Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَمِمَّنۡ حَوۡلَــكُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ‌‌ ۛؕ وَمِنۡ اَهۡلِ الۡمَدِيۡنَةِ‌ ‌ ‌ؔۛمَرَدُوۡا عَلَى النِّفَاقِلَا تَعۡلَمُهُمۡ ‌ؕ نَحۡنُ نَـعۡلَمُهُمۡ‌ ؕ سَنُعَذِّبُهُمۡ مَّرَّتَيۡنِ ثُمَّ يُرَدُّوۡنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيۡمٍ‌ ۚ‏ ﴿101﴾
اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ، آپ ان کو نہیں جانتے ان کو ہم جانتے ہیں ہم ان کو دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے ۔
و ممن حولكم من الاعراب منفقون و من اهل المدينة مردوا على النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذبهم مرتين ثم يردون الى عذاب عظيم
And among those around you of the bedouins are hypocrites, and [also] from the people of Madinah. They have become accustomed to hypocrisy. You, [O Muhammad], do not know them, [but] We know them. We will punish them twice [in this world]; then they will be returned to a great punishment.
Aur kuch tumharay gird-o-paish walon mein aur kuch madinay walon mein aisay munafiq hain kay nifaq per aray huye hain aap inn ko nahi jantay inn ko hum jantay hain hum inn ko dohri saza den gay phir woh baray bhari azab ki taraf bhejay jayen gay.
اور تمہارے ارد گرد جو دیہاتی ہیں ، ان میں بھی منافق لوگ موجود ہیں ، اور مدینہ کے باشندوں میں بھی ۔ ( ٧٦ ) یہ لوگ منافقت میں ( اتنے ) ماہر ہوگئے ہیں ( کہ ) تم انہیں نہیں جانتے ، انہیں ہم جانتے ہیں ۔ ان کو ہم دو مرتبہ سزا دیں گے ۔ ( ٧٧ ) پھر ان کو ایک زبردست عذاب کی طرف دھکیل دیا جائے گا ۔
اور تمہارے آس پاس ( ف۲۳۱ ) کے کچھ گنوار منافق ہیں ، اور کچھ مدینہ والے ، ان کی خو ہوگئی ہے نفاق ، تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انھیں جانتے ہیں ( ف۲۳۲ ) جلد ہم انہیں دوبارہ ( ف۲۳۳ ) عذاب کریں گے پھر بڑے عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے ( ف۲۳٤ )
تمہارے گردوپیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہو گئے ہیں ۔ تم انہیں نہیں جانتے ، ہم ان کو جانتے ہیں ۔ 97 قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے ، 98 پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے ۔
اور ( مسلمانو! ) تمہارے گرد و نواح کے دیہاتی گنواروں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی ، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ، آپ انہیں ( اب تک ) نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں ( بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی جملہ منافقین کا علم اور معرفت عطا کر دی گئی ) ۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ ( دنیا ہی میں ) عذاب دیں گے٭ پھر وہ ( قیامت میں ) بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :97 یعنی اپنے نفاق کو چھپانے میں وہ اتنے مشاق ہوگئے ہیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی کمال درجے کی فراست کے باوجود ان کو نہیں پہنچان سکتے تھے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :98 دوہری سزا سے مراد یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ دنیا جس کی محبت میں مبتلا ہو کر انہوں نے ایمان و اخلاص کے بجائے منافقت اور غداری کا رویہ اختیار کیا ہے ، ان کے ہاتھ سے جائے گی اور یہ مال و جاہ اور عزت حاصل کرنے کے بجائے الٹی ذلت و نامرادی پائیں گے ۔ دوسری طرف جس مشن کو یہ ناکام دیکھنا اور اپنی چال بازیوں سے ناکام کرنا چاہتے ہیں وہ ان کی خواہشوں کو کوششوں کے علی الرغم ان کی آنکھوں کے سامنے فروغ پائے گا ۔
منافقت کے خوگر شہری اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلوات اللہ و سلامہ علیہ کو بتلاتا ہے کہ مدینے کے اردگرد رہنے والے گنواروں میں اور خود اہل مدینہ میں بہت سے منافق ہیں ۔ جو برابر اپنے نفاق کے خوگر ہو چکے ہیں ۔ تمرد فلان علی اللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی اور نافرمانی کرے ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم تو انہیں جانتے نہیں ہم جانتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ـ اگر ہم چاہیں تو تجھے اور ان کو دکھا دیں اور تو ان کی علامات اور چہروں سے انہیں پہچان لے ۔ یقینا تو انہیں انکی باتوں کے لب و لہجے سے جان لے گا ۔ غرض ان دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہ سمجھنا چاہیے ۔ نشانیوں سے پہچان لینا اور بات ہے اور اللہ کی طرف کا قطعی علم کہ فلاں فلاں منافق ہے اور چیز ہے پس بعض منافق لوگوں کی منافقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کھل گئی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام منافقوں کو جاننا ممکن نہیں تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف انتا جانتے تھے کہ مدینے میں بعض منافق ہیں ۔ صبح وشام وہ دربار رسالت میں حاضر رہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں کے سامنے تھے ۔ اس قول کی صحت مسند احمد کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مکے کا ہمارا کوئی اجر نہیں ۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس تمہارے اجر آہی جائیں گے گو تم لومڑی کے بھٹ میں ہو ۔ پھر آپ نے ان کے کان سے اپنا منہ لگا کر فرمایا کہ میرے ان ساتھیوں میں بھی منافق ہیں ۔ پس مطلب یہ ہوا کہ بعض منافق غلط سلط باتیں بک دیا کرتے ہیں ، یہ بھی ایسی ہی بات ہے ۔ ( وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا ۚ وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ فَاِنْ يَّتُوْبُوْا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاِنْ يَّتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْاَرْضِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ 74؀ ) 9- التوبہ:74 ) کی تفسیر میں ہم کہہ آئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بارہ یا پندرہ منافقوں کے نام بتائے تھے ۔ پس اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک ایک کر کے تمام منافقوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا ۔ نہیں بلکہ چند مخصوص لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم کرا دیا تھا واللہ اعلم ۔ ابن عساکر میں ہے کہ حرملہ نامی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ایمان تو یہاں ہے اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا ۔ اور نفاق یہاں ہے اور ہاتھ سے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا اور نہیں ذکر کیا اللہ کامگر تھوڑا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ اسے ذکر کرنے والی زبان ، شکر کرنے والا دل دے اور اسے میری اور مجھ سے محبت رکھنے والوں کی محبت عنایت فرما اور اس کے کام کا انجام بخیر کر ۔ اب تو وہ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھی اور بھی ہیں جن کا میں سردار تھا ، وہ سب بھی منافق ہیں اگر اجازت ہو تو انہیں بھی لے آؤں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو جو ہمارے پاس آئے گا ہم اسکے لئے استغفار کریں گے اور جو اپنے دین ( نفاق ) پر اڑا رہے گا اللہ ہی اس کے ساتھ اولیٰ ہے ۔ تم کسی کی پردہ دری نہ کروـ ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ تکلف سے اوروں کا حال بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ فلاں جنتی ہے اور فلاں دوزخی ہے ۔ اس سے خود اس کی حالت پوچھو تو یہی کہے گا کہ میں نہیں جانتا ۔ حالانکہ انسان اپنی حالت سے بہ نسبت اوروں کی حالت کے زیادہ عالم ہوتا ہے ۔ یہ لوگ وہ تکلف کرتے ہیں جو نکلف انبیاء علیہم السلام نے بھی نہیں کیا ۔ نبی اللہ حضرت نوح علیہ السلام کا قول ہے وما علمی بماکانا یعملون ان کے اعمال کامجھے علم نہیں ۔ نبی اللہ حضرت شعیب علیہ السلام فرماتے ہیں ( وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ ١٠٤؁ ) 6- الانعام:104 ) میں تم پر کوئی نگہبان نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ( لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ ١٠١؀ۚ ) 9- التوبہ:101 ) تو انہیں نہیں جانتا ہم ہی جانتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے فرمایا اے فلاں تو نکل جا تو منافق ہے اور اے فلاں تو بھی یہاں سے چلا جا تو منافق ہے ۔ پس بہت سے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے چلے جانے کا حکم فرمایا ۔ ان کا نفاق مسلمانوں پر کھل گیا یہ پورے رسوا ہوئے ۔ یہ تو مسجد سے نکل کر جا رہے تھے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آ رہے تھے ۔ آپ ان سے ذرا کترا گئے یہ سمجھ کر کہ شاید نماز ہو چکی اور یہ لوگ فارغ ہو کر جا رہے ہیں اور میں غیر حاضر رہ گیا ۔ اور وہ لوگ بھی آپ سے شرمائے یہ سمجھ کر کہ ان پر بھی ہمارا حال کھل گیا ہو گا ۔ اب مسجد میں آکر دیکھا کہ ابھی نماز تو ہوئی نہیں ۔ تو ایک شخص نے آپ کو کہا لیجئے خوش ہو جائیے ۔ آج اللہ نے منافقوں کو خوب شرمندہ و رسوا کیا ۔ یہ تو تھا پہلا عذاب جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد سے نکلوا دیا ۔ اور دوسرا عذاب عذاب قبر ہے ۔ دو مرتبہ کے عذاب سے مجاہد کی نزدیک مراد قتل و قید ہے ۔ اور روایت میں بھوک اور قبر کا عذاب ہے ۔ ابن جریج فرماتے ہیں عذاب دنیا اور عذاب قبر مراد ہے ۔ عبدالرحمن بن زید فرماتے ہیں دنیا کا عذاب تو مال واولاد ہے ۔ جیسے قرآن میں ہے ( فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ 55؀ ) 9- التوبہ:55 ) یعنی تجھے انکامال اور انکی اولادیں اچھی نہ لگنی چاہیں اللہ کا ارادہ تو ان کی وجہ سے انہیں دنیا میں عذاب دینا ہے ۔ پس یہ مصیبتیں ان کے لئے عذاب ہیں ہاں مومنوں کے لئے اجر و ثواب ہیں ۔ اور دوسرا عذاب جہنم کا آخرت کے دن ہے ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں پہلا عذاب تو یہ کہ اسلام کے احکام بظاہر ماننے پڑے ، اسکے مطابق عمل کرنا پڑا جو دلی منشا کے خلاف ہے ۔ دوسرا عذاب قبر کا ۔ پھر ان دونوں کے سوا دائمی جہنم کا عذاب ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ عذاب دنیا اور عذاب قبر پر عذاب عظیم کی طرف لوٹایا جانا ہے ۔ مذکور ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ طور پر بارہ منافقوں کے نام بتائے تھے ۔ اور فرمایا تھا کہ ان میں سے چھ کو دبیلہ کافی ہوگا جو جہنم کی آگ کا انگارا ہوگا ۔ جوان کے شانے پر ظاہر ہو گا اور سینے تک پہنچ جائے گا ۔ اور چھ بری موت مریں گے ۔ یہی وجہ تھی کہ جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دیکھتے کہ کوئی ایسا ویسا داغدار شخص مرا ہے تو انتظار کرتے کہ اس کے جنازے کی نماز حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پڑھتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ پڑھتے تو آپ بھی پڑھتے ورنہ نہ پڑھتے ۔ مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا میں بھی ان میں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا نہیں آپ ان منافقوں میں نہیں ۔ اور آپ کے بعد مجھے اس سے کسی پر بےخوفی نہیں ۔