Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
لَـيۡسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَلَا عَلَى الۡمَرۡضٰى وَلَا عَلَى الَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ مَا يُنۡفِقُوۡنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوۡا لِلّٰهِ وَ رَسُوۡلِهٖ‌ؕ مَا عَلَى الۡمُحۡسِنِيۡنَ مِنۡ سَبِيۡلٍ‌ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌۙ‏ ﴿91﴾
ضعیفوں پر اور بیماروں پر اور ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں ، ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راہ نہیں ، اللہ تعالٰی بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے ۔
ليس على الضعفاء و لا على المرضى و لا على الذين لا يجدون ما ينفقون حرج اذا نصحوا لله و رسوله ما على المحسنين من سبيل و الله غفور رحيم
There is not upon the weak or upon the ill or upon those who do not find anything to spend any discomfort when they are sincere to Allah and His Messenger. There is not upon the doers of good any cause [for blame]. And Allah is Forgiving and Merciful.
Zaeefon aur beemaron per aur unn per jin kay pass kharach kerney ko kuch bhi nahi koi haraj nahi ba-shart-e-kay woh Allah aur uss kay rasool ki khair khuwaee kertay rahen aisay nek kaaron per ilzam ki koi raah nahi Allah Taalaa bari maghfirat-o-rehmat wala hai.
کمزور لوگوں پر ( جہاد میں نہ جانے کا ) کوئی گناہ نہیں ، نہ بیماروں پر ، اور نہ ان لوگوں پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں ہے ، جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے مخلص ہوں ۔ نیک لوگوں پر کوئی الزام نہیں ، اور اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
ضعیفوں پر کچھ حرج نہیں ( ف۲۰۲ ) اور نہ بیماروں پر ( ف۲۰۳ ) اور نہ ان پر جنہیں خرچ کا مقدور نہ ہو ( ف۲۰٤ ) جب کہ اللہ اور رسول کے خیر خواہ رہیں ( ف۲۰۵ ) نیکی والوں پر کوئی راہ نہیں ( ف۲۰٦ ) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکتِ جہاد کے لیے راہ نہیں پاتے ، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوصِ دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہوں ۔ 92 ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
ضعیفوں ( کمزوروں ) پر کوئی گناہ نہیں اور نہ بیماروں پر اور نہ ( ہی ) ایسے لوگوں پر ہے جو اس قدر ( وسعت بھی ) نہیں پاتے جسے خرچ کریں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لئے خالص و مخلص ہو چکے ہوں ، نیکوکاروں ( یعنی صاحبانِ احسان ) پر الزام کی کوئی راہ نہیں اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :92 ”اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بظاہر معذور ہوں ان کے لیے بھی مجرد ضعیفی و بیماری یا محض ناداری کافی وجہ معافی نہیں ہے بلکہ ان کی مجبوریاں صرف اس صورت میں ان کے لیے وجہ معافی ہو سکتی ہیں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے سچے وفادار ہوں ۔ ورنہ اگر وفاداری موجود نہ ہو تو کوئی شخص صرف اس لیے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ادائے فرض کے موقع پر بیمار یا نادار تھا ۔ خدا صرف ظاہر کو نہیں دیکھتا ہے کہ ایسے سب لوگ جو بیماری کا طبی صداقت نامہ یا بڑھاپے اور جسمانی نقص کا عذر پیش کر دیں ، اس کے ہاں یکساں معذور قرار دے دیے جائیں اور ان پر سے باز پرس ساقط ہو جائے ۔ وہ تو ان میں سے ایک ایک شخص کے دل کا جائزہ لے گا ، اور اس کے پورے مخفی و بظاہر برتاؤ کو دیکھے گا ، اور یہ جانچے گا کہ اس کی معذوری ایک وفادار بندے کی سی معذرت تھی یا ایک غدار اور باغی کی سی ۔ ایک شخص ہے کہ جب اس نے فرض کی پکار سنی تو دل میں لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ”بڑے اچھے موقعے پر میں بیمار ہو گیا ورنہ یہ بلا کسی طرح ٹالے نہ ٹلتی اور خواہ مخواہ مصیبت بھگتنی پڑتی“ ۔ دوسرے شخص نے یہی پکار سُنی تو تلملا اُٹھا کہ”ہائے ، کیسے موقع پر اس کم بخت بیماری نے آن دبوچا ، جو وقت میدان میں نکل کر خدمت انجام دینے کا تھا وہ کس بری طرح یہاں بستر پر ضائع ہو رہا ہے“ ۔ ایک نے اپنے لیے تو خدمت سے بچنے کا بہانہ پایا ہی تھا مگر اس کے ساتھ اس نے دوسروں کو بھی اس سے روکنے کی کوشش کی ۔ دوسرا اگرچہ خود بستر علالت پر مجبور پڑا ہوا تھا مگر وہ برابر اپنے عزیزوں ، دوستوں اور بھائیوں کو جہاد کا جوش دلا تا رہا اور اپنے تیمار داروں سے بھی کہتا رہا کہ ” میرا اللہ مالک ہے ، دوا دارو کا انتظام کسی نہ کسی طرح ہو ہی جائے گا ، مجھ اکیلے انسان کے لیے تم قیمتی وقت کو ضائع نہ کرو جسے دین حق کی خدمت میں صرف ہونا چاہیے“ ۔ ایک نے بیماری کے عذر سے گھر بیٹھ کر سارا زمانہ جنگ بد دلی پھیلانے ، بری خبریں اڑانے ، جنگی مساعی کو خراب کرنے اور مجاہدین کے پیچھے ان کے گھر بگاڑنے میں صرف کیا ۔ دوسرے نے یہ دیکھ کر کہ میدان میں جانے کے شرف سے وہ محروم رہ گیا ہے ، اپنی حد تک پوری کوشش کی کہ گھر کے محاذ ( Home Front ) کو مضبوط رکھنے میں جو زیادہ سے زیادہ خدمت اس سے بن آئے اسے انجام دے ۔ ظاہر کے اعتبار سے تو یہ دونوں ہی معذور ہیں ۔ مگر خدا کی نگاہ میں یہ دو مختلف قسم کے معذور کسی طرح یکساں نہیں ہو سکتے ۔ خدا کے ہاں معافی اگر ہے تو صرف دوسرے شخص کے لیے ۔ رہا پہلا شخص تو ہو اپنی معذوری کے باوجود غداری و نا وفاداری کا مجرم ہے ۔
عدم جہاد کے شرعی عذر اس آیت میں ان شرعی عذروں کا بیان ہو رہا ہے جن کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص جہاد میں نہ جائے تو اس پر شرعی حرج نہیں ۔ پس ان سببوں میں سے ایک قسم تو وہ ہے جو لازم ہوتی ہے کسی حالت میں انسان سے الگ نہیں ہوتیں جیسے پیدائشی کمزوری یا اندھا پن یا لنگڑا پن کوئی لولا لنگڑا یا اپاہج بیمار یا بالکل ہی ناطاقت ہو ۔ دوسری قسم کے وہ عذر ہوتے ہیں جو کبھی ہیں اور کبھی نہیں اتفاقیہ اسباب میں مثلاً کوئی بیمار ہو گیا ہے یا بالکل فقیر ہو گیا ہے ، سامان سفر سامان جہاد مہیا نہیں کر سکتے وغیرہ پس یہ لوگ شرکت جہاد نہ کر سکں تو ان پر شرعاً کوئی مواخذہ گناہ یا عار نہیں لیکن انہیں اپنے دل میں صلاحیت اور خلوص رکھنا چاہئے ۔ مسلمانوں کے ، اللہ کے دین کے خیر خواہ بنے رہیں اوروں کو جہاد پر آمادہ کریں ۔ بیٹھے بیٹھے جو خدمت مجاہدین کی انجام دے سکتے ہوں دیتے رہیں ۔ ایسے نیک کاروں پر کوئی وجہ الزام نہیں ۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے حواریوں نے عیسیٰ نبی اللہ سے پوچھا کہ ہمیں بتائیے اللہ کا خیر خواہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کے حق کو لوگوں کے حق پر مقدم کرے اور جب ایک کام دین کا اور ایک دنیا کا آ جائے تو دینی کام کی اہمیت کا پورا لحاظ رکھے پھر فارغ ہو کر دنیوی کام کو انجام دے ۔ ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر لوگ نماز استسقاء کیلئے میدان میں نکلے ان میں حضرت بلال بن سعد بھی تھے آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا اے حاضرین کیا تم یہ مانتے ہو کہ تم سب اللہ کے گنہگار بندے ہو؟ سب نے اقرار کیا ۔ اب آپ نے دعا شروع کی کہ پروردگار ہم نے تیرے کلام میں سنا پڑھا ہے کہ نیک بندوں پر کوئی مشکل نہیں ۔ ہم اپنی برائیوں کا اقرار کرتے ہیں پس تو ہمیں معاف فرما ہم پر رحم فرما ہم پر اپنی رحمت سے بارشیں برسا اب آپ نے ہاتھ اٹھائے اور آپ کے ساتھ ہی اور سب نے بھی ہاتھ اٹھائے رحمت الٰہی جوش میں آئی اور اسی وقت جھوم جھوم کر رحمت کی بدلیاں برسنے لگیں ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی تھا سورہ برات جب اتر رہی تھی میں اسے بھی لکھ رہا تھا میرے کان میں قلم اڑا ہوا تھا جہاد کی آیتیں اتر رہی تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم منتظر تھے کہ دیکھیں کہ اب کیا حکم نازل ہوتا ہے؟ اتنے میں ایک نابینا صحابی آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کے احکام اس اندھاپے میں کیسے بجا لا سکتا ہوں؟ اسی وقت یہ آیت اتری ۔ پھر ان کا ذکر ہوتا ہے جو جہاد کی شرکت کے لئے تڑپتے ہیں مگر قدرتی اسباب سے مجبور ہو کر بادل ناخواستہ رک جاتے ہیں ۔ جہاد کا حکم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہوا مجاہدین کا لشکر جمع ہونا شروع ہوا تو ایک جماعت آئی جن میں حضرت عبداللہ بن مغفل بن مقرن مزنی وغیرہ تھے انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سواریاں نہیں آپ ہماری سواریوں کا انتظام کر دیں تاکہ ہم بھی راہ حق میں جہاد کرنے اور آپ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کریں ۔ آپ نے جواب دیا کہ واللہ میرے پاس تو ایک بھی سواری نہیں ۔ یہ ناامید ہو کر روتے پیٹتے غم زدہ اور رنجیدہ ہو کر لوٹے ان پر اس سے زیادہ بھاری بوجھ کوئی نہ تھا کہ یہ اس وقت ہم رکابی کی اور جہاد کی سعادت سے محروم رہ گئے اور عورتوں کی طرح انہیں یہ مدت گھروں میں گذارنی پڑے گی نہ ان کے پاس خود ہی کچھ ہے نہ کہیں سے کچھ ملتا ہے پس جناب باری نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی تسکین کر دی ۔ یہ آیت قبیلہ مزینہ کی شاخ بنی مقرن کے بارے میں اتری ہے ۔ محمد بن کعب کا بیان ہے کہ یہ سات آدمی تھے بنی عمرو کے سالم بن عوف ، بنی واقف کے حرمی بن عمرو ، بنی مازن کے عبدالرحمن بن کعب ، بنی معلی کے فضل اللہ ، بنی سلمہ کے عمرو بن عثمہ اور عبداللہ بن عمرو مزنی اور بنو حارثہ کے علیہ بن زید ۔ بعض روایتوں میں کچھ ناموں میں ہیر پھیر بھی ہے ۔ انہی نیک نیت بزرگوں کے بارے میں اللہ کے رسول ، رسولوں کے سرتاج صلی اللہ علیہ وسلم آلہ و اصحابہ و ازوجہ و اہل بیتہ و سلم کا فرمان ہے کہ اے میرے مجاہد ساتھیو تم نے مدینے میں جو لوگ اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ان میں وہ بھی ہیں کہ تم جو خرچ کرتے ہو جس میدان میں چلتے ہو جو جہاد کرتے ہو سب میں وہ بھی ثواب کے شریک ہیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر صحابہ نے کہا وہ باوجود اپنے گھروں میں رہنے کے ثواب میں ہمارے شریک ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ معذور ہیں عذر کے باعث رکے ہیں ۔ ایک اور آیت میں ہے انہیں بیماریوں نے روک لیا ہے ۔ پھر ان لوگوں کا بیان فرمایا جنہیں فی الوقت کوئی عذر نہیں مالدار ہٹے کٹے ہیں ۔ لیکن پھر بھی سرکار نبوت میں آ کر بہانے تراش تراش کر جہاد میں ساتھ نہیں دیتے ۔ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھ جاتے ہیں ، زمین پکڑ لیتے ہیں ۔ فرمایا ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ کی مہر لگ چکی ہے ۔ اب وہ اپنے بھلے برے کے علم سے بھی کورے ہوگئے ہیں ۔