Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
اَلَّذِيۡنَ يَلۡمِزُوۡنَ الۡمُطَّوِّعِيۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ فِى الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ اِلَّا جُهۡدَهُمۡ فَيَسۡخَرُوۡنَ مِنۡهُمۡؕ سَخِرَ اللّٰهُ مِنۡهُمۡ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿79﴾
جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسرہی نہیں ، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے انہی کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقت و الذين لا يجدون الا جهدهم فيسخرون منهم سخر الله منهم و لهم عذاب اليم
Those who criticize the contributors among the believers concerning [their] charities and [criticize] the ones who find nothing [to spend] except their effort, so they ridicule them - Allah will ridicule them, and they will have a painful punishment.
Jo log inn musalmanon per taanaa zani kertay hain jo dil khol ker kheyraat kertay hain aur unn logon per jinhen siwaye apni mehnat mazdoori kay aur kuch mayyasar hi nahi pus yeh unn ka mazaq uratay hain Allah bhi inn say tamaskhur kerta hai enhi kay liye dard naak azab hai.
۔ ( یہ منافق وہی ہیں ) جو خوشی سے صدقہ کرنے والے مومنوں کو بھی طعنے دیتے ہیں ، اور ان لوگوں کو بھی جنہیں اپنی محنت ( کی آمدنی ) کے سوا کچھ اور میسر نہیں ہے ( ٦٧ ) اس لیے وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے ، ( ٦٨ ) اور ان کے لیے دردناک عذاب تیار ہے ۔
اور جو عیب لگاتے ہیں ان مسلمانوں کو کہ دل سے خیرات کرتے ہیں ( ف۱۸۲ ) اور ان کو جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت سے ( ف۱۸۳ ) تو ان سے ہنستے ہیں ( ف۱۸٤ ) اللہ ان کی ہنسی کی سزا دے گا ، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ،
﴿وہ خوب جانتا ہے ان کنجوس دولت مندوں کو﴾ جو برضا و رغبت دینے والے اہل ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھانٹتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس ﴿راہِ خدا میں دینے کے لیے﴾ اس کے سوا کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے اوپر مشقت برداشت کر کے دیتے ہیں ۔ اللہ 87 ان مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے درد ناک سزا ہے ۔
جو لوگ برضا و رغبت خیرات دینے والے مومنوں پر ( ان کے ) صدقات میں ( ریاکاری و مجبوری کا ) الزام لگاتے ہیں اور ان ( نادار مسلمانوں ) پر بھی ( عیب لگاتے ہیں ) جو اپنی محنت و مشقت کے سوا ( کچھ زیادہ مقدور ) نہیں پاتے سو یہ ( ان کے جذبۂ اِنفاق کا بھی ) مذاق اڑاتے ہیں ، اللہ انہیں ان کے تمسخر کی سزا دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :87 غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ روکے بیٹھے رہے ۔ مگر جب مخلص اہل ایمان بڑھ بڑھ کر چندے دینے لگے تو ان لوگوں نے ان پر باتیں چھانٹنی شروع کیں ۔ کوئی ذی استطاعت مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق یا اس سے بڑھ کر کوئی بڑی رقم پیش کرتا تو یہ اس پر ریاکاری کا الزام لگاتے ، اور اگر کوئی غریب مسلمان اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر کوئی چھوٹی سے رقم حاضر کرتا ، یا رات بھر محنت مزدوری کر کے کچھ کھجوریں حاصل کرتا اور وہی لا کر پیش کر دیتا ، تو یہ اس پر آوازے کستے کہ لو ، یہ ٹڈی کی ٹانگ بھی آگئی ہے تاکہ اس سے روم کے قلعے فتح کیے جائیں ۔
منافقوں کا مومنوں کی حوصلہ شکنی کا ایک انداز منافقوں کی ایک بدخصلت یہ بھی ہے کہ ان کی زبانوں سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا نہ سخی نہ بخیل ۔ یہ عیب جو بدگو لوگ بہت برے ہیں اگر کوئی شخص بڑی رقم اللہ کی راہ میں دے تو یہ اسے ریاکار کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مسکین اپنی مالی کمزوری کی بنا پر تھوڑا بہت دے تو یہ ناک بھوں چڑھا کر کہتے ہیں لو ان کی اس حقیر چیز کا بھی اللہ بھوکا تھا ۔ چنانچہ جب صدقات دینے کی آیت اتری ہے تو صحابہ رضی اللہ عنہ اپنے اپنے صدقات لئے ہوئے حاضر ہوتے ہیں ایک صاحب نے دل کھول کر بہت بڑی رقم دی تو اسے ان منافقوں نے ریاکار کا خطاب دیا بیچارے ایک صاحب مسکین آدمی تھی صرف ایک صاع اناج لائے تھے انہیں کہا کہ اس کے اس صدقے کی اللہ کو کیا ضرورت پڑی تھی؟ اس کا بیان اس آیت میں ہے ایک مرتبہ آپ نے بقیع میں فرمایا کہ جو صدقہ دے گا میں اس کی بابت قیامت کے دن اللہ کے سامنے گواہی دوں گا اس وقت ایک صحابی نے اپنے عمامے میں سے کچھ دینا چاہا لیکن پھر لپیٹ لیا اتنے میں ایک صاحب جو سیاہ رنگ اور چھوٹے قد کے تھے ایک اونٹنی لے کر آگے بڑھے جن سے زیادہ اچھی اونٹنی بقیع بھر میں نہ تھی کہنے لگے یا رسول اللہ یہ اللہ کے نام پر خیرات ہے آپ نے فرمایا بہت اچھا اس نے کہا لیجئے سنبھالیجئے اس پر کسی نے کہا اس سے تو اونٹنی ہی اچھی ہے ۔ آپ نے سن لیا اور فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تجھ سے اور اس سے تین گنا اچھا ہے افسوس سینکڑوں اونٹ رکھنے والے تجھ جیسوں پر افسوس ، تین مرتبہ یہی فرمایا پھر فرمایا مگر وہ جو اپنے مال کو اس طرح اس طرح کرے اور ہاتھ بھر بھر کر آپ نے اپنے ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارہ کیا ۔ یعنی راہ اللہ ہر نیک کام میں خرچ کرے ۔ پھر فرمایا انہوں نے فلاح پالی جو کم مال والے اور زیادہ عبادت والے ہوں ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف چالیس اوقیہ چاندی لائے اور ایک غریب انصاری ایک صاع اناج لائے منافقوں نے ایک کو ریاکار بتایا دوسرے کے صدقے کو حقیر کہہ دیا ایک مرتبہ آپ کے حکم سے لوگوں نے مال خیرات دینا اور جمع کرنا شروع کیا ۔ ایک صاحب ایک صائع کھجوریں لے آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کھجوروں کے دو صاع تھے ایک میں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے روک لیا اور ایک لے آیا آپ نے اسے بھی جمع شدہ مال میں ڈال دینے کو فرمایا اس پر منافق بکواس کرنے لگے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو اس سے بےنیاز ہے ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا میرے پاس ایک سو اوقیہ سونا ہے میں یہ سب صدقہ کرتا ہوں حضرت عمر نے فرمایا ہوش میں بھی ہے؟ آپ نے جواب دیا ہاں ہوش میں ہوں فرمایا پھر کیا کر رہا ہے؟ آپ نے فرمایا سنو میرے پاس آٹھ ہزار ہیں جن میں سے چار ہزار تو میں اللہ کو قرض دے رہا ہوں اور چار ہزار اپنے لئے رکھ لیتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے جو تو نے رکھ لیا ہے اور جو تو نے خرچ کر دیا ہے ۔ منافق ان پر باتیں بنانے لگے کہ لوگوں کو اپنے سخاوت دکھانے کے لئے اتنی بڑی رقم دے دی ۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر بڑی رقم اور چھوٹی رقم والوں کی سچائی اور ان منافقوں کا موذی پن ظاہر کردیا ۔ بنو عجلان کے عاصم بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس وقت بڑی رقم خیرات میں دی تھی جو ایک سو وسق پر مشتمل تھی ۔ منافقوں نے اسے ریاکاری پر محمول کیا تھا ۔ اپنی محنت مزدوری کی تھوڑی سی خیرات دینے والے ابو عقیل تھے ۔ یہ قبیلہ بنو انیف کے شخص تھے ان کے ایک صاع خیرات پر منافقوں نے ہنسی اور ہجو کی تھی اور روایت میں ہے کہ یہ چندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت کو جہاد پر روانہ کرنے کے لئے کیا تھا ۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن نے دو ہزار رکھے تھے ۔ دوسرے بزرگ نے رات بھر کی محنت میں دو صائع کھجوریں حاصل کر کے ایک صائع رکھ لیں اور ایک صائع دے دیں ۔ یہ حضرت ابو عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے رات بھر اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتے رہے تھے ۔ ان کا نام حباب تھا ۔ اور قول ہے کہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن ثعلبہ تھا ۔ پس منافقوں کے اس تمسخر کی سزا میں اللہ نے ہی ان سے یہی بدلہ لیا ۔ ان منافقوں کے لئے آخرت میں المناک عذاب ہیں ۔ اور ان کے اعمال کا ان عملوں جیسا ہی برا بدلہ ہے ۔