Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَّلَا عَلَى الَّذِيۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡكَ لِتَحۡمِلَهُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُكُمۡ عَلَيۡهِ تَوَلَّوْا وَّاَعۡيُنُهُمۡ تَفِيۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا يَجِدُوۡا مَا يُنۡفِقُوۡنَؕ‏ ﴿92﴾
ہاں ان پر بھی کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ میں تو تمہاری سواری کے لئے کچھ بھی نہیں پاتا تو وہ رنج و غم سے اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں کہ انہیں خرچ کرنے کے لئے کچھ بھی میسر نہیں ۔
و لا على الذين اذا ما اتوك لتحملهم قلت لا اجد ما احملكم عليه تولوا و اعينهم تفيض من الدمع حزنا الا يجدوا ما ينفقون
Nor [is there blame] upon those who, when they came to you that you might give them mounts, you said, "I can find nothing for you to ride upon." They turned back while their eyes overflowed with tears out of grief that they could not find something to spend [for the cause of Allah ].
Haan unn per bhi koi haraj nahi jo aap kay pass aatay hain kay aap unhen sawari mohiyya ker den to aap jawab detay hain kay mein to tumahri sawari kay liye kuch bhi nahi pata to woh ranj-o-ghum say apni aakhon say aansoo bahatay huye lot jatay hain kay enhen kharach kerney kay liye kuch bhi mayyasar nahi.
اور نہ ان لوگوں پر ( کوئی گناہ ہے ) جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس اس غرض سے آئے کہ تم انہیں کوئی سواری مہیا کردو ، اور تم نے کہا کہ : میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر میں تمہیں سوار کرسکوں ۔ تو وہ اس حالت میں واپس گئے کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسوؤں سے بہہ رہی تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں ہے ۔ ( ٧٢ )
اور نہ ان پر جو تمہارے حضور حاضر ہوں کہ تم انہیں سواری عطا فرماؤ ( ف۲۰۷ ) تم سے یہ جواب پائیں کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تمہیں سوار کروں اس پر یوں واپس جائیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو ابلتے ہوں اس غم سے کہ خرچ کا مقدور نہ پایا ،
اسی طرح ان لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آکر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں ، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا تو وہ مجبوراً واپس آگئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریکِ جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے ۔ 93
اور نہ ایسے لوگوں پر ( طعنہ و الزام کی راہ ہے ) جبکہ وہ آپ کی خدمت میں ( اس لئے ) حاضر ہوئے کہ آپ انہیں ( جہاد کے لئے ) سوار کریں ( کیونکہ ان کے پاس اپنی کوئی سواری نہ تھی تو ) آپ نے فرمایا: میں ( بھی ) کوئی ( زائد سواری ) نہیں پاتا ہوں جس پر تمہیں سوار کر سکوں ، ( تو ) وہ ( آپ کے اذن سے ) اس حالت میں لوٹے کہ ان کی آنکھیں ( جہاد سے محرومی کے ) غم میں اشکبار تھیں کہ ( افسوس ) وہ ( اس قدر ) زادِ راہ نہیں پاتے جسے وہ خرچ کر سکیں ( اور شریک جہاد ہو سکیں )
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :93 ایسے لوگ جو خدمت دین کے لیے بے تاب ہوں ، اور اگر کسی حقیقی مجبوری کے سبب سے یا ذرائع نہ پانے کی وجہ سے عملًا خدمت نہ کرسکیں تو ان کے دل کو اتنا سخت صدمہ ہو جتنا کسی دنیا پرست کو روزگار چھوٹ جانے یا کسی بڑے نفع کے موقع سے محروم رہ جانے کا ہوا کرتا ہے ، ان کا شمار خدا کےہاں خدمت انجام دینے والوں ہی میں ہوگا اگرچہ انہوں نے عملا کوئی خدمت انجام نہ دی ہو ۔ اس لیے کہ وہ چاہے ہاتھ پاؤں سے کام نہ کر سکے ہوں ، لیکن دل سے تو وہ برسر خدمت ہی رہے ہیں ۔ یہی بات ہے جو غزوہ تبوک سے واپسی پر اثنائے سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقا کو خطاب کرتے ہوئے فرمائی تھی کہ ان بالمدینۃ اقوامًا ما سرتم مسیرا ولا قطعتم وادیا الا کانو ا معکم ۔ ” مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے کوئی وادی طے نہیں کی اور کوئی کوچ نہیں کیا جس میں وہ تمہارے ساتھ ساتھ نہ رہے ہوں“ ۔ صحابہ نے تعجب سے کہا” کیا مدینہ ہی میں رہتے ہوئے؟“ فرمایا”ہاں ، مدینے ہی میں رہتے ہوئے ۔ کیونکہ مجبوری نے انہیں روک لیا تھا ورنہ وہ خود رکنے والے نہ تھے“ ۔