Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
يَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوۡا ؕ وَلَقَدۡ قَالُوۡا كَلِمَةَ الۡـكُفۡرِ وَكَفَرُوۡا بَعۡدَ اِسۡلَامِهِمۡ وَهَمُّوۡا بِمَا لَمۡ يَنَالُوۡا‌ ۚ وَمَا نَقَمُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ اَغۡنٰٮهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ ۚ فَاِنۡ يَّتُوۡبُوۡا يَكُ خَيۡرًا لَّهُمۡ‌ ۚ وَاِنۡ يَّتَوَلَّوۡا يُعَذِّبۡهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِيۡمًا ۙ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ‌ ۚ وَمَا لَهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍ‏ ﴿74﴾
یہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کہا ، حالانکہ یقیناً کفر کا کلمہ ان کی زبان سے نکل چکا ہے اور یہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور انہوں نے اس کام کا قصد بھی کیا جو پورا نہ کر سکے یہ صرف اسی بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دولتمند کر دیا اگر یہ بھی توبہ کرلیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ موڑے رہیں تو اللہ تعالٰی انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور زمین بھر میں ان کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ کھڑا ہوگا ۔
يحلفون بالله ما قالوا و لقد قالوا كلمة الكفر و كفروا بعد اسلامهم و هموا بما لم ينالوا و ما نقموا الا ان اغنىهم الله و رسوله من فضله فان يتوبوا يك خيرا لهم و ان يتولوا يعذبهم الله عذابا اليما في الدنيا و الاخرة و ما لهم في الارض من ولي و لا نصير
They swear by Allah that they did not say [anything against the Prophet] while they had said the word of disbelief and disbelieved after their [pretense of] Islam and planned that which they were not to attain. And they were not resentful except [for the fact] that Allah and His Messenger had enriched them of His bounty. So if they repent, it is better for them; but if they turn away, Allah will punish them with a painful punishment in this world and the Hereafter. And there will not be for them on earth any protector or helper.
Yeh Allah ki qasmen kha ker kehtay hain kay enhon ney nahi kaha halankay yaqeenan kufur ka kalma inn ki zaban say nikal chuka aur yeh apney islam kay baad kafir hogaye hain aur enhon ney iss kaam ka qasad bhi kiya jo poora na ker sakay. Yeh sirf issi baat ka intiqam ley rahey hain kay enhen Allah ney apney fazal say aur uss kay rasool ney dolat mand ker diya agar yeh abb bhi toba ker len to yeh inn kay haq mein behtar hai aur agar mun moray rahen to Allah Taalaa enhen duniya-o-aakhirat mein dard naak azab dey ga aur zamin bhar mein inn ka koi himayati aur madadgar na khara hoga.
یہ لوگ اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں بات نہیں کہی ، حالانکہ انہوں نے کفر کی بات کہی ہے ، ( ٦٢ ) اور اپنے اسلام لانے کے بعد انہوں نے کفر اختیار کیا ہے ۔ ( ٦٣ ) انہوں نے وہ کام کرنے کا ارادہ کرلیا تھا جس میں یہ کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔ ( ٦٤ ) اور انہوں نے صرف اس بات کا بدلہ دیا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے مال دار بنادیا ہے ۔ ( ٦٥ ) اب اگر یہ توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا ، اور اگر یہ منہ موڑیں گے تو اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا ، اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی یار ہوگا نہ مددگار ۔
اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہ کہا ( ف۱۷٤ ) اور بیشک ضرور انہوں نے کفر کی بات کہی اور اسلام میں آکر کافر ہوگئے اور وہ چاہا تھا جو انہیں نہ ملا ( ف۱۷۵ ) اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ اللہ و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا ( ف۱۷٦ ) تو اگر وہ توبہ کریں تو ان کا بھلا ہے ، اور اگر منہ پھیریں ( ف۱۷۷ ) تو اللہ انہیں سخت عذاب کرے گا دنیا اور آخرت میں ، اور زمین میں کوئی نہ ان کا حمایتی ہوگا اور نہ مددگار ( ف۱۷۸ )
یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کی ، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے ۔ 83 وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے ۔ 84 یہ ان کا سارا غصّہ اسی بات پر ہے تاکہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا 85 ہے ! اب اگر یہ اپنی اس روش سے باز آجائیں تو انہی کے لیےبہتر ہے اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، اور زمین میں کوئی نہیں جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو ۔
۔ ( یہ منافقین ) اللہ کی قَسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( کچھ ) نہیں کہا حالانکہ انہوں نے یقیناً کلمہ کفر کہا اور وہ اپنے اسلام ( کو ظاہر کرنے ) کے بعد کافر ہو گئے اور انہوں نے ( کئی اذیت رساں باتوں کا ) ارادہ ( بھی ) کیا تھا جنہیں وہ نہ پا سکے اور وہ ( اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل میں سے ) اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا ، سو اگر یہ ( اب بھی ) توبہ کر لیں تو ان کے لئے بہتر ہے اور اگر ( اسی طرح ) روگرداں رہیں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت ( دونوں زندگیوں ) میں دردناک عذاب میں مبتلا فرمائے گا اور ان کے لئے زمین میں نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :83 وہ بات کیا تھی جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ؟ اس کے متعلق کوئی یقینی معلومات ہم تک نہیں پہنچی ہیں ۔ البتہ روایات میں متعدد ایسی کافرانہ باتوں کا ذکر آیا ہے جو اس زمانہ میں منافقین نے کی تھیں ۔ مثلا ایک منافق کے متعلق مروی ہے کہ اس نے اپنے عزیزوں میں سے ایک مسلمان نوجوان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”اگر واقعی وہ سب کچھ برحق ہے جو یہ شخص ( یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) پیش کرتا ہے تو ہم سب گدھوں سے بھی بدتر ہیں“ ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تبوک کے سفر میں ایک جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہوگئی ۔ مسلمان اس کو تلاش کرتے پھر رہے تھے ۔ اس پر منافقوں کے ایک گروہ نے اپنی مجلس میں بیٹھ کر خوب مذاق اڑایا اور آپس میں کہا کہ”یہ حضرت آسمان کی خبریں تو خوب سناتے ہیں ، مگر ان کو اپنی اونٹنی کی کچھ خبر نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہے“ ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :84 یہ اشارہ ہے ان سازشوں کی طرف جو منافقوں نے غزوہ تبوک کے سلسلے میں کی تھیں ۔ ان میں سے پہلی سازش کا واقعہ محدثین نے اس طرح بیان کیا ہے کہ تبوک سے واپسی پر جب مسلمانوں کا لشکر ایک ایسے مقام کے قریب پہنچا جہاں سے پہاڑوں کے درمیان راستہ گزرنا تھا تو بعض منافقین نے آپس میں طے کیا کہ رات کے وقت کسی گھاٹی میں سے گزرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڈ میں پھینک دیں گے ۔ حضور کو اس کی اطلاع ہوگئی ۔ آپ نے تمام اہل لشکر کو حکم دیا کہ وادی کے راستہ سے نکل جائیں ، اور آپ خود صرف عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور حذیفہ بن یمان کو لے کر گھاٹی کے اندر سے ہو کر چلے ۔ اثنائے راہ میں یکایک معلوم ہوا کہ دس بارہ منافق ڈھاٹے باندھے ہوئے پیچھے پیچھے آرہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر حضرت حذیفہ ان کی طرف لپکے تاکہ ان کے اونٹوں کو مار مار کر ان کے منہ پھیر دیں ۔ مگر وہ دور ہی سے حضرت حذیفہ کو آتے دیکھ کر ڈر گئے اور اس خوف سے کہ کہیں ہم پہنچان نہ لیے جائیں فورا بھاگ نکلے ۔ دوری سازش جس کا اس سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے ، یہ ہے کہ منافقین کو رومیوں کے مقابلہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے وفادار ساتھیوں کے بخیریت بچ کر واپس آجانے کی توقع نہ تھی ، اس لیے انہوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ جونہی اُدھر کوئی سانحہ پیش آئے اِدھر مدینہ میں عبد اللہ بن ابی کے سر پر تاج شاہی رکھ دیا جائے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :85 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ عرب کے قصبات میں سے ایک معمولی قصبہ تھا اور اوس و خزرج کے قبیلے مال اور جاہ کے لحاظ سے کوئی اونچا درجہ نہ رکھتے تھے ۔ مگر جب حضور وہاں تشریف لے گئے اور انصار نے آپ کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا تو آٹھ نو سال کے اندر اندر یہی متوسط درجہ کا قصبہ تمام عرب کا دارالسلطنت بن گیا ۔ وہی اوس و خزرج کے کاشتکار سلطنت کے اعیان و اکابر بن گئے اور ہر طرف سے فتوحات ، غنائم اور تجارت کی برکات اس مرکزی شہر پر بارش کی طرح برسنے لگیں ۔ اللہ تعالیٰ اسی پر انہیں شرم دلا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر تمہارا یہ غصہ کیا اسی قصور کی پاداش میں ہے کہ اس کی بدولت یہ نعمتیں تمہیں بخشی گئیں!