Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
اَفَمَنۡ اَسَّسَ بُنۡيَانَهٗ عَلٰى تَقۡوٰى مِنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانٍ خَيۡرٌ اَمۡ مَّنۡ اَسَّسَ بُنۡيَانَهٗ عَلٰى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانۡهَارَ بِهٖ فِىۡ نَارِ جَهَـنَّمَ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿109﴾
پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے پر اور اللہ کی خوشنودی پر رکھی ہو یا وہ شخص کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارے پر جو کہ گرنے ہی کو ہو ، رکھی ہو پھر وہ اس کو لے کر آتش دوزخ میں گر پڑے اور اللہ تعالٰی ایسے ظالموں کو سمجھ ہی نہیں دیتا ۔
افمن اسس بنيانه على تقوى من الله و رضوان خير ام من اسس بنيانه على شفا جرف هار فانهار به في نار جهنم و الله لا يهدي القوم الظلمين
Then is one who laid the foundation of his building on righteousness [with fear] from Allah and [seeking] His approval better or one who laid the foundation of his building on the edge of a bank about to collapse, so it collapsed with him into the fire of Hell? And Allah does not guide the wrongdoing people.
Phir aaya aisa shaks behtar hai jiss ney apni emaarat ki bunyaad Allah say darney per aur Allah ki khushnoodi per rakhi ho ya woh shaks kay jiss ney apni emaarat ki bunyaad kissi ghaati kay kinaray per jo kay girney hi ko ho rakhi ho phir woh iss ko ley ker aatish-e-dozakh mein girr paray aur Allah Taalaa aisay zalimon ko samajh hi nahi deta.
بھلا کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اس کی خوشنودی پر اٹھائی ہو ، یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک ڈھانگ کے کسی گرتے ہوئے کنارے پر رکھی ہو ، ( ٨٤ ) پھر وہ اسے لے کر جہنم کی آگ میں جاگرے؟ اور اللہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا ۔
تو کیا جس نے اپنی بنیاد رکھی اللہ سے ڈر اور اس کی رضا پر ( ف۲۵۰ ) وہ بھلا یا وہ جس نے اپنی نیو چنی ایک گراؤ ( ٹوٹے ہوئے کناروں والے ) گڑھے کے کنارے ( ف۲۵۱ ) تو وہ اسے لے کر جہنم کی آگ میں ڈھے پڑا ( ف۲۵۲ ) اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا ،
پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر 103 پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا ۔ 104
بھلا وہ شخص جس نے اپنی عمارت ( یعنی مسجد ) کی بنیاد اللہ سے ڈرنے او ر ( اس کی ) رضا و خوشنودی پر رکھی ، بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایسے گڑھے کے کنارے پر رکھی جو گرنے والا ہے ۔ سو وہ ( عمارت ) اس معمار کے ساتھ ہی آتشِ دوزخ میں گر پڑی ، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :103 متن میں لفظ ”جرف“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق عربی زبان میں کسی ندی یا دریا کے اس کنارے پر ہوتا ہے جس کے نیچے کی مٹی کو پانی نے کاٹ کاٹ کر بہا دیا ہو اور اوپر کا حصہ بے سہارا کھڑا ہو ۔ جو لوگ اپنے عمل کی بنیاد خدا سے بے خوفی اور اس کی رضا سے بے نیازی پر رکھتے ہیں ان کی تعمیر حیات کو یہاں اس عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایسے ایک کھوکھلے بے ثبات کنارہ دریا پر اٹھائی گئی ہو ۔ یہ ایک بے نظیر تشبیہ ہے جس سے زیادہ بہتر طریقہ سے اس صورت حال کی نقشہ کشی نہیں کی جا سکتی ۔ اس کی پوری معنویت ذہن نشین کر نے کے لیے یوں سمجھیے کہ دنیوی زندگی کی وہ ظاہری سطح جس پر مومن ، منافق ، کافر ، صالح ، فاجر ، غرض تمام انسان کام کرتے ہیں ، مٹی کی اس اوپری تہ کے مانند ہے جس پر دنیا میں ساری عمارتیں بنائی جاتی ہیں ۔ یہ نہ اپنے اندر خود کوئی پائیداری نہیں رکھتی ، بلکہ اس کی پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے ٹھوس زمین موجود ہو ۔ اگر کوئی نہ ایسی ہو جس کے نیچے کی زمین کسی چیز ، مثلا دریا کے پانی سے کٹ چکی ہو تو جو ناواقف انسان اس کی ظاہری حالت سے دھوکا کھا کر اس پر اپنا مکان بنائے گا اسے وہ اس کے مکان سمیت لے بیٹھے گی اور وہ نہ صرف خود ہلاک ہوگا بلکہ اس ناپائیدار بنیاد پر اعتماد کر کے اپنا جو کچھ سرمایہ زندگی وہ اس عمارت میں جمع کرے گا وہ بھی برباد ہو جائے گا ۔ بالکل اسی مثال کے مطابق حیات دنیا کی وہ ظاہری سطح بھی جس پر ہم سب اپنے کارنامہ زندگی کی عمارت اٹھاتے ہیں ، بجائے خود کوئی ثبات و قرار نہیں رکھتی بلکہ اس کی مضبوطی و پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے خدا کے خوف ، اس کے حضور جوابدہی کے احساس اور اس کی مرضی کے اتباع کی ٹھوس چٹان موجود ہو ۔ جو نادان آدمی محض حیات دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر لیتا ہے اور دنیا میں خدا سے بے خوف اور اس کی رضا سے بے پروا ہو کر کام کرتا ہے وہ دراصل خود اپنی تعمیر زندگی کے نیچے سے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور اس کا آخری انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ بے بنیاد سطح ، جس پر اس نے اپنی عمر بھر کا سرمایہ عمل جمع کیا ہے ایک دن یکایک گر جائے اور اسے اس کے پورے سرمایے سمیت لے بیٹھے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :104 ”سیدھی راہ“ یعنی وہ راہ جس سے انسان بامراد ہوتا اور حقیقی کامیابی کی منزل پر پہنچتا ہے ۔
وہ کہ جس نے اللہ کے ڈر اور اللہ کی رضا کی طلب کے لئے بنیاد رکھی اور جس نے مسلمانوں کو ضرر پہنچانے اور کفر کرنے اور پھوٹ ڈلوانے اور مخالفین اللہ و رسول کو پناہ دینے کے لئے بنیاد رکھی یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔ یہ دوسرے قسم کے لوگ تو اپنی بنیاد اس خندق کے کنارے پر رکھتے ہیں ۔ جس میں آگ بھری ہوئی ہو اور ہو بھی وہ بنیاد ایسی کمزور کہ آگ میں جھک رہی ہو ظاہر ہے کہ ایک دن وہ آگ میں گر پڑے گی ۔ ظالموں اور فسادیوں کا کام بھی نیک نتیجہ نہیں ہوتے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد ضرار سے دھواں نکلتے دیکھا ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے اس مسجد کو توڑا اور اس کی بنیادیں اکھیڑ پھینکیں انہوں نے اس کے نیچے سے دھواں اٹھتا پایا ۔ خلف بن بامعین کہتے ہیں میں نے منافقوں کی اس مسجد ضرار کو جس کا ذکر ان آیتوں میں دیکھا ہے کہ اس کے ایک پتھر سے دھواں نکل رہا تھا اب وہ کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ بنی ہوئی ہے ۔ ان کے ایک بد کرتوت کی وجہ سے ان کے دل میں نفاق جگہ پکڑ گیا ہے جو کبھی بھی ٹلنے والا نہیں یہ شک شبہ میں ہی رہیں گے جیسے کہ بنی اسرائیل کے وہ لوگ جنہوں نے بچھڑا پوجا تھا ان کے دلوں میں بھی اس کی محبت گھر کر گئی تھی ۔ ہاں جب ان کے دل پاش پاش ہو جائیں یعنی وہ خود مر جائیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال سے خبردار ہے ۔ اور خیر و شر کا بدلہ دینے میں باحکمت ہے ۔