Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَاٰخَرُوۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِهِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًـا وَّاٰخَرَ سَيِّئًا ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنۡ يَّتُوۡبَ عَلَيۡهِمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿102﴾
اور کچھ لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں جنہوں نے ملے جلے عمل کئے تھے ، کچھ بھلے اور کچھ برے اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے بلاشبہ اللہ تعالٰی بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے ۔
و اخرون اعترفوا بذنوبهم خلطوا عملا صالحا و اخر سيا عسى الله ان يتوب عليهم ان الله غفور رحيم
And [there are] others who have acknowledged their sins. They had mixed a righteous deed with another that was bad. Perhaps Allah will turn to them in forgiveness. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
Aur kuch aur log hain jo apni khata kay iqrari hain jinhon ney milay julay amal kiye thay kuch bhalay aur kuch buray Allah say umeed hai kay unn ki toba qabool farmaye. Bila shuba Allah Taalaa bari maghfirat wala bari rehmat wala hai.
اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرلیا ہے ۔ انہوں نے ملے جلے عمل کیے ہیں ، کچھ نیک کام ، اور کچھ برے ۔ امید ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرلے گا ۔ ( ٧٨ ) یقینا اللہ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
اور کچھ اور ہیں جو اپنے گناہوں کے مقر ہوئے ( ف۲۳۵ ) اور ملایا ایک کام اچھا ( ف۲۳٦ ) اور دوسرا بڑا ( ف۲۳۷ ) قریب ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے ، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ،
کچھ اور لوگ ہیں جنہیں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کر لیا ہے ۔ ان کا عمل مخلوط ہے ، کچھ نیک ہے اور کچھ بد ۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہو جائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
اور دوسرے وہ لو گ کہ ( جنہوں نے ) اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے انہوں نے کچھ نیک عمل اور دوسرے برے کاموں کو ( غلطی سے ) ملا جلا دیا ہے ، قریب ہے کہ اﷲ ان کی توبہ قبول فرمالے ، بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
تساہل اور سستی سے بچو منافقوں کا حال اوپر کی آیتوں میں بیان فرمایا جو اللہ کی راہ میں جہاد سے بے ایمانی ، شک اور جھٹلانے کے طور پر جی چراتے ہیں اور شامل نہیں ہوتے ۔ اس آیت میں ان کا بیان ہو رہا ہے جو ہیں تو ایمان دار اور سچے پکے مسلمان ۔ لیکن سستی اور طلب راحت کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہوئے ۔ انہیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے ، اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان کی نیکیاں بھی ہیں ۔ پس یہ نیکی بدی والے لوگ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہیں اس کی معافی اور درگذر کے ماتحت ہیں ۔ یہ آیت گو معین لوگوں کے بارے میں ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ، ہر مسلمان جو نیکی کے ساتھ بدی میں بھی ملوث ہو وہ اللہ کے سپرد ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب کہ انہوں نے بنو قریظہ سے کہا تھا کہ ذبح ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہ لوگ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے ۔ حضرت ابو لبابہ کے ساتھ اور بھی پانچ یا سات یا نو آدمی تھے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو ان بزرگوں نے اپنے تئیں مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا تھا کہ جب تک خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے نہ کھولیں گے ہم اس قید سے آزاد نہ ہوں گے جب یہ آیت اتری حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خودان کے بندھن کھولے اور ان سے درگذر فرما لیا ۔ بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے پاس آج رات کو دو آنے والے آئے جو مجھے اٹھا کر لے چلے ۔ ہم ایک شہر میں پہنچے جو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا ۔ وہاں ہمیں چند ایسے لوگ ملے جنکا آدھا دھڑ تو بہت ہی سڈول ، نہایت خوشنما اور خوبصورت تھا اور آدھا نہایت ہی برا اور بدصورت ۔ ان دونوں نے ان سے کہا جاؤ اس اس نہر میں غوطہ لگاؤ ۔ وہ گئے اور غوطہ لگا کر واپس آئے وہ برائی ان سے دور ہو گئی تھی اور وہ نہایت خوبصورت اور اچھے ہوگئے تھے ۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے فرمایا کہ یہ جنت عدن ہے ۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل ہے ۔ اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی دیکھا یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں کے ساتھ بدیاں بھی ملائے ہوئے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے درگذر فرما لیا اور انہیں معاف فرمایا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو اسی طرح مختصراً ہی روایت کیا ہے ۔