Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَالَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسۡجِدًا ضِرَارًا وَّكُفۡرًا وَّتَفۡرِيۡقًۢا بَيۡنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاِرۡصَادًا لِّمَنۡ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ مِنۡ قَبۡلُ‌ؕ وَلَيَحۡلِفُنَّ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّا الۡحُسۡنٰى‌ؕ وَاللّٰهُ يَشۡهَدُ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿107﴾
اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے ان اغراض کے لئے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس سے پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے اور قسمیں کھائیں گے کہ بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں ، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں ۔
و الذين اتخذوا مسجدا ضرارا و كفرا و تفريقا بين المؤمنين و ارصادا لمن حارب الله و رسوله من قبل و ليحلفن ان اردنا الا الحسنى و الله يشهد انهم لكذبون
And [there are] those [hypocrites] who took for themselves a mosque for causing harm and disbelief and division among the believers and as a station for whoever had warred against Allah and His Messenger before. And they will surely swear, "We intended only the best." And Allah testifies that indeed they are liars.
Aur baaz aisay hain jinhon ney inn aghraaz kay liye masjid banaee hai kay zarrar phonchayen aur kufur ki baaten keren aur eman daron mein tafreeq dalen aur uss shaks kay qayam ka saman keren jo iss say pehlay say Allah aur rasool ka mukhalif hai aur qasmen kha jayen gay kay ba-juz bhalaee kay aur humari kuch neeyat nahi aur Allah gawah hai kay woh bilkul jhootay hain.
اور کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد اس کام کے لیے بنائی ہے کہ ( مسلمانوں کو ) نقصان پہنچائیں ، کافرانہ باتیں کریں ، مومنوں میں پھوٹ ڈالیں اور اس شخص کو ایک اڈہ فراہم کریں جس کی پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ ہے ۔ ( ٨٢ ) اور یہ قسمیں ضرور کھا لیں گے کہ بھلائی کے سوا ہماری کوئی اور نیت نہیں ہے ، لیکن اللہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ قطعی جھوٹے ہیں ۔
اور وہ جنہوں نے مسجد بنائی ( ف۲٤۲ ) نقصان پہنچانے کو ( ف۲٤۳ ) اور کفر کے سبب ( ف۲٤٤ ) اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو ( ف۲٤۵ ) اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کا مخالف ہے ( ف۲٤٦ ) اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے ہم نے تو بھلائی چاہی ، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیں ،
کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی اس غرض کے لیے کہ ﴿دعوتِ حق کو﴾ نقصان پہنچائیں ، اور ﴿خدا کی بندگی کرنے کے بجائے﴾ کفر کریں ، اور اہل ایمان میں پھوٹ ڈالیں ، اور ﴿اس بظاہر عبادت گاہ کو﴾ اس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا اور اس کے رسول کے خلاف بر سرِپیکار ہوچکا ہے ۔ وہ ضرور قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی کے سوا دوسری چیز کا نہ تھا ۔ مگر اللہ گواہ ہے وہ قطعی جھوٹے ہیں ۔
اور ( منافقین میں سے وہ بھی ہیں ) جنہوں نے ایک مسجد تیار کی ہے ( مسلمانوں کو ) نقصان پہنچانے اور کفر ( کو تقویت دینے ) اور اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور اس شخص کی گھات کی جگہ بنانے کی غرض سے جو اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے پہلے ہی سے جنگ کر رہا ہے ، اور وہ ضرور قَسمیں کھائیں گے کہ ہم نے ( اس مسجد کے بنانے سے ) سوائے بھلائی کے اور کوئی ارادہ نہیں کیا ، اور اﷲ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں
ایک قصہ ایک عبرت ، مسجد ضرار ۔ ان پاک آیتوں کا سبب نزول سنئے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے شریف سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے ۔ اس سے پہلے مدینے میں ایک شخص تھا جس کا نام ابو عامر راہب تھا ۔ یہ خزرج کے قبیلے میں سے تھا ۔ جاہلیت کے زمانے میں نصرانی بن گیا تھا ، اہل کتاب کا علم بھی پڑھا تھا ۔ عابد بھی تھا اور قبیلہ خزرج اس کی بزرگی کا قائل تھا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہاں آئے ، مسلمانوں کا اجتماع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہونے لگا ۔ یہ قوت پکڑنے لگے یہاں تک کہ بدر کی لڑائی ہوئی اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں غالب رکھا تو یہ جل بھن گیا ۔ کھلم کھلا مخالفت و عداوت کرنے لگا اور یہاں سے بھاگ کر کفار مکہ سے مل گیا ۔ اور انہیں مسلمانوں سے لڑائی کرنے پر آمادہ کرنے لگا ۔ یہ تو عداوت اسلام میں پاگل ہو رہے تھے ، تیار ہوگئے اور اپنے ساتھ عرب کے اور بھی بہت سے قبائل کو ملا کر جنگ کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے اور میدان احد میں جم کر لڑے ۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کا جو حال ہوا وہ ظاہر ہے ۔ انکا پورا امتحان ہو گیا ۔ گو انجام کار مسلمانوں کا ہی بھلا ہوا اور عاقبت اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ہی ہے ۔ اسی فاسق نے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان بہت سے گڑھے کھود رکھے تھے ، جن میں سے ایک میں اللہ کے رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے ، چہرے پر زخم آئے ۔ سامنے سے نیچے کی طرف کے چار دانت ٹوٹ گئے ۔ سر بھی زخمی ہوا ۔ صلوات اللہ وسلمہ علیہ ۔ شروع لڑائی کے وقت ہی ابو عامر فاسق اپنے قوم کے پاس گیا اور بہت ہی خوشامد اور چاپلوسی کی کہ تم میری مدد اور موافقت کرو ۔ لیکن انہوں نے بالاتفاق جواب دیا کہ اللہ تیری آنکھیں ٹھنڈی نہ کرے تو نامراد ہے ۔ اے بدکار اے اللہ کے دشمن تو ہمیں راہ حق سے بہکانے کو آیا ہے ، الغرض برا بھلا کہہ کر ناامید کر دیا گیا ۔ یہ لوٹا اور یہ کہتا ہوا کہ میری قوم تو میرے بعد بہت ہی شریر ہو گئی ہے ۔ مدینے میں اس ناہنجار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سمجھایا تھا قرآن پڑھ پڑھ کر نصیحت کی تھی اور اسلام کی رغبت دلائی تھی لیکن اس نے نہ مانا تھا ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے لئے بد دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے کہیں دور دراز ذلت و حقارت کے ساتھ موت دے ۔ جب اس نے دیکھا کہ احد میں بھی اس کی چاہت پوری نہ ہوئی اور اسلام کا کلمہ بلندی پر ہی ہے تو یہ یہاں سے شاہ روم ہرقل کے پاس پہنچا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کے لئے آمادہ کیا ۔ اس نے بھی اس سے وعدہ کر لیا اور تمنائیں دلائیں ۔ اس وقت اس نے اپنے ہم خیال لوگوں کو جو منافقانہ رنگ میں مدینے شریف میں رہتے سہتے تھے اور جن کے دل اب تک شک و شبہ میں تھے لکھا کہ اب میں مسلمانوں کی جڑیں کاٹ دونگا ، میں نے ہرقل کو آمادہ کر دیا ہے وہ لشکر جرار لے کر چڑھائی کرنے والا ہے ۔ مسلمانوں کو ناک چنے جبوا دے گا اور ان کا بیج بھی باقی نہ رکھے گا ۔ تم ایک مکان مسجد کے نام سے تعمیر کرو تاکہ میرے قاصد جو آئیں وہ وہیں ٹھہریں ، وہیں مشورے ہوں اور ہمارے لئے وہ پناہ کی اور گھاٹ لگانے کی محفوظ جگہ بن جائے ۔ انہوں نے مسجد قبا کے پاس ہی ایک اور مسجد کی تعمیر شروع کر دی اور تبوک کی لڑائی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی سے پہلے ہی اسے خوب مضبوط اور پختہ بنا لیا اور آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مسجد میں تشریف لائیے اور نماز ادا کیجئے تاکہ ہمارے لئے یہ بات حجت ہو جائے اور ہم وہاں نماز شروع کر دیں ۔ ضعیف اور کمزور لوگوں کو دور جانے میں بڑی تکلیف ہوتی تھی ۔ خصوصاً جاڑے کی راتوں میں کمزور ، بیمار اور معذور لوگ دور دراز کی مسجد میں بڑی دقت سے پہنچتے ہیں اس لئے ہم نے قریب ہی یہ مسجد بنا لی ہے ۔ آپ نے فرمایا اس وقت تو سفر درپیش ہے پا بہ رکاب ہوں انشاء اللہ واپسی میں سہی ۔ اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس کفر کے مورچے سے بچا لیا ۔ جب میدان تبوک سے آپ سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے ، ابھی مدینے شریف سے ایک دن یا کچھ کم کے فاصلے پر تھے کہ اللہ کی وحی نازل ہوئی اور اس مسجد ضرار کی حقیقت آپ پر ظاہر کر دی گئی ۔ اور اس کے بانیوں کی نیت کا بھی علم آپ کو کرا دیا گیا ۔ اور وہاں کی نماز سے روک کر مسجد قبا میں جس کی بنیاد اللہ کے خوف پر رکھی گئی تھی ، نماز پڑھنے کا حکم صادر ہوا ۔ پس آپ نے وہیں سے مسلمانوں کو بھیج دیا کہ جاؤ میرے پہنچنے سے پہلے اس مسجد کو توڑ دو ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ابو عامر خبیث ان انصاریوں سے کہہ گیا تھا کہ تم مسجد کے نام سے عمارت بنا لو اور جو تم سے ہو سکے تیاری رکھو ، ہتھیار وغیرہ مہیا کر لو ، میں شاہ روم قیصر کے پاس جا رہا ہوں اور اس سے مدد لے کر محمد اور اس کے ساتھیوں کو یہاں سے نکال دوں گا ۔ پس یہ لوگ جب یہ مسجد تیار کر چکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہماری چاہت ہے کہ آپ ہماری اس مسجد میں تشریف لائیں ، وہاں نماز پڑھیں اور ہمارے لئے برکت کی دعا کریں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ اس مسجد میں ہرگز کھڑے بھی نہ ہونا ۔ اور روایت میں ہے کہ جب آپ ذی اور اوان میں اترے اور مسجد کی اطلاع ملی آپ نے مالک بن و خشم رضی اللہ عنہ اور معن بن یزید رضی اللہ عنہ کو بلایا ، ان کے بھائی عمر بن عدی کو بلوایا اور حکم دیا کہ ان ظالموں کی مسجد میں جاؤ اور اسے گرا دو بلکہ جلا دو ۔ یہ دونوں بزرگ تابڑ توڑ جلدی جلدی چلے ۔ سالم بن عوف کے محلے میں جا کر حضرت مالک نے حضرت معن سے فرمایا آپ یہیں ٹھہرئیے ، یہ میرے قبیلے کے لوگوں کے مکان ہیں یہاں سے آگ لاتا ہوں ۔ چنانچہ گئے اور ایک کھجور کا سلگتا ہوا تنا لے آئے اور سیدھے اس مسجد ضرار میں پہنچ کر اس میں آگ لگا دی اور کدال چلانی شروع کر دی ۔ وہاں جو لوگ تھے ادھر ادھر بھاگ گئے اور ان بزرگوں نے اس عمارت کو جڑ سے کھود ڈالا ۔ پس اس بارے میں یہ آیتیں اتری ہیں ۔ اس کے بانی بارہ شخص تھے ۔ خدام بن خالد بنو عبد بن زید میں سے جو بنی عمرو بن عوف میں سے ہیں اسی کے گھر میں سے مسجد شقاق نکلی تھی ۔ اور ثعلبہ بن حاطب جو بنی عبید میں سے تھا اور بنو امیہ کے موالی جو ابو لبابہ بن عبدالمنذر کے قبیلے میں سے تھے ۔ قرآن فرماتا ہے کہ یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہماری نیت نیک تھی ۔ لوگوں کے آرام کی غرض سے ہم نے اسے بنایا ہے ۔ لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے مسجد قبا کو ضرر پہنچانے اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور مومنوں میں جدائی ڈالنے اور اللہ و رسول کے دشمنوں کو پناہ دینے کے لئے اسے بنایا ہے ۔ یہ کمین گاہ ہے ابو عامر فاسق کی جو لوگوں میں راہب مشہور ہے ۔ اللہ کی لعنتیں اس پر نازل ہوں ۔ فرمان ہے کہ تو ہرگز اس مسجد میں نہ کھڑا ہونا ۔ اس فرمان میں آپ کی امت بھی داخل ہے ۔ انہیں بھی اس مسجد میں نماز پڑھنی حرام قرار دی گئی ۔ پھر رغبت دلائی جاتی ہے کہ مسجد قبا میں نماز ادا کرو ۔ جس کی بنیاد اللہ کے ڈر پر اور رسول کی اطاعت پر رکھی گئی ہے اور مسلمانوں کے اتفاق پر اور ان کی خیر خواہی پر بنائی گئی ہے ۔ اسی مسجد میں تمہارا نمازیں پڑھنا درست اور حق بجانب ہے چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار اور پیدل اس مسجد میں آیا کرتے تھے ۔ اور حدیث میں ہے کہ جب آپ ہجرت کر کے مدینے شریف پہنچے اور بنی عمر بن عوف میں ٹھہرے اور اس پاک مسجد کی بنیاد رکھی اس وقت خود حضرت جبرائیل علیہ السلام نے قبلہ کی جہت معین کی تھی ۔ واللہ اعلم ۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ( آیت فیہ رجال ) مسجد قبا والوں کے بارے میں اتری ہے ، وہ پانی سے استنجاء کیا کرتے تھے ۔ یہ مسجد ضعیف ہے ۔ امام ترمذی اسے غریب بتلاتے ہیں ۔ طبرانی میں ہے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے عویم بن ساعدہ کے پاس آدمی بھیج کر دریافت فرمایا کہ آخر یہ کون سے طہارت ہے جس کی ثناء اللہ رب العزت بیان فرما رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم میں سے جو مرد عورت پاخانے سے نکلتا ہے وہ پانی سے استنجاء کیا کرتا ہے ۔ اس نے فرمایا بس یہی وہ طہارت ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس مسجد قبا میں تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہاری مسجد کے بیان میں تمہاری طہارت کی آج تعریف کی ہے تو بتلاؤ کہ تمہاری وہ طہارت کیسے ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اور تو کچھ معلوم نہیں ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہم نے اپنے پڑوسی یہودیوں کی نسبت جب سے یہ معلوم کیا کہ وہ پاخانے سے نکل کر پانی سے پاکی کرتے ہیں ، ہم نے اس وقت سے اپنا یہی وطیرہ بنا لیا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یہ سوال حضرت عویم بن عدی رضی اللہ عنہ سے کیا تھا ۔ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ پانی سے طہارت کرنا ہی وہ پاکیزگی تھی جس کی تعریف اللہ عزوجل نے کی ۔ اور روایت میں ان کے جواب میں ہے کہ ہم توراۃ کے حکم کی رو سے پانی سے استنجاء کرنا لازمی سمجھتے ہیں ۔ الغرض جس مسجد کا اس آیت میں ذکر ہے وہ مسجد قبا ہے ۔ اس کی تصریح بہت سے سلف صالحین نے کی ہے ۔ لیکن ایک صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ تقوے پر بننے والی مسجد مسجد نبوی ہے جو مدینے شریف کے درمیان ہے ۔ غرض ان دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں جب کہ مسجد قبا شروع دن سے تقوے کی بنیادوں پر ہے تو مسجد نبوی اس وصف کی اس سے بھی زیادہ مستحق ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ جو مسجد اللہ کے ڈر پر بنائی گئی ہے وہ یہ میری مسجد ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ دو شخصوں میں اس بارے میں اختلاف ہوا کہ اس آیت میں کونسی مسجد مراد ہے ، حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ میری یہ مسجد ہے ۔ ان دونوں میں سے ایک کا قول تھا کہ یہ مسجد مسجد قبا ہے اور دوسرے کا قول تھا کہ یہ مسجد مسجد نبوی ہے ۔ یہ حدیث ترمذی نسائی وغیرہ میں ہے ۔ ان دونوں شخصوں میں سے ایک تو بنو خدرہ قبیلے کا تھا اور دوسرا بنو عمرو بن عوف میں سے تھا ۔ خدری کا دعویٰ تھا کہ یہ مسجد نبوی ہے اور عمری کہتا تھا مسجد قبا ہے ۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر جا کر دریافت فرماتے ہیں کہ وہ مسجد کہاں ہے جس کی بنیادیں شروع سے ہی پرہیز گاری پر ہیں؟ آپ نے کچھ کنکر اٹھا کر انہیں زمین پر پھینک کر فرمایا وہ تمہاری یہی مسجد ہے ۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ۔ سلف کی اور خلف کی ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ دونوں مسجدیں ہیں ، واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت ہوا کہ جن اگلی مسجدوں کی پہلے دن سے بنیاد اللہ کے تقوے پر رکھی گئی ہو وہاں نماز پڑھنا مستحب ہے ۔ اور جہاں اللہ کے نیک بندوں کی جماعت ہو جو دین کے حامل ہوں ، وضو اچھی طرح کرنے والے ہوں ، کامل طہارت کے ساتھ رہنے والے ہوں ، گندگیوں سے دور ہوں ان کے ساتھ نماز پڑھنا مستحب ہے ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو صبح کی نماز پڑھائی جس میں سورہ روم پڑھی ۔ اس میں آپ کو کچھ وہم سا ہو گیا نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا قرآن کریم کی قرأت میں خلط ملط ہو جانے کا باعث تم میں سے وہ لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوتے ہیں لیکن وضو اچھی طرح نہیں کرتے ہمارے ساتھ کے نمازیوں کو وضو نہایت عمدہ کرنا چاہئے ۔ اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ طہارت کا کمال اللہ کی عبادتوں کے بجا لانے انہیں پوری کرنے اور کامل کر کے اور شرعی حیثیت سے بجا لانے میں سہولت پیدا کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے ۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ پانی سے استنجا کرنا بیشک طہارت ہے ۔ لیکن اعلیٰ طہارت گناہوں سے بجنا ہے ۔ حضرت اعمش فرماتے ہیں گناہوں سے توبہ کرنا اور شرک سے بچنا پوری پاکیزگی ہے ۔ اوپر حدیث گزر چکی کہ جب اہل قبا سے ان کی اس اللہ کی پسندیدہ طہارت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تو انہوں نے اپنے جواب میں پانی سے استنجا کرنا بیان کیا ۔ پس یہ آیت ان کے حق میں اتری ہے ۔ بزار ٰمیں ہے کہ انہوں نے کہا ہم پتھروں سے صفائی کر کے پھر پانی سے دھوتے ہیں ۔ لیکن اس روایت میں محمد بن عبدالعزیز کا زہری سے تفرد ہے اور ان سے بھی ان کے بیٹے کے سوا اور کوئی راوی نہیں ۔ اس حدیث کو ان لفظوں سے میں نے یہاں صرف اس لئے وارد کیا ہے کہ فقہاء میں یہ مشہور ہے لیکن محدثین کل کے کل اسے معروف نہیں بتاتے خصوصاً متاخرین لوگ واللہ اعلم ۔