Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَاِذِ ابۡتَلٰٓى اِبۡرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ ‌ؕ قَالَ اِنِّىۡ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ‌ؕ قَالَ وَمِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ ‌ؕ قَالَ لَا يَنَالُ عَهۡدِى الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿124﴾
جب ابراہیم ( علیہ السلام ) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا عرض کرنے لگے میری اولاد کو فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ۔
و اذ ابتلى ابرهم ربه بكلمت فاتمهن قال اني جاعلك للناس اماما قال و من ذريتي قال لا ينال عهدي الظلمين
And [mention, O Muhammad], when Abraham was tried by his Lord with commands and he fulfilled them. [ Allah ] said, "Indeed, I will make you a leader for the people." [Abraham] said, "And of my descendants?" [ Allah ] said, "My covenant does not include the wrongdoers."
Jab ibrhim ( alh-e-salam ) ko unn kay rab ney kaee kaee baaton say aazmaya aur unhon ney sab ko poora ker diya to Allah ney farmaya mein tumhen logon ka imam bana doon ga araz kerney lagay aur meri aulad ko farmaya mera wada zalimon say nahi.
اور ( وہ وقت یاد کرو ) جب ابہیرام کو ان کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا ، اور انہوں نے وہ ساری باتیں کیں ، اللہ نے ( ان سے ) کہا : میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔ ابراہیم نے پوچھا : اور میری اولاد میں سے؟ اللہ نے فرمایا میرا ( یہ ) عہد ظالموں کو شامل نہیں ہے ۔ ( ٨٠ )
اور جب ( ف۲۲۳ ) ابراہیم کو اس کے رب نے کچھ باتوں سے آزمایا ( ف۲۲٤ ) تو اس نے وہ پوری کر دکھائیں ( ف۲۲۵ ) فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں عرض کی اور میری اولاد سے فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا ۔ ( ف۲۲٦ )
یاد کرو کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا 124 اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا ، تو اس نے کہا : ’’ میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘ ۔ ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا : ’’ اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ‘‘؟ اس نے جواب دیا: ’’ میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘ 125 ۔
اور ( وہ وقت یاد کرو ) جب ابراہیم ( علیہ السلام ) کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں ، ( اس پر ) اللہ نے فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا ، انہوں نے عرض کیا: ( کیا ) میری اولاد میں سے بھی؟ ارشاد ہوا: ( ہاں! مگر ) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :124 قرآن میں مختلف مقامات پر ان تمام سخت آزمائشوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے ، جن سے گزر کر حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے آپ کو اس بات کا اہل ثابت کیا تھا کہ انہیں بنی نوعِ انسان کا امام و رہنما بنایا جائے ۔ جس وقت سے حق ان پر منکشف ہوا ، اس وقت سے لے کر مرتے دم تک ان کی پوری زندگی سراسر قربانی ہی قربانی تھی ۔ دنیا میں جتنی چیزیں ایسی ہیں ، جن سے انسان محبّت کرتا ہے ، ان میں سے کوئی چیز ایسی نہ تھی ، جس کو حضرت ابراہیم ؑ نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو ۔ اور دنیا میں جتنے خطرات ایسے ہیں ، جن سے آدمی ڈرتا ہے ، ان میں سے کوئی خطرہ ایسا نہ تھا ، جسے انہوں نے حق کی راہ میں نہ جھیلا ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :125 یعنی یہ وعدہ تمہاری اولاد کے صرف اس حصّے سے تعلق رکھتا ہے جو صالح ہو ۔ ان میں سے جو ظالم ہوں گے ، ان کے لیے یہ وعدہ نہیں ہے ۔ اس سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے کہ گمراہ یہُودی اور مشرک بنی اسمٰعیل اس وعدے کے مصداق نہیں ہیں ۔
امام توحید اس آیت میں خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی کا بیان ہو رہا ہے جو توحید میں دنیا کے امام ہیں انہوں نے تکالیف پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں ثابت قدمی اور جوان مردی دکھائی فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان مشرکین اور اہل کتاب کو جو ملت ابراہیم کے دعویدار ہیں ذرا ابراہیم علیہ السلام کی فرماں برداری اور اطاعت گزاری کے واقعات تو سناؤ تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ دین حنیف پر اسوہ ابراہیمی پر کون قائم ہے وہ یا آپ اور آپ کے اصحاب؟ قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت ( وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ ) 53 ۔ النجم:37 ) ابراہیم وہ ہیں انہوں نے پوری وفاداری دکھائی اور فرمایا آیت ( اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 16 ۔ النحل:120 ) ابراہیم لوگوں کے پیشوا اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار مخلص اور نعمت کے شکر گزار تھے جنہیں اللہ عزوجل نے پسند فرما کر راہ راست پر لگا دیا تھا جنہیں ہم نے دنیا میں بھلائی دی تھی اور آخرت میں بھی صالح اور نیک انجام بنایا تھا پھر ہم نے تیری طرف اے نبی وحی کی کہ تو بھی ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کر جو مشرکین میں سے نہ تھے اور جگہ ارشاد ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے نہ مشرک تھے بلکہ خالص مسلمان تھے ان سے قربت اور نزدیکی والا وہ شخص ہے جو ان کی تعلیم کا تابع ہو اور یہ نبی اور ایمان والے ان ایمان والوں کا دوست اللہ تعالیٰ خود ہے ابتلاء کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں ۔ کلمات سے مراد شریعت حکم اور ممانعت وغیرہ ہے کلمات سے مراد کلمات تقدیریہ بھی ہوتی ہے جیسے مریم علیہما السلام کی بابت ارشاد ہے صدقت بکلمات ربھا یعنی انہوں نے اپنے رب کے کلمات کی تصدیق کی ۔ کلمات سے مراد کلمات شرعیہ بھی ہوتی ہے ۔ آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ) 6 ۔ الانعام:115 ) یعنی اللہ تعالیٰ کے شرعی کلمات سے سچائی اور عدل کے ساتھ پورے ہوئے یہ کلمات یا تو سچی خبریں ہیں یا طلب عدل ہے غرض ان کلمات کو پورا کرنے کی جزا میں انہیں امامت کا درجہ ملا ، ان کلمات کی نسبت بہت سے اقوال ہیں مثلاً احکام حج ، مونچھوں کو کم کرنا ، کلی کرنا ، ناک صاف کرنا ، مسواک کرنا ، سر کے بال منڈوانا یا رکھوانا تو مانگ نکالنا ، ناخن کاٹنا ، زیر ناف کے بال کاٹنا ، ختنہ کرانا ، بغل کے بال کاٹنا ، پیشاب پاخانہ کے بعد استنجا کرنا ، جمعہ کے دن غسل کرنا ، طواف کرنا ، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ، رمی جمار کرنا ، طواف افاضہ کرنا ۔ مکمل اسلام حضرت عبداللہ فرماتے ہیں اس سے مراد پورا اسلام ہے جس کے تیس حصے ہیں دس کا بیان سورۃ برائت میں ہے آیت ( التائبون العابدون ) سے مومنین تک یعنی توبہ کرنا عبادت کرنا حمد کرنا اللہ کی راہ میں پھرنا رکوع کرنا سجدہ کرنا بھلائی کا حکم دینا برائی سے روکنا اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا ایمان لانا دس کا بیان قد افلاح کے شروع سے یحافظون تک ہے اور سورۃ معارج میں ہے یعنی نماز کو خشوع خضوع سے ادا کرنا لغو اور فضول باتوں اور کاموں سے منہ پھیر لینا زکوٰۃ دیتے رہا کرنا ، شرمگاہ کی حفاظت کرنا ، امانت داری کرنا ، وعدہ وفائی کرنا ، نماز پر ہمیشگی اور حفاظت کرنا قیامت کو سچا جاننا عذابوں سے ڈرتے رہنا سچی شہادت پر قائم رہنا اور دس کا بیان سورۃ احزاب میں آیت ( اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا ) 33 ۔ الاحزاب:35 ) تک ہے یعنی اسلام لانا ، ایمان رکھنا ، قرآن پڑھنا ، سچ بولنا ، صبر کرنا ، عاجزی کرنا ، خیرات دینا ، روزہ رکھنا ، بدکاری سے بچنا ، اللہ تعالیٰ کا ہر وقت بکثرت ذکر کرنا ، ان تینوں احکام کا جو عامل ہو وہ پورے اسلام کا پابند ہے اور اللہ کے عذابوں سے بری ہے ۔ کلمات ابراہیمی میں اپنی قوم سے علیحدگی کرنا بادشاہ وقت سے نڈر ہو کر اسے بھی تبلیغ کرنا پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنا سہنا پھر وطن اور گھر بار کو اللہ کی راہ میں چھوڑ کر ہجرت کرنا مہمانداری کرنا اللہ کی راہ میں جانی اور مالی مصیبت راہ اللہ برداشت کرنا یہاں تک کہ بچہ کو اللہ کی راہ قربان کرنا اور وہ بھی اپنے ہی ہاتھ سے یہ کل احکام خلیل الرحمٰن علیہ السلام بجا لائے ۔ سورج چاند اور ستاروں سے بھی آپ کی آزمائش ہوئی امامت کے ساتھ بیت اللہ بنانے کے حکم کے ساتھ حج کے حکم اور مقام ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کے رہنے والوں کی روزیوں کے ساتھ حضرت محمد صلعم کو آپ کے دین پر بھیجنے کے ساتھ بھی آزمائش ہوئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے خلیل میں تمہیں آزماتا ہوں دیکھتا ہوں تم کیا ہو؟ تو آپ نے فرمایا مجھے لوگوں کا امام بنا دے ، اس کعبہ کو لوگوں کے ثواب اور اجتماع کا مرکز بنا دے ، یہاں والوں کو پھلوں کی روزیاں دے یہ تمام باتیں عزوجل نے پوری کر دیں اور یہ سب نعمتیں آپ کو عطا ہوئیں صرف ایک آرزو پوری نہ ہوئی وہ یہ کہ میری اولاد کو بھی امامت ملے تو جواب ملا ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچتا کلمات سے مراد اس کے ساتھ کی آیتیں بھی ہیں موطا وغیرہ میں ہے کہ سب سے پہلے ختنہ کرانے والے سب سے پہلے مہمان نوازی کرنے والے سب سے پہلے ناخن کٹوانے والے سب سے پہلے مونچھیں پست کرنے والے سب سے پہلے سفید بال دیکھنے والے حضرت ابراہیم ہی ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سفید بال دیکھ کر پوچھا کہ اے اللہ یہ کیا ہے؟ جواب ملا وقار و عزت ہے کہنے لگے پھر تو اے اللہ اسے اور زیادہ کر ۔ سب سے پہل منبر پر خطبہ کہنے والے ، سب سے پہلے قاصد ، بھیجنے والے ، سب سے پہلے تلوار چلانے والے ، سب سے پہلے مسواک کرنے والے سب سے پہلے پانی کے ساتھ استنجا کرنے والے ، سب سے پہلے پاجامہ پہننے والے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں ۔ ایک غیر ثابت حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں منبر بناؤں تو میرے باپ ابراہیم نے بھی بنایا تھا اور اگر میں لکڑی ہاتھ میں رکھوں تو یہ بھی میرے باپ ابراہیم کی سنت ہے مختلف بزرگوں سے کلمات کی تفسیر میں جو کچھ ہم نے نقل کر دیا اور ٹھیک بھی یہی ہے کہ یہ سب باتیں ان کلمات میں تھیں کسی خاص تخصیص کی کوئی وجہ ہمیں نہیں ملی واللہ صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے دس باتیں فطرت کی اور اصل دین کی ہیں مونچھیں کم کرنا ، داڑھی بڑھانا ، مسواک کرنا ، ناک میں پانی دینا ، ناخن لینا ، پریان دھونی ، بغل کے بال لینا ، زیر ناف کے بال لینا ، استنجا کرنا راوی کہتا ہے میں دسویں بات بھول گیا شاید کلی کرنا تھی ۔ صحین میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پانچ باتیں فطرت کی ہیں ختنہ کرانا ، موئے ( بال ) زہار لینا ، مونچھیں کم کرنا ، ناخن لینا ، بغل کے بال لینا ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم کو وفا کرنے والا اس لئے فرمایا ہے کہ وہ ہر صبح کے وقت پڑھتے تھے آیت ( فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ 17؀ وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ 18؀ يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَيُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ 19۝ۧ ) 30 ۔ الروم:17 ) ایک اور روایت میں ہے کہ ہر دن چار رکعتیں پڑھتے تھے لیکن یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں اور ان میں کئی کئی راوی ضعیف ہیں اور ضعف کی بہت سی وجوہات ہیں بلکہ ان کا بیان بھی بےبیان ضعف جائز نہیں متن بھی ضعف پر دلالت کرتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی امت کی خوشخبری سن کر اپنی اولاد کے لئے بھی یہی دعا کرتے تھے جو قبول تو کی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی خبر کر دی جاتی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظالم بھی ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ کا عہد نہ پہنچے گا وہ امام نہ بنائے جائیں گے نہ ان کی اقتدار اور پیروی کی جائے گی سورۃ عنکبوت کی آیت میں اس مطلب کو واضح کر دیا گیا ہے کہ خلیل اللہ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی وہاں ہے آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا ) 29 ۔ العنکبوت:27 ) یعنی ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی ۔ حضرت ابراہیم کے بعد جتنے انبیاء اور رسول آئے وہ سب آپ ہی کی اولاد میں تھے اور جتنی کتابیں نازل ہوئیں سب آپ ہی کی اولاد میں ہوئی دعا ( صلوات اللہ وسلامہ علیھم اجمعین ) یہاں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظلم کرنے والے بھی ہوں گی ، ظالم سے مرد بعض نے مشرک بھی لی ہے عہد سے مراد امر ہے ابن عباس فرماتے ہیں ظالم کو کسی چیز کا والی اور بڑا نہ بنانا چاہئے گو وہ اولاد ابراہیم میں سے ہو ، حضرت خلیل کی دعا ان کی نیک اولاد کے حق میں قبول ہوئی ہے یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ظالم سے کوئی عہد نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے اس کا عہد توڑ دیا جائے پورا نہ کیا جائے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ دینے کا عہد نہیں کیا دنیا میں تو کھا پی رہا ہے اور عیش و عشرت کر رہا ہے ۔ بس یہی ہے عہد سے مراد دین بھی ہے یعنی تیری کل اولاد دیندار نہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمِنْ ذُرِّيَّـتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِيْنٌ ) 37 ۔ الصافات:113 ) یعنی ان کی اولاد میں بھلے بھی ہیں اور برے بھی اطاعت کے معنی بھی کئے گئے ہیں یعنی اطاعت صرف معروف اور بھلائی میں ہی ہو گی اور عہد کے معنی نبوت کے بھی آئے ہیں ابن خویز منذاذ مالکی فرماتے ہیں ظالم شخص نہ تو خلیفہ بن سکتا ہے نہ حاکم نہ مفتی نہ گواہ نہ راوی ۔