Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَقُلِ اعۡمَلُوۡا فَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمۡ وَرَسُوۡلُهٗ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ‌ؕ وَسَتُرَدُّوۡنَ اِلٰى عٰلِمِ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿105﴾
کہہ دیجئے کہ تم عمل کئے جاؤ تمہارے عمل اللہ خود دیکھ لے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے ( بھی دیکھ لیں گے ) اور ضرور تم کو ایسے کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے والا ہے ۔ سو وہ تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلا دے گا ۔
و قل اعملوا فسيرى الله عملكم و رسوله و المؤمنون و ستردون الى علم الغيب و الشهادة فينبكم بما كنتم تعملون
And say, "Do [as you will], for Allah will see your deeds, and [so, will] His Messenger and the believers. And you will be returned to the Knower of the unseen and the witnessed, and He will inform you of what you used to do."
Keh dijiye kay tum amal kiye jao tumharay amal Allah khud dekh ley ga aur uss ka rasool aur eman walay ( bhi dekh len gay ) aur zaroor tum ko aisay kay pass jana hai jo tamam chupi aur khuli cheezon ka jannay wala hai. So woh tum ko tumhara sab kiya hua batla dey ga.
اور ( ان سے ) کہو کہ : تم عمل کرتے رہو ۔ اب اللہ بھی تمہارا طرز عمل دیکھے گا ، اور اس کا رسول بھی اور مومن لوگ بھی ۔ پھر تمہیں لوٹا کر اس ذات کے سامنے پیش کیا جائے گا ، جس کو چھپی اور کھلی تمام باتوں کا پورا علم ہے ، پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو ۔ ( ٨٠ )
اور تم فرماؤ کام کرو اب تمہارے کام دیکھے گا اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان ، اور جلد اس کی طرف پلٹوگے جو چھپا اور کھلا سب جانتا ہے تو وہ تمہارے کام تمہیں جتاوے گا ،
اور اے نبی ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کرو ، اللہ اور اس کا رسول اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرزِ عمل اب کیا رہتا ہے ۔ 99 پھر تم اس کی طرف پلٹائے جاؤ گے جو کھلے اور چھپے سب کو جانتا ہے اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ۔ 100
اور فرما دیجئے: تم عمل کرو ، سو عنقریب تمہارے عمل کو اﷲ ( بھی ) دیکھ لے گا اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ) اور اہلِ ایمان ( بھی ) ، اور تم عنقریب ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے ( رب ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے ، سو وہ تمہیں ان اعمال سے خبردار فرما دے گا جو تم کرتے رہتے تھے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :99 یہاں جھوٹے مدعی امان اور گنہگار مومن کا فرق صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے ۔ جو شخص ایمان کا دعوی کرتا ہے مگر فی الواقع خدا اور اس کے دین اور مومنین کی جماعت کے ساتھ کوئی خلوص نہیں رکھتا اس کے عدم اخلاص کا ثبوت اگر اس کے طرز عمل سے مل جائے تو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے گا ۔ خدا کی راہ میں صرف کرنے کے لیے وہ کوئی مال پیش کرے تو اسے رد کر دیا جائے گا ۔ مر جائے تو نہ مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور نہ کوئی مومن اس کے لیے دعائے مغفرت کرے گا چاہے وہ اس کا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو ۔ بخلاف اس کے جو شخص مومن ہو اور اس سے کوئی غیر مخلصانہ طرز عمل سرزد ہو جائے وہ اگر اپنے قصور کا اعتراف کر لے تو اس کو معاف بھی کیا جائے گا ، اس کے صدقات بھی قبول کیے جائیں گے اور اس کے لیے دعائے رحمت بھی کی جائے گی ۔ اب رہی یہ بات کہ کس شخص کو غیر مخلصانہ طرز عمل کے صدور کے باوجود منافق کے بجائے محض گناہگار مومن سمجھا جائے گا ، تو یہ تین معیاروں سے پرکھی جائے گی جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے: ( ۱ ) وہ اپنے قصور کے لیے عذرات لنگ اور تاویلات و توجیہات پیش نہیں کرے گا ، بلکہ جو قصور ہوا ہے اسے سیدھی طرح صاف صاف مان لے گا ۔ ( ۲ ) اس کے سابق طرز عمل پر نگاہ ڈال کر دیکھا جائے گا کہ یہ عدم اخلاص کا عادی مجرم تو نہیں ہے ۔ اگر پہلے وہ جماعت کا ایک صالح فرد رہا ہے اور اس کے کارنامہ زندگی میں مخلصانہ خدمات ، ایثار و قربانی ، اور سبقت الی الخیرات کا ریکارڈ موجود ہے تو باور کر لیا جائے گا کہ اس وقت جو قصور اس سے سرزد ہوا ہے وہ ایمان و اخلاص کے عدم کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض ایک کمزوری ہے جو وقتی طور پر رونما ہوگئی ہے ۔ ( ۳ ) اس کے آئندہ طرز عمل پر نگاہ رکھی جائے گی کہ آیا اس کا اعتراف قصور محض زبانی ہے یا فی الواقع اس کے اندر کوئی گہرا احساس ندامت موجود ہے ۔ اگر وہ اپنے قصور کی تلافی کے لیے بے تاب نظر آئے اور اس کی بات بات سے ظاہر ہو کہ جس نقص ایمانی کا نقش اس کی زندگی میں ابھر آیا تھا اسے مٹانے اور اس کا تدارک کرنے کی وہ سخت کوشش کر رہا ہے ، تو سمجھا جائے گا کہ وہ حقیقت میں نادم ہے اور یہ ندامت ہی اس کے ایمان و اخلاص کی دلیل ہوگی ۔ محدثین نے ان آیات کی شان نزول میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے یہ مضمون آئینہ کی طرح روشن ہو جاتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات ابو لبابہ بن عبد المنذر اور ان کے چھ ساتھیوں کے معاملہ میں نازل ہوئی تھیں ۔ ابو لبابہ ان لوگوں میں سے تھے جو بیعت عقبہ کے موقع پر ہجرت سے پہلے اسلام لائے تھے ۔ پھر جنگ بدر ، جنگ احد اور دوسرے معرکوں میں برابر شریک رہے ۔ مگر غزوہ تبوک کے موقع پر نفس کی کمزوری نے غلبہ کیا اور یہ کسی عذر شرعی کے بغیر بیٹھے رہ گئے ۔ ایسے ہی مخلص ان کے دوسرے ساتھی بھی تھے اور ان سے بھی یہ کمزوری سرزد ہو گئی ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے اور ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق اللہ اور رسول کی کیا رائے ہے تو انہیں سخت ندامت ہوئی ۔ قبل اس کے کوئی باز پرس ہوتی انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ لیا اور کہا کہ ہم پر خواب و خور حرام ہے جب تک ہم معاف نہ کر دیے جائیں ، یا پھر ہم مرجائیں ۔ چنانچہ کئی روز وہ اسی طرح بے آب و دانہ اور بے خواب بندھے رہے حتیٰ کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ آخر کار جب انہیں بتایا گیا کہ اللہ اور رسول نے تمہیں معاف کر دیا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہماری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ جس گھر کی آسائش نے ہمیں فرض سے غافل کیا اسے اور اپنے تمام مال کو خدا کی راہ میں دے دیں گے ۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارا مال دینے کی ضرورت نہیں ، صرف ایک تہائی کافی ہے ، چنانچہ وہ انہوں نے اسی وقت فی سبیل اللہ وقف کر دیا ۔ اس قصہ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ خدا کے ہاں معافی کس قسم کی کمزوریوں کے لیے ہے ۔ یہ سب حضرات عادی غیر مخلص نہ تھے بلکہ ان کا پچھلا کارنامہ زندگی ان کے اخلاص ایمانی پر دلیل تھا ۔ ان میں سے کسی نے عذرات نہیں تراشے بلکہ اپنے قصور کو خود ہی قصور مان لیا ۔ انہوں نے اعتراف قصور کے ساتھ اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی نہایت نادم اور اپنے اس گناہ کی تلافی کے لیے سخت بے چین ہیں ۔ اس سلسلہ میں ایک اور مفید نکتے پر بھی نگاہ رہنی چاہیے جو ان آیات میں ارشاد ہوا ہے ۔ وہ یہ کہ گناہوں کی تلافی کے لیے زبان اور قلب کی تو بہ کے ساتھ ساتھ عملی توبہ بھی ہونی چاہیے ، اور عملی توبہ کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں مال خیرات کرے ۔ اس طرح وہ گندگی جو نفس میں پرورش پا رہی تھی اور جس کی بدولت آدمی سے گناہ کا صدور ہوا تھا ، دور ہو جاتی ہے اور خیر کی طرف پلٹنے کی استعداد بڑھتی ہے ۔ گناہ کرنے کے بعد اس کا اعتراف کرنا ایسا ہے جیسے ایک آدمی جو گڑھے میں گر گیا تھا ، اپنے گرنے کو خود محسوس کر لے ۔ پھر اس کا اپنے گناہ پر شرمسار ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس گڑھے کو اپنے لیے نہایت بری جائے قرار سمجھتا ہے اور اپنی اسی حالت سے سخت تکلیف میں ہے ۔ پھر اس کا صدقہ و خیرات اور دوسری نیکیوں سے اس کی تلافی کی سعی کرنا گویا گڑھے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :100 مطلب یہ ہے کہ آخر کار معاملہ اس خدا کے ساتھ ہے جس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی ۔ اس لیے بالفرض اگر کوئی شخص دنیا میں اپنے نفاق کو چھپانے میں کامیاب ہو جائے اور انسان جن جن معیاروں پر کسی کے ایمان و اخلاص کو پرکھ سکتے ہیں ان سب پر بھی پورا اتر جائے تو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ نفاق کی سزا پانے سے بچ نکلا ہے ۔
اپنے اعمال سے ہوشیار رہو ۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے کہ ان کے اعمال اللہ کے سامنے ہیں ۔ اور اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کے سامنے قیامت کے دن کھلنے والے ہیں ۔ چھوٹے سے چھوٹا اور پوشیدہ سے پوشیدہ عمل بھی اس دن سب پر ظاہر ہو جائے گا ۔ تمام اسرار کھل جائیں گے دلوں کے بھید ظاہر ہو جائیں گے ۔ اور یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں پر بھی ان کے اعمال دنیا میں ہی ظاہر کر دیتا ہے ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر تم میں سے کوئی کسی ٹھوس پتھر میں گھس کر جس کا نہ دروازہ ہو ، نہ اس میں کوئی سوراخ ہو ، کوئی عمل کرے اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گاخواہ کیسا ہی عمل ہو ۔ ابو داؤد طیالسی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زندوں کے اعمال ان کے قبیلوں اور برادریوں پر پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ اچھے ہوتے ہیں تو وہ لوگ اپنی قبروں میں خوش ہوتے ہیں اور اگر وہ برے ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یا اللہ انہیں توفیق دے کہ یہ تیرے فرمان پر عامل بن جائیں ۔ مسند احمد میں بھی یہی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تمہارے اعمال تمہارے خویش و اقارب مردوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ نیک ہوتے ہیں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر اسکے سوا ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یا اللہ انہیں موت نہ آئے جب تک کہ تو انہیں ہدایت عطا نہ فرما جیسے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی ( لیکن ان روایتوں کی سندیں قابل غور ہیں ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب تجھے کسی شخص کے نیک اعمال بہت اچھے لگیں تو تو کہہ دے کہ اچھا ہے عمل کئے چلے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مومن تمہارے اعمال عنقریب دیکھ لیں گے ۔ ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کی آئی ہے اس میں ہے کسی کے اعمال پر خوش نہ ہو جاؤ جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ اس کا خاتمہ کس پر ہوتا ہے؟ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک زمانہ دراز تک نیک عمل کرتا رہتا ہے کہ اگر وہ اس وقت مرتا تو قطعاً جنتی ہو جاتا ۔ لیکن پھر اس کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ بداعمالیوں میں پھنس جاتا ہے ۔ اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک لمبی مدت تک برائیاں کرتا رہتا ہے کہ اگر اسی حالت میں مرے تو جہنم میں ہی جائے لیکن پھر اس کا حال بدل جاتا ہے اور نیک عمل شروع کر دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے ساتھ بھلا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کی موت سے پہلے عامل بنا دیتا ہے ۔ لوگوں نے کہا ہم اس کا مطلب نہیں سمجھے آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اسے توفیق خیر عطا فرماتا ہے اور اس پر اسے موت آتی ہے ۔