ہماری اونٹنی کو بھڑکا دیں اور ہمیں گرا دیں ۔ ایک شخص سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے انکی تعداد دریافت کی تو اسنے کہا چودہ ۔ آپ نے فرمایا اگر تو بھی ان میں تھا تو پندرہ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے تین شخصوں کے نام گنوائے انہوں نے کہا واللہ ہم نے تو منادی کی ندا سنی اور نہ ہمیں اپنے ساتھیوں کے کسی بد ارادے کا علم تھا ۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ باقی کے بارہ لوگ اللہ رسول سے لڑائی کرنے والے ہیں دنیا میں اور آخرت میں بھی ۔ امام محمد بن اسحاق نے ان میں سے بہت سے لوگوں کے نام بھی گنوائے ہیں واللہ اعلم ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اہل عقبہ میں سے ایک شخص کے ساتھ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کا کچھ تعلق تھا تو اس کو آپ نے قسم دے کر اصحاب عقبہ کی گنتی دریافت کی لوگوں نے بھی اس سے کہا کہ ہاں بتا دو اس نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ چودہ تھے اگر مجھے بھی شامل کیا جائے تو پندرہ ہوئے ۔ ان میں سے بارہ تو دشمن اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور تین شخصوں کی قسم پر کہ نہ ہم نے منادی کی نہ ندا سنی نہ ہمیں جانے والوں کے ارادے کا علم تھا اس لئے معذور رکھا گیا ۔ گرمی کاموسم تھا پانی بہت کم تھا آپ نے فرما دیا تھا کہ مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے لیکن اس پر بھی کچھ لوگ پہنچ گئے تھے آپ نے ان پر لعنت کی آپ کا فرمان ہے کہ میرے ساتھیوں میں بارہ منافق ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے آٹھ کے کندھوں پر تو آتشی پھوڑا ہو گا جو سینے تک پہنچے گا اور انہیں ہلاک کر دے گا ۔ اسی باعث حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کا راز دار کہا جاتا تھا آپ نے صرف انہی کو ان منافقوں کے نام بتائے تھے واللہ اعلم ۔ طبرانی میں ان کے نام یہ ہیں معتب بن قشیر ودیعہ بن ثابت جدین بن عبداللہ بن نبیل بن حارث جو عمرو بن عوف کے قبیلے کا تھا اور حارث بن یزید ، طائی اوس بن قیطی ، حارث بن سوید ، سفیہ بن دراہ ، قیس بن فہر ، سوید ، داعن قبیلہ بنو جعلی کے ، قیس بن عمرو بن سہل ، زید بن لصیت اور سلالہ بن ہمام یہ دونوں قبیلہ بنو قینقاع کے ہیں یہ سب بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے ۔ اس آیت میں اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اسی بات کا بدلہ لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں مالدار بنایا ۔ اگر ان پر اللہ کا پورا فضل ہو جاتا تو انہیں ہدایت بھی نصیب ہو جاتی جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا کہ پھر اللہ نے میری وجہ سے تمہاری رہبری کی تم متفرق تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تم میں الفت ڈال دی ۔ تم فقیر بےنوا تھے اللہ نے میرے سبب سے تمہیں غنی اور مالدار کر دیا ۔ ہر سوال کے جواب میں انصار رضی اللہ عنہم فرماتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے زیادہ احسان ہے ۔ الغرض بیان یہ ہے کہ بےقصور ہونے کے بدلے یہ لوگ دشمنی اور بے ایمانی پر اتر آئے ۔ جیسے سورۃ بروج میں ہے کہ ان مسلمانوں میں سے ایک کافروں کا انتقام صرف ان کے ایمان کے باعث تھا ۔ حدیث میں ہے کہ ابن جمیل صرف اس بات کا انتقام لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اسے غنی کردیا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر وہ اپنے اسی طریقہ پر کاربند رہے تو انہیں دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی قتل ، صدمہ و غم اور دوزخ کے ذلیل و پست کرنے والے ناقابلِ برداشت عذاب کی سزا بھی ۔ دنیا میں کوئی نہ ہو گا جو ان کی طرف داری کرے ان کی مدد کرے ان کے کام آئے ان سے برائی ہٹائے یا انہیں نفع پہنچائے یہ بےیارو مددگار رہ جائیں گے ۔