Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَاٰخَرُوۡنَ مُرۡجَوۡنَ لِاَمۡرِ اللّٰهِ اِمَّا يُعَذِّبُهُمۡ وَاِمَّا يَتُوۡبُ عَلَيۡهِمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿106﴾
اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہے ان کو سزا دے گا یا ان کی توبہ قبول کر لے گا ، اور اللہ خوب جاننے والا بڑا حکمت والا ہے ۔
و اخرون مرجون لامر الله اما يعذبهم و اما يتوب عليهم و الله عليم حكيم
And [there are] others deferred until the command of Allah - whether He will punish them or whether He will forgive them. And Allah is Knowing and Wise.
Aur kuch aur log hain jin ka moamla Allah kay hukum aaney tak mulatawee hai unn ko saza dey ga ya unn ki toba qabool ker ley ga aur Allah khoob jannay wala hai bara hikmata wala hai.
اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا فیصلہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی کردیا گیا ہے ، یا اللہ ان کو سزا دے گا ، یا معاف کردے گا ، ( ٨١ ) اور اللہ کامل علم والا بھی ہے ، کامل حکمت والا بھی ۔
اور کچھ ( ف۲٤۰ ) موقوف رکھے گئے اللہ کے حکم پر ، یا ان پر عذاب کرے یا ان کی توبہ قبول کرے ( ف۲٤۱ ) اور اللہ علم و حکمت والا ہے ،
کچھ دوسرے لوگ ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے حکم پر ٹھہرا ہوا ہے ، چاہے انہیں سزا دے اور چاہے ان پر از سرِ نو مہربان ہو جائے ۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے ۔ 101
اور کچھ دوسرے ( بھی ) ہیں جو اللہ کے ( آئندہ ) حکم کے لئے مؤخر رکھے گئے ہیں وہ یا تو انہیں عذاب دے گا یا ان کی توبہ قبول فرمالے گا ، اور اﷲ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :101 یہ لوگ ایسے تھے جن کا معاملہ مشکوک تھا ۔ نہ ان کے منافق ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا نہ گناہگار مومن ہونے کا ان دونوں چیزوں کی علامات ابھی پوری طرح نہ ابھری تھیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملہ کو ملتوی رکھا ۔ نہ اس معنی میں کہ فی الواقع خدا کے سامنے معاملہ مشکوک تھا ، بلکہ اس معنی میں کہ مسلمانوں کو کسی شخص یا گروہ کے معاملہ میں اپنا طرز عمل اس وقت تک متعین نہ کرنا چاہیے کہ جب تک اس کی پوزیشن ایسی علامات سے واضح نہ ہو جائے جو علم غیب سے نہیں بلکہ حس اور عقل سے جانچی جا سکتی ہوں ۔
اس سے مراد وہ تین بزرگ صحابہ ہیں جن کی توبہ ڈھیل میں پڑ گئی تھی ۔ حضرت مرارہ بن ربیع ، حضرت کعب بن مالک ، حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہم ۔ یہ جنگ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے ۔ شک اور نفاق کے طور پر نہیں بلکہ سستی ، راحت طلبی ، پھلوں کی پختگی سائے کے حصول وغیرہ کے لئے ۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو اپنے تیئں مسجد کے ستونوں سے باندھ لیا تھا جیسے حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ۔ اور کچھ لوگوں نے ایسا نہیں کیا تھا ان میں یہ تینوں بزرگ تھے ۔ پس اوروں کی تو توبہ قبول ہو گئی اور ان تینوں کا کام پیچھے ڈال دیا گیا یہاں تک کہ ( لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ١١٧؀ۙ ) 9- التوبہ:117 ) نازل ہوئی جو اس کے بعد آ رہی ہے ۔ اور اس کا پورا بیان بھی حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں آ رہا ہے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ وہ اللہ کے ارادے پر ہیں اگر چاہیں سزا دے اگر چاہیں معافی دے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ سزا کے لائق کون ہے ۔ اور مستحق معافی کون ہے؟ وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے ۔ اس کے سوا نہ تو کوئی معبود نہ اس کے سوا کوئی مربی ۔