Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
لَا تَقُمۡ فِيۡهِ اَبَدًا ‌ؕ لَمَسۡجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقۡوٰى مِنۡ اَوَّلِ يَوۡمٍ اَحَقُّ اَنۡ تَقُوۡمَ فِيۡهِ‌ؕ فِيۡهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّتَطَهَّرُوۡا ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُطَّهِّرِيۡنَ‏ ﴿108﴾
آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہوں البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقوٰی پر رکھی گئی ہے وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
لا تقم فيه ابدا لمسجد اسس على التقوى من اول يوم احق ان تقوم فيه فيه رجال يحبون ان يتطهروا و الله يحب المطهرين
Do not stand [for prayer] within it - ever. A mosque founded on righteousness from the first day is more worthy for you to stand in. Within it are men who love to purify themselves; and Allah loves those who purify themselves.
Aap iss mein kabhi kharay na hon. Albatta jiss masjid ki bunyaad awwal din say taqwa per rakhi gaee hai woh iss laeeq hai kay aap iss mein kharay hon iss mein aisay aadmi hain kay woh khoob pak honey ko pasand kertay hain aur Allah Taalaa khoob pak honey walon ko pasand kerta hai.
۔ ( اے پیغمبر ) تم اس ( نام نہاد مسجد ) میں کبھی ( نماز کے لیے ) کھڑے مت ہونا ۔ البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حق دار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو ۔ ( ٨٣ ) اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک صاف ہونے کو پسند کرتے ہیں ، اور اللہ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ہے ۔
اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا ، ( ف۲٤۷ ) بیشک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے ( ف۲٤۸ ) وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو ، اس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں ( ف۲٤۹ ) اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں ،
تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا ۔ جو مسجد اول روز سے تقوٰی پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں ﴿عبادت کے لیے﴾ کھڑے ہو ، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں ۔ 102
۔ ( اے حبیب! ) آپ اس ( مسجد کے نام پر بنائی گئی عمارت ) میں کبھی بھی کھڑے نہ ہوں ۔ البتہ وہ مسجد ، جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقوٰی پر رکھی گئی ہے ، حق دار ہے کہ آپ اس میں قیام فرما ہوں ۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو ( ظاہراً و باطناً ) پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں ، اور اﷲ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :102 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینے تشریف لے جانے سے پہلے قبیلہ خزرج میں ایک شخص ابو عامر نامی تھا جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی راہب بن گیا تھا ۔ اس کا شمار علماء اہل کتاب میں ہوتا تھا اور رہبانیت کی وجہ سے اس کے علمی وقار کے ساتھ ساتھ اس کی درویشی کا سکہ بھی مدینے اور اطراف کے جاہل عربوں میں بیٹھا ہوا تھا ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے پہنچےتو اس کی مسیحت وہاں خوب چل رہی تھی ۔ مگر یہ علم اور یہ درویشی اس کے اندر حق شناسی اور حق جوئی پیدا کرنے کے بجائے الٹی اس کے لئے ایک زبردست حجاب بن گئی اور اس حجاب کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد وہ نعمت ایمان ہی سے محروم نہ رہا بلکہ آپ کو اپنی مشیخت کا حریف اور اپنے کاروبار درویشی کا دشمن سمجھ کر آپ کی اور آپ کے کام کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا ۔ پہلے دو سال تک تو اسے یہ امید رہی کہ کفار قریش کی طاقت ہی اسلام کے مٹانے کے لئے کافی ہوگی ۔ لیکن جنگ بدر میں جب قریش نے شکست فاش کھائی تو اسے یارائے ضبط نہ رہا ۔ اسی سال وہ مدینہ سے نکل کھڑا ہوا اور اس نے قریش اور دوسرے عرب قبائل میں اسلام کے خلاف تبلیغ شروع کردی ۔ جنگ احد جن لوگوں کی سعی سے برپا ہوئی ان میں یہ بھی شامل تھا اور کہا جاتا ہے کہ احد کے میدان جنگ میں اسی نے وہ گڑھے کھدوائے تھے جن میں سے ایک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم گر کر زخمی ہوئے ۔ پھر جنگ احزاب میں جو لشکر ہر طرف سے مدینہ پر چڑھ آئے تھے ۔ ان کو چڑھا لانے میں بھی اس کا حصہ نمایاں تھا ۔ اس کے بعد جنگ حنین تک جتنی لڑائیاں مشرکین عرب اور مسلمانوں کے درمیان ہوئیں ان سب میں یہ عیسائی درویش اسلام کے خلاف شرک کا سرگرم حامی رہا ۔ آخرکار اسے اس بات سے مایوسی ہوگئی کہ عرب کی کوئی طاقت اسلام کے سیلاب کو روک سکے گی ۔ اس لئے عرب کو چھوڑ کر اس نے روم کا رخ کیا تاکہ قیصر کو اس “خطرے ” سے آگاہ کرے جو عرب سے سر اٹھا رہا تھا ۔ یہ وہی موقع تھا جب مدینے میں یہ اطلاعات پہنچیں کہ قیصر عرب پر چڑھائی کی تیاریاں کر رہا ہے اور اسی کی روک تھام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تبوک کی مہم پر جانا پڑا ۔ ابو عامر راہب کی ان تمام سرگرمیوں میں مدینہ کے منافقین کا ایک گروہ اس کے ساتھ شریک سازش تھا اور آخری تجویز میں بھی یہ لوگ اس کے ہمنوا تھے کہ وہ اپنے مذہبی اثر کو استعمال کر کے اسلام کے خلاف قیصر روم اور شمالی عرب کے عیسائی ریاستوں سے فوجی امداد حاصل کرے ۔ جب وہ روم کی طرف روانہ ہونے لگا تو اس کے اور ان منافقوں کے درمیان یہ قرارداد ہوئی کہ مدینہ میں یہ لوگ اپنی ایک الگ مسجد بنالیں گے تاکہ عام مسلمانوں سے بچ کر منافق مسلمانوں کی علیحدہ جتھہ بندی اس طرح کی جاسکے کہ اس پر مذہب کا پردہ پڑا رہے اور آسانی سے اس پر کوئی شبہہ نہ کیا جاسکے ، اور وہاں نہ صرف یہ کہ منافقین منظم ہو سکیں اور آئندہ کارروائیوں کے لئے مشورے کر سکیں ، بلکہ ابو عامر کے پاس سے جو ایجنٹ خبریں اور ہدایات لے کر آئیں وہ بھی غیر مشتبہ فقیروں اور مسافروں کی حیثیت سے اس مسجد میں ٹھہر سکیں ۔ یہ تھی وہ ناپاک سازش جس کے تحت وہ مسجد تیار کی گئی تھی جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے ۔ مدینہ میں اس وقت دو مسجدیں تھیں ۔ ایک مسجد قبا جو شہر کے مضافات میں تھی ، دوسری مسجد نبوی جو شہر کے اندر تھی ۔ ان دو مسجدوں کی موجودگی میں ایک تیسری مسجد بنانے کی کوئی ضرورت نہ تھی ، اور وہ زمانہ ایسی احمقانہ مذہبیت کا نہ تھا کہ مسجد کے نام سے ایک عمارت بنا دینا بجائے خودکار ثواب ہو قطع نظر اس سے کہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو ۔ بلکہ اس کے برعکس ایک نئی مسجد بننے کے معنی یہ تھے کہ مسلمانوں کی جماعت میں خواہ مخواہ تفریق رونما ہو جسے ایک صالح اسلامی نظام کسی طرح گورا نہیں کر سکتا ۔ اس لئے یہ مجبور ہوئے کہ اپنی علیحدہ مسجد بنانے سے پہلے اس کی ضرورت ثابت کریں ۔ چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس تعمیر نو کے لئے یہ ضرورت پیش کی کہ بارش میں اور جاڑے کے راتوں میں عام لوگوں کو اور خصوصا ضعیفوں اور معذوروں کو ، جو ان دونوں مسجدوں سے دور رہتے ہیں ، پانچوں وقت حاضری دینی مشکل ہوتی ہے ۔ لہٰذا ہم محض نمازیوں کی آسانی کے لئے یہ ایک نئی مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ ان پاکیزہ ارادوں کی نمائش کے ساتھ جب یہ مسجد ضرار بن کر تیار ہوئی تو یہ اشرار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے درخواست کی کہ آپ ایک مرتبہ خود نماز پڑھا کر ہماری مسجد کا افتتاح فرما دیں ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس وقت میں جنگ کی تیاری میں مصروف ہوں اور ایک بڑی مہم درپیش ہے ۔ اس مہم سے واپس آکر دیکھوں گا ۔ اس کے بعد آپ تبوک کی طرف روانہ ہوگئے اور آپ کے پیچھے یہ لوگ اس مسجد میں اپنی جتھہ بندی اور سازش کرتے رہے ، حتی کے انہوں نے یہاں تک طے کر لیا کہ ادھر رومیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قلع قمع ہوا اور ادھر یہ فورا ہی عبداللہ ابن ابی کے سر پر تاج رکھ دیں ۔ لیکن تبوک میں جو معاملہ پیش آیا اس نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ واپسی پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب ذی ادان کے مقام پر پہنچے تو یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت چند آدمیوں کو مدینہ کی طرف بھیج دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے پہلے وہ اس مسجد ضرار کو مسمار کر دیں ۔