Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَّعَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِيۡنَ خُلِّفُوۡا ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتۡ عَلَيۡهِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ وَضَاقَتۡ عَلَيۡهِمۡ اَنۡفُسُهُمۡ وَظَنُّوۡۤا اَنۡ لَّا مَلۡجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَيۡهِ ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَيۡهِمۡ لِيَتُوۡبُوۡا ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿118﴾
اور تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وہ آئندہ بھی توبہ کر سکیں بیشک اللہ تعالٰی بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم والا ہے ۔
و على الثلثة الذين خلفوا حتى اذا ضاقت عليهم الارض بما رحبت و ضاقت عليهم انفسهم و ظنوا ان لا ملجا من الله الا اليه ثم تاب عليهم ليتوبوا ان الله هو التواب الرحيم
And [He also forgave] the three who were left behind [and regretted their error] to the point that the earth closed in on them in spite of its vastness and their souls confined them and they were certain that there is no refuge from Allah except in Him. Then He turned to them so they could repent. Indeed, Allah is the Accepting of repentance, the Merciful.
Aur teen shakson kay haal per bhi jin ka moamla multawee chor diya gaya tha. Yahan tak kay jab zamin ba-waajood apni farakhi kay unn per tang honey lagi aur woh khud apni jaan say tang aagaye aur unhon ney samajh liya kay Allah say kahin panah nahi mill sakti be-juz iss kay kay ussi ki taraf rujoo kiya jaye phir unn kay haal per tawajja farmaee takay woh aaeenda bhi toba ker saken. Be-shak Allah Taalaa boht toba qabool kerney wala aur bara reham wala hai.
اور ان تینوں پر بھی ( اللہ نے رحمت کی نظر فرمائی ہے ) جن کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا تھا ، ( ٩٤ ) یہاں تک کہ جب ان پر یہ زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ ہوگئی ، ان کی زندگیاں ان پر دو بھر ہوگئیں ، اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ ( کی پکڑ ) سے خود اسی کی پناہ میں آئے بغیر کہیں اور پناہ نہیں مل سکتی ، ( ٩٥ ) تو پھر اللہ نے ان پر رحم فرمایا ، تاکہ وہ آئندہ اللہ ہی سے رجوع کیا کریں ۔ یقین جانو اللہ بہت معاف کرنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
اور ان تین پر جو موقوف رکھے گئے تھے ( ف۲۷٦ ) یہاں تک کہ جب زمین اتنی وسیع ہو کر ان پر تنگ ہوگئی ( ف۲۷۷ ) اور ہو اپنی جان سے تنگ آئے ( ف۲۷۸ ) اور انہیں یقین ہوا کہ اللہ سے پناہ نہیں مگر اسی کے پاس ، پھر ( ف۲۷۹ ) ان کی توبہ قبول کی کہ تائب رہیں ، بیشک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ،
اور ان تینوں کو بھی اس نے معاف کیا جن کے معاملے کو ملتوی کر دیا گیا تھا 118 ۔ جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی اپنی جانیں بھی ان پر بار ہو نے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے دامنِ رحمت کے سوا نہیں ہے ، تو اللہ اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹا تاکہ وہ اس کی طرف پلٹ آئیں ، یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔ 119 ؏ ١٤
اور ان تینوں شخصوں پر ( بھی نظرِ رحمت فرما دی ) جن ( کے فیصلہ ) کو مؤخر کیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی اور ( خود ) ان کی جانیں ( بھی ) ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ اﷲ ( کے عذاب ) سے پناہ کا کوئی ٹھکانا نہیں بجز اس کی طرف ( رجوع کے ) ، تب اﷲ ان پر لطف وکرم سے مائل ہوا تاکہ وہ ( بھی ) توبہ و رجوع پر قائم رہیں ، بیشک اﷲ ہی بڑا توبہ قبول فرمانے والا ، نہایت مہربان ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :118 نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تو وہ لوگ معذرت کرنے کے لیے حاضر ہوئے جو پیچھے رہ گئے تھے ۔ ان میں ۸۰ سے کچھ زیادہ منافق تھے اور تین سچے مومن بھی تھے ۔ منافقین جھوٹے عذرات پیش کرتے گئے اور حضور ان کی معذرت قبول کرتے چلے گئے ۔ پھر ان تینوں مومنوں کی باری آئی اور انہوں نے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کر لیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کے معاملہ میں فیصلہ کو ملتوی کر دیا اور عام مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ جب تک خدا کا حکم نہ آئے ، ان سے کسی قسم کا معاشرتی تعلق نہ رکھا جائے ۔ اسی معاملہ کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ۔ ( یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ ان تین اصحاب کا معاملہ ان سات اصحاب سے مختلف ہے جن کا ذکر حاشیہ نمبر ۹۹ میں گزر چکا ہے ۔ انہوں نے باز پرس سے پہلے ہی خود اپنے آپ کو سزا دے لی تھی ) ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :119 یہ تینوں صاحب کعب بن مالک ، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے ۔ جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہیں ، تینوں سچے مومن تھے ۔ اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے ۔ قربانیاں کر چکے تھے ۔ آخر الذکر دو اصحاب تو غزوہ بدر کے شرکاء میں سےتھے جن کی صداقت ایمانی ہر شبہ سے بالا تر تھی ۔ اور اول الذکر بزرگ اگرچہ بدری نہ تھے لیکن بدر کے سوا ہر غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ۔ ان خدمات کے باوجود جو سستی اس نازک موقع پر جبکہ تمام قابل جنگ اہل ایمان کو جنگ کے لیے نکل آنے کا حکم دیا گیا تھا ، ان حضرات نے دکھائی اس پر سخت گرفت کی گئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپس تشریف لا کر مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے ۔ ٤۰ دن کے بعد ان کی بیویوں کو بھی ان سے الگ رہنے کی تاکید کر دی گئی ۔ فی الواقع مدینہ کی بستی میں ان کا وہی حال ہوگیا تھا کہ جس کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے ۔ آخرکار جب ان کے مقاطعہ کو ۵۰ دن ہو گئے تب معافی کا یہ حکم نازل ہوا ۔ ان تینوں صاحبوں میں سے حضرت کعب بن مالک نے اپنا قصہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو غایت درجہ سبق آموز ہے ۔ اپنے بڑھاپے کے زمانہ میں جبکہ وہ نابینا ہو چکے تھے ، انہوں نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ سے ، جو ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چلایا کرتے تھے ، یہ قصہ خود بیان کیا: غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی مسلمانوں سے شرکت جنگ کی اپیل کرتے تھے ، میں اپنے دل میں ارادہ کر لیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروں گا مگر پھر واپس آکر سستی کر جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ابھی کیا ہے ، جب چلنے کا وقت آئے گا تو تیار ہو تے کیا دیر لگتی ہے ۔ اسی طرح بات ٹلتی رہی یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آگیا اور میں تیار نہ تھا ۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کو چلنے دو ، میں ایک دو روز بعد راستہ ہی میں اس سے جا ملوں گا ۔ مگر پھر وہی سستی مانع ہوئی حتٰی کہ وقت نکل گیا ۔ اس زمانہ میں جبکہ میں مدینے میں رہا میرا دل یہ دیکھ دیکھ کر بے حد کڑھتا تھا کہ میں پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ہیں یا وہ ضعیف اور مجبور لوگ جن کو اللہ نے معذور رکھا ہے ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسب معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مسجد آکر دو رکعت نماز پڑھی ، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے ۔ اس مجلس میں منافقین نے آکر اپنے عذرات لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کرنے شروع کیے ۔ یہ ۸۰ سے زیادہ آدمی تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک ایک کی بناوٹی باتیں سنیں ۔ ان کے ظاہری عذرات کو قبول کر لیا ، اور ان کے باطن کو خدا پر چھوڑ کر فرمایا خدا تمہیں معاف کرے ۔ پھر میری باری آئی ۔ میں نےآگے بڑھ کر سلام عرض کیا ۔ ” خدا کی قسم اگر میں اہل دنیا میں سے کسی کے سامنے حاضر ہوا ہوتا تو ضرور کوئی نہ کوئی بات بنا کر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ، باتیں بنانی تو مجھے بھی آتی ہیں ، مگر آپ کے متعلق میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس وقت کوئی جھوٹا عذر پیش کر کے میں نے آپ کو راضی کر بھی لیا تو اللہ ضرور آپ کو مجھ سے پھر ناراض کر دے گا ۔ البتہ اگر سچ کہوں تو چاہے آپ ناراض ہی کیوں نہ ہوں ، مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لیے معافی کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے پیش کر سکوں ، میں جانے پر پوری طرح قادر تھا “ ۔ اس پر حضور نے فرمایا ” یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی ۔ اچھا ، اٹھ جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملہ میں کوئی فیصلہ کرے“ ۔ میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا ۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑ گئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تو نے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا ۔ یہ باتیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ہونے لگا کہ پھر حاضر ہو کر کوئی بات بنا دوں ۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ دو اور صالح آدمیوں ( مراد بن ربیع اور ہلال بن امیہ ) نے بھی وہی سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی ، تو مجھے تسکین ہوگئی اور میں اپنی سچائی پر جما رہا ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے ۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے ، مگر میں نکلتا تھا ، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا ، بازاروں میں چلتا پھرتا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سرزمین بالکل بدل گئی ہے ، میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں کوئی بھی میرا واقف کار نہیں ۔ مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو حسب معمول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا تھا ، مگر بس انتظار ہی کرتا رہ جاتا تھا کہ جواب کے لیے آپ کے ہونٹ جنبش کریں ۔ نماز میں نظریں چرا کر حضور کو دیکھتا تھا کہ آپ کی نگاہیں مجھ پر کیسی پڑتی ہیں ۔ مگر وہاں حال یہ تھا کہ جب تک میں نماز پڑھتا آپ میری طرف دیکھتے رہتے ، اور جہاں میں نے سلام پھیرا کہ آپ نے میری طرف سے نظر ہٹائی ۔ ایک روز میں گھبرا کر اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے یار ابو قتادہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر انہیں سلام کیا ۔ مگر اس اللہ کے بندے نےسلام کا جواب تک نہ دیا ۔ میں نے کہا ” ابو قتادہ ، میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں خدا اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا ؟ “ وہ خاموش رہے ۔ میں نے پھر پوچحا ۔ وہ پھر خاموش رہے ، تیسری مرتبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ ” اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے“ ۔ اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں دیوار سے اتر آیا ۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ شام کے نبطیوں میں سے ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہِ غَسّان کا خط حریر میں لپٹا ہوا مجھے دیا ۔ میں کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ” ہم نے سنا ہے تمہارے صاحب نے تم پر ستم توڑ رکھا ہے ، تم کوئی ذلیل آدمی نہیں ہو ، نہ اس لائق ہو کہ تمہیں ضائع کیا جائے ، ہمارے پس آجاؤ ، ہم تمہاری قدر کریں گے“ ۔ میں نے کہا یہ ایک اور بلا نازل ہوئی ، اور اسی وقت اس خط کو چولھے میں جھونک دیا ۔ چالیس دن اس حالت پر گزر چکے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آدمی حکم لے کی آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیٰحدہ ہو جاؤ ۔ میں نے پوچھا کیا طلاق دے دوں؟ جواب ملا نہیں ، بس الگ رہو ۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اس معاملے کا فیصلہ کر دے ۔ پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنی جان سے بیزار ہو رہا تھا کہ یکایک کسی شخص نے پکار کر کہا ” مبارک ہو کعب بن مالک “! میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ میری معافی کا حکم ہو گیا ہے ۔ پھر تو فوج در فوج لوگ بھاگے چلے آرہے تھے اور ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مجھ کو مبارک باد دے رہا تھا کہ تیری توبہ قبول ہوگئی ۔ میں اٹھا اور سیدھا مسجد نبوی کی طرف چلا ۔ دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے ۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا ”تجھے مبارک ہو ، یہ دن تیری زندگی میں سب سے بہتر ہے“ میں نے پوچھا یہ معافی حضور کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے ؟ فرمایا خدا کی طرف سے ، اور یہ آیات سنائیں ۔ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں صدقہ کر دوں ۔ فرمایا ” کچھ رہنے دو کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے “ ۔ میں نے اس ارشاد کے مطابق اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیا ، باقی سب صدقہ کر دیا ۔ پھر میں نے خدا سے عہد کیا کہ جس راست گفتاری کے صلے میں اللہ نے مجھے معافی دی ہے اس پر تمام عمر قائم رہوں گا ، چنانچہ آج تک میں نے کوئی بات جان بوجھ کر خلاف واقعہ نہیں کہی اور خدا سے امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی مجھے اس سے بچائے گا ۔ یہ قصہ اپنے اندر بہت سے سبق رکھتا ہے جو ہر مومن کے دل نشین ہونے چاہییں: سب سے پہلی بات تو اس سے یہ معلوم ہوئی کہ کفر و اسلام کی کشمکش کا معاملہ کس قدر اہم اور کتنا نازک ہے کہ اس کشمکش میں کفر کا ساتھ دینا تو درکنار ، جو شخص اسلام کا ساتھ دینے میں ، بدنیتی سے بھی نہیں نیک نیتی سے ، تمام عمر بھی نہیں کسی ایک موقع ہی پر ، کوتاہی برت جاتا ہے اس کی بھی زندگی بھر کی عبادت گزاریاں اور دینداریاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں ، حتیٰ کہ ایسے عالی قدر لوگ بھی گرفت سے نہیں بچتے جو بدر و احد اور احزاب و حنین کے سخت معرکوں میں جانبازی کے جوہر دکھا چکے تھے اور جن کا اخلاص و ایمان ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا ۔ دوسری بات ، جو اس سے کچھ کم اہم نہیں یہ ہے کہ ادائے فرض میں تساہل کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بسا اوقات محض تساہل ہی تساہل میں آدمی کسی ایسے قصور کا مرتکب ہو جاتا ہے جس کا شمار بڑے گناہوں میں ہوتا ہے ، اور اس وقت یہ بات اسے پکڑ سے نہیں بچا سکتی کہ اس نے اس قصور کا ارتکاب بدنیتی سے نہیں کیا تھا ۔ پھر یہ قصہ اس معاشرے کی روح کو بڑی خوبی کے ساتھ ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں بنا تھا ۔ ایک طرف منافقین ہیں جن کی غداریاں سب پر آشکارا ہیں ، مگر ان کے ظاہری عذر سن لیے جاتے ہیں اور درگزر کیا جاتا ہے ، کیونکہ ان سے خلوص کی امید ہی کب تھی کہ اب اس کے عدم کی شکایت کی جاتی ۔ دوسری طرح ایک آزمودہ کار مومن ہے جس کی جاں نثاری پر شبہہ تک کی گنجائش نہیں اور وہ جھوٹی باتیں بھی نہیں بناتا ، صاف صاف قصور کا اعتراف کر لیتا ہے مگر اس پر غضب کی بارش برسا دی جاتی ہے ، نہ اس پر کہ اس کے مومن ہونے میں کوئی شبہ ہو گیا ہے ، بلکہ اس بنا پر مومن ہو کر اس نے وہ کام کیوں کیا جو منافقوں کے کرنے کا تھا ۔ مطلب یہ تھا کہ زمین کے نمک تو تم ہو ، تم سے بھی اگر نمکینی حاصل نہ ہوئی تو پھر اور نمک کہاں سے آئے گا ۔ پھر لطف یہ ہے کہ اس سارے قضیہ میں لیڈر جس شان سے سزا دیتا ہے اور پیرو جس شان سے اس سزا کو بھگتا ہے ، اور پوری جماعت جس شان سے اس سزا کی نافذ کرتی ہے ، اس کا ہر پہلو بے نظیر ہے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کی زیادہ تعریف کی جائے ۔ لیڈر نہایت سخت سزا دے رہا ہے مگر غصے اور نفرت کے ساتھ نہیں ، گہری محبت کے ساتھ دے رہا ہے ۔ باپ کی طرح شعلہ بار نگاہوں کا ایک گوشہ ہر وقت یہ خبر دے جاتا ہے کہ تجھ سے دشمنی نہیں ہے بلکہ تیرے قصور پر تیری ہی خاطر دل دکھا ہے ۔ تو درست ہو جائے تو یہ سینہ تجھے چمٹا لینے کے لیے بے چین ہے ۔ پیرو سزا کی سختی پر تڑپ رہا ہے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کا قدم جادہ اطاعت سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ڈگمگاتا ، اور صرف یہی نہیں کہ اس پر غرور نفس اور حمیت جاہلیہ کا کوئی دورہ نہیں پڑتا اور علانیہ استکبار پر اتر آنا تو درکنار وہ دل میں اپنے محبوب لیڈر کے خلاف کوئی شکایت تک نہیں آنے دیتا ۔ بلکہ اس کے برعکس وہ لیڈر کی محبت میں اور زیادہ سرشار ہوگیا ہے ۔ سزا کے ان پورے پچاس دنوں میں اس کی نظریں سب سے زیادہ بے تابی کے ساتھ جس چیز کی تلاش میں رہیں وہ یہ تھی کہ سردار کی آنکھوں میں وہ گوشہ التفات اس کے لیے باقی ہے یا نہیں جو اس کی امیدوں کا آخری سہارا ہے ۔ گویا وہ ایک قحط زدہ کسان تھا جس کا سارا سرمایہ امید بس ایک ذرا سا لکہ ابر تھا جو آسمان کے کنارے پر نظر آتا تھا ۔ پھر جماعت کو دیکھیے تو اس کے ڈسپلن اور اس کی صالح اخلاقی اسپرٹ پر انسان عش عش کر جاتا ہے ۔ ڈسپلن کا یہ حال کہ ادھر لیڈر کی زبان سے بائیکاٹ کا حکم نکلا ادھر پوری جماعت نے مجرم سے نگاہیں پھیر لیں ۔ جلوت تو درکنار خلوت تک میں کوئی قریب سے قریب رشتہ دار اور کوئی گہرے سے گہرا دوست بھی اسے بات نہیں کرتا ۔ بیوی تک اس سے الگ ہو جاتی ہے ۔ خدا کا واسطہ دے دے کر پوچھتا ہے کہ میرے خلوص میں تو تم کو شبہ نہیں ہے ، مگر وہ لوگ بھی جو مدت العمر سے اس کو مخلص جانتے تھے ، صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے نہیں ، خدا اور اس کے رسول سے اپنے خلوص کی سند حاصل کرو ۔ دوسری طرف اخلاقی اسپرٹ اتنی بلند اور پاکیزہ کہ ایک شخص کی چڑھی ہوئی کمان اترتے ہی مردار خوروں کا کوئی گروہ اس کا گوشت نوچنے اور اسے پھاڑ کھانے کے لیے نہیں لپکتا ، بلکہ اس پورے زمانہ عتاب میں جماعت کا ایک ایک فرد اپنے اس معتوب بھائی کی مصیبت پر رنجیدہ اور اس کو پھر سے اٹھا کر گلے لگا لینے کے لیے بے تاب رہتا ہے اور معافی کا اعلان ہوتے ہی لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ جلدی سے جلدی پہنچ کر اس سے ملیں اور اسے خوشخبری پہنچائیں ۔ یہ نمونہ ہے اس صالح جماعت کا جسے قرآن دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے ۔ اس پس منظر میں جب ہم آیت زیر بحث کو دیکھتے ہیں تو ہم پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان صاحبوں کو اللہ کے دربار سے جو معافی ملی ہے اور اس معافی کے انداز بیان میں جو رحمت و شفقت ٹپکی پڑ رہی ہے اس کی وجہ ان کا وہ اخلاص ہے جس کا ثبوت انہوں نے پچاس دن کی سخت سزا کے دوران میں دیا تھا ۔ اگر قصور کر کے وہ اکڑتے اور اپنے لیڈر کی ناراضی کا جواب غصے اور عناد سے دیتے اور سزا ملنے پر اس طرح بپھرتے جس طرح کسی خود پرست انسان کا غرور نفس زخم کھا کر بپھرا کرتا ہے ، اور مقاطعہ کے دوران میں ان کا طرز عمل یہ ہوتا کہ ہمیں جماعت سے کٹ جانا گوارا ہے مگر اپنی خودی کے بت پر چوٹ کھانا گوارا نہیں ہے ، اور اگر یہ سزا کا پورا زمانہ وہ اس دوڑ دھوپ میں گزارتے کہ جماعت کے اندر بددلی پھیلائیں اور بددل لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے ساتھ ملائیں تاکہ ایک جتھا تیار ہو ، تو معافی کیسی ، انہیں تو بالیقین جماعت سے کاٹ پھینکا جاتا اور اس سزا کے بعد ان کی اپنی منہ مانگی سزا ان کو یہ دی جاتی کہ جاؤ اب اپنی خودی کے بت ہی کو پوجتے رہو ، اعلاء کلمۃ الحق کی جدوجہد میں حصہ لینے کی سعادت اب تمہارےنصیب میں کبھی نہ آئے گی ۔ لیکن ان تینوں صاحبوں نے اس کڑی آزمائش کے موقع پر یہ راستہ اختیار نہیں کیا ، اگرچہ یہ بھی ان کے لیے کھلا ہوا تھا ۔ اس کے برعکس انہوں نے وہ روش اختیار کی جو ابھی آپ دیکھ آئے ہیں ۔ اس روش کو اختیار کر کے انہوں نے ثابت کر دیا کہ خدا پرستی نے ان کے سینے میں کوئی بت باقی نہیں چھوڑا ہے جسے وہ پوجیں ، اور اپنی پوری شخصیت کو انہوں نے راہ خدا کی جدوجہد میں جھونک دیا ہے اور وہ اپنی واپسی کی کشتیاں اس طرح جلا کر اسلامی جماعت میں آئے ہیں کہ اب یہاں سے پلٹ کر کہیں اور نہیں جا سکتے ۔ یہاں کی ٹھوکریں کھائیں گے مگر یہیں مریں گے اور کھپیں گے ۔ کسی دوسری جگہ بڑی سے بڑی عزت بھی ملتی ہو تو یہاں کی ذلت چھوڑ کر اسے لینے نہ جائیں گے ۔ اس کے بعد اگر انہیں اٹھا کر سینے سے لگا نہ لیا جاتا تو اور کیا کیا جا سکتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی معافی کا ذکر ایسے شفقت بھرے الفاظ میں فرمایا تھا کہ” ہم ان کی طرف پلٹے تاکہ وہ ہماری طرف پلٹ آئیں“ ۔ ان چند لفظوں میں اس حالت کی تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ آقا نے پہلے تو ان بندوں سے نظر پھیر لی تھی ، مگر جب وہ بھاگے نہیں بلکہ دل شکستہ ہو کر اسی کے در پر بیٹھ گئے تو ان کی شان وفاداری دیکھ کر آقا سے خود نہ رہا گیا ۔ جوش محبت سے بے قرار ہو کر وہ آپ نکل آیا تاکہ انہیں دروازے سے اٹھا لائے ۔
جنگ تبوک میں عدم شمولیت سے پشیمان حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبید اللہ جو آپ کے نابینا ہوجانے کے بعد آپ کا ہاتھ تھام کر لے جایا لے آیا کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے موقع پر میرے والد کے رہ جانے کا واقعہ خود کی زبانی یہ ہے کہ فرماتے ہیں میں اس کے سوا کسی اور غزوے میں پچھے نہیں رہا ۔ ہاں غزوہ بدر کا ذکر نہیں ، اس میں جو لوگ شامل نہیں ہوئے تھے ان پر کوئی سرزنش نہیں ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو قافلے کے ارادے سے چلے تھے لیکن وہاں اللہ کی مرضی سے قریش کے جنگی مرکز سے لڑائی ٹھیر گئی ۔ تو چونکہ یہ لڑائی بےخبری میں ہوئی اس لیے میں اس میں حاضر نہ ہوسکا اس کے بجائے الحمد اللہ میں لیلۃ العقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھا جب کہ ہم نے اسلام پر موافقت کی تھی اور میرے نزدیک تو یہ چیز بدر سے بھی زیادہ محبوب ہے گو بدر کی شہرت لوگوں میں بہت زیادہ ہے ۔ اچھا اب غزوہ تبوک کی غیر حاضری کا واقعہ سنئے اس وقت مجھے جو آسانی اور قوت تھی وہ اس سے پہلے کبھی میسر نہ آئی تھی ۔ اس وقت میرے پاس دو دو اونٹنیاں تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس غزوے میں جاتے توریہ کرتے یعنی ایسے الفاظ کہتے کہ لوگ صاف مطلب نہ سمجھیں ۔ لیکن چونکہ اس وقت موسم سخت گرم تھا ، سفر بہت دور دراز کا تھا ، دشمن بڑی تعداد میں تھا ، پس آپ نے مسلمانوں کے سامنے اپنا مقصد صاف صاف واضح کر دیا کہ وہ پوری پوری تیاری کرلیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ تھی کہ رجسٹر میں ان کے نام نہ آسکے ۔ پس کوئی باز پرس نہ تھی جو بھی چاہتا کہ میں رک جاؤں وہ رک سکتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا رکنا مخفی رہ سکتا تھا ۔ ہاں اللہ کی وحی آجائے یہ تو بات ہی اور ہے ۔ اس لڑائی کے سفر کے وقت پھل پکے ہوئے تھے سائے بڑھے ہوئے تھے ۔ مسلمان صحابہ اور خود حضور تیاریوں میں تھے ، میری یہ حالت تھی کہ صبح نکلتا تھا کہ سامان تیار کرلوں لیکن ادھر ادھر شام ہو جاتی اور میں خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتا ۔ اور کہتا کوئی بات نہیں روپیہ ہاتھ تلے ہے ، کل خرید لوں گا اور تیاری کرلوں گا ۔ یہاں تک کہ یوں ہی صبح شام صبح شام آج کل آج کل کرتے کوچ کا دن آگیا اور لشکر اسلام بجانب تبوک چل پڑا میں نے کہا کوئی بات نہیں ایک دو دن میں میں بھی پہنچتا ہوں ۔ یونہی آج کا کام کل پر ڈالا اور کل کا پرسوں پر یہاں تک کہ لشکر دور جا پہنچا ۔ گرے پڑے لوگ بھی چل دیئے میں نے کہا خیر دور ہوگئے اور کئی دن ہوگئے تو کیا میں تیز چل کر جا ملوں گا لیکن افسوس کہ یہ بھی مجھ سے نہ ہو سکا ارادوں ہی ارادوں میں رہ گیا ۔ اب تو یہ حالت تھی میں بازاروں میں نکلتا تو مجھے سوائے منافقوں اور بیمار لولے لنگڑے اندھے مریضوں اور معذور لوگوں کے اور کوئی نظر نہ آتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک پہنچ کر مجھے یاد فرمایا کہ کعب بن مالک نے کیا کیا ؟ اس پر بنو سلمہ کے ایک شخص نے کہا اسے تو اچھے کپڑوں اور جسم کی راحت رسانی نے روک رکھا ہے ۔ یہ سن کر حضرت معاذ بن جبل نے فرمایا آپ یہ درست نہیں فرما رہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا خیال تو کعب کی نسبت بہتر ہی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ اب آپ لوٹ رہے ہیں تو میرا جی بہت ہی گھبرایا ۔ اور میں حیلے بہانے سوچنے لگا کہ یوں یوں بہانہ بنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے نکل جاؤں گا اپنے والوں سے بھی رائے ملا لوں گا ۔ یہاں تک کہ مجھے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے شریف کے قریب آگئے تو میں دل سے باطل اور جھوٹ بالکل الگ ہو گیا ۔ اور میں نے سمجھ لیا کہ جھوٹے حیلے مجھے نجات نہیں دلوا سکے ۔ سچ ہی کا آخر بول بالا رہتا ہے ۔ پس میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ جھوٹ بالکل نہیں بولوں گا ۔ صاف صاف سچ سچ بات کہہ دونگا ۔ آپ خیر سے تشریف لائے اور حسب عادت پہلے مسجد میں آئے دو رکعت نماز ادا کی اور وہیں بیٹھے ۔ اسی وقت اس جہاد میں شرکت نہ کرنے والے آنے لگے اور عذر معذرت حیلے بہانے کرنے لگے ۔ یہ لوگ اسی سے کچھ اوپر اوپر تھے ۔ آپ ان کی باتیں سنتے اور اندرونی حالت سپرد اللہ کر کے ظاہری باتوں کو قبول فرما کر ان کے لیے استغفار کرتے ۔ میں بھی حاضر ہوا اور سلام کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کے ساتھ تبسم فرمایا اور مجھے اپنے پاس بلایا میں قریب آن کر بیٹھ گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کیسے رک گئے؟ تم نے سواری بھی خرید لی تھی ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ اگر آپ کے سوا کسی اور کے پاس میں بیٹھا ہوتا تو بیسیوں باتیں بنا لیتا ۔ بولنے میں اور باتیں بنانے میں میں کسی سے پیچھے نہیں ہوں ۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ آج اگر جھوٹ سچ ملا کر آپ کے غصے سے میں آزاد ہو گیا تو ممکن ہے کل اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقت حال سے مطلع فرما کر پھر مجھ سے ناراض کر دے ۔ اور آج میرے سچ کی بناء پر اگر آپ مجھے سے بگڑے تو ہو سکتا ہے کہ میری سچائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے پھر خوش کر دے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سچ تو یہ ہے کہ واللہ مجھے کوئی عذر نہ تھا ۔ مجھے اس وقت جو آسانی اور فرست تھی اتنی تو کبھی اس سے پہلے میسر بھی نہیں ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تو سچا ہے ۔ اچھا تم جاؤ اللہ تعالیٰ ہی تمہارے بارے میں جو فیصلہ کرے گا وہی ہوگا ۔ میں کھڑا ہو گیا ، بنو سلمہ کے چند شخص بھی میرے ساتھ ہی اٹھے اور ساتھ ہی چلے اور مجھ سے کہنے لگے اس سے پہلے تو تم سے کبھی کوئی اس قسم کی خطا نہیں ہوئی ۔ لیکن عجب ہے کہ تم نے کوئی عذر معذرت پیش نہیں کی جیسے کہ اوروں نے کی ، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمہارے لیے استغفار کرتے تو تمہیں یہ کافی تھا ۔ الغرض کچھ اس طرح یہ لوگ میرے پیچھے پڑے کہ مجھے خیال آنے لگا کہ پھر واپس جاؤں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی پہلی بات کو جھٹلا کر کوئی حیلہ غلط سلط میں بھی پیش کردوں ۔ پھر میں نے پوچھا کیوں جی کوئی اور بھی میرے جیسا اس معاملے میں اور ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں دو شخص اور ہیں اور انہیں بھی وہی جواب ملا ہے جو تمہیں ملا ہے ۔ میں نے کہا وہ کون کون ہیں انہوں نے جواب دیا مرارہ بن ربیع عامری اور حلال بن امیہ واقفی ان دونوں صالح اور نیک بدری صحابیوں کا نام جب میں نے سنا تو مجھے پورا اطمینان ہو گیا اور گھر چلا گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تینوں سے کلام کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا تھا ۔ لوگ ہم سے الگ ہوگئے کوئی ہم سے بولتا چالتا نہ تھا یہاں تک کہ مجھے تو اپنا وطن پر دیس معلوم ہو نے لگا کہ گویا میں یہاں کی کسی چیز سے واقف ہی نہیں ۔ پچاس راتیں ہم پر اسی طرح گزر گئیں ۔ وہ دو بدری بزرگ تو تھک ہار کر اپنے اپنے مکان میں بیٹھ رہے باہر اندر آنا جانا بھی انہوں نے چھوڑ دیا ۔ میں ذرا زیادہ آنے جانے والا اور تیز طبیعت والا تھا ۔ نہ میں نے مسجد جانا چھوڑا ، نہ بازاروں میں جانا آنا ترک کیا ۔ ہاں مجھ سے کوئی بولتا نہ تھا ۔ نماز کے بعد جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مجمع میں تشریف فرما ہوتے تو میں آتا اور سلام کرتا اور اپنے جی میں کہتا کہ میرے سلام کے جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلے بھی یا نہیں پھر آپ کے قریب ہی کہیں بیٹھ جاتا اور کنکھیوں سے آپ کو دیکھتا رہتا ۔ جب میں نماز میں ہوتا تو آپ کی نگاہ مجھ پر پڑتی لیکن جہاں میں آپ کی طرف التفات کرتا ، آپ میری طرف سے منہ موڑ لیتے ۔ آخر اس ترک کلامی کی طویل مدت نے مجھے پریشان کر دیا ۔ ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ کے باغ کی دیوار سے کود کر ان کے پاس گیا ۔ مجھے ان سے بہت ہی محبت تھی ۔ میں نے سلام کیا لیکن واللہ انہوں نے جواب نہ دیا ۔ میں نے کہا ابو قتادہ تجھے اللہ کی قسم کیا تو نہیں جانتا کہ میں اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں؟ اس نے خاموشی اختیار کی میں نے دوبارہ انہیں قسم دی اور پوچھا وہ پھر بھی خاموش رہے میں نے سہ بارہ انہیں قسم دے کر یہی سوال کیا اس کے جواب میں بھی وہ خاموش رہے اور فرمایا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ اب تو میں اپنے دل کو نہ روک سکا ۔ میری دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بہت غمگین ہو کر پھر دیوار پر چڑھ کر باہر نکل گیا ۔ میں بازار میں جا رہا تھا کہ میں نے شام کے ایک قبطی کو جو مدینے میں غلہ بیچنے آیا تھا یہ پوچھتے ہوئے کہ کوئی مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتا دے لوگوں نے اسے میری طرف اشارہ کر کے بتا دیا وہ میرے پاس آیا اور مجھے شاہ غسان کا خط دیا ۔ میں لکھا پڑھا تو تھا ہی ۔ میں نے پڑھا تو اس میں لکھا تھا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے سردار نے تم پر ظلم کیا ہے تم کوئی ایسے گرے پڑے آدمی نہیں ہو تم یہاں دربار میں چلے آؤ ہم ہر طرح کی خدمت گذاریوں کے لیے تیار ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا یہ ایک اور مصیبت اور منجانب اللہ آزمائش ہے ۔ میں نے تو جا کر چولھے میں اس رقعے کو جلا دیا ۔ چالیس راتیں جب گذر چکیں تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آرہا ہے اس نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو ۔ میں نے پوچھا یعنی کیا طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا نہیں طلاق نہ دو لیکن ان سے ملو جلو نہیں ۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی پیغام پہنچا ۔ میں نے تو اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس امر کا فیصلہ نہ کردے ہاں حضرت ہلال بن امیہ کی بیوی نے آن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے خاوند بہت بوڑھے ہیں ، کمزور بھی ہیں اور گھر میں کوئی خادم بھی نہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں ان کا کام کاج کر دیا کروں ۔ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ تم سے ملیں نہیں ۔ انہوں نے کہا واللہ ان میں تو حرکت کی سکت ہی نہیں اور جب سے یہ بات پیدا ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک ان کے آنسو تھمے ہی نہیں ۔ مجھ سے بھی میرے بعض دوستوں نے کہا کہ تم بھی اتنی اجازت تو حاصل کرلو جتنی حضرت ہلال کے لیے ملی ہے ۔ لیکن میں نے جواب دیا کہ میں اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں کہوں گا ۔ اللہ جانے آپ جواب میں کیا ارشاد فرمائیں؟ ظاہر ہے کہ وہ بوڑھے آدمی ہیں اور میں جوان ہوں ۔ دس دن اس بات پر بھی گزر گئے اور ہم سے سلام کلام بند ہو نے کی پوری پچاس راتیں گزر چکیں ۔ اس پچاسویں رات کو صبح کی نماز میں نے اپنے گھر کی چھت پر ادا کی اور میں دل برداشتہ حیران و پریشان اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ اپنی جان سے تنگ تھا ، زمین باوجود اپنی کشادگی کے مجھ پر تنگ تھی کہ میرے کان میں سلع پہاڑی پر سے کسی کی آواز آئی کہ وہ با آواز بلند کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک خوش ہوجا ۔ واللہ میں اس وقت سجدے میں گڑ پڑا اور سمجھ گیا کہ اللہ عزوجل کی طرف سے قبولیت توبہ کی کوئی خبر آگئی ۔ بات بھی یہی تھی صبح کی نماز کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر صحابہ سے بیان فرمائی تھی اور یہ سنتے ہی وہ پیدل اور سوار ہم تینوں کی طرف دوڑ پڑے تھے کہ ہمیں خبر پہنچائیں ۔ ایک صاحب تو اپنے گھوڑے پر سوار میری طرف خوشخبری لیے ہوئے آرہے تھے لیکن اسلم کے ایک صاحب نے دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ کر باآواز بلند میرا نام لے کر مجھے خوشخبری پہنچائی سوار سے پہلے ان کی آواز میرے کان میں آگئی ۔ جب یہ صاحب میرے پاس پہنچے تو میں نے اپنے پہنے ہوئے دونوں کپڑے انہیں بطور انعام دے دیئے واللہ اس دن میرے پاس اور کچھ بھی نہ تھا ۔ دو کپڑے اور ادھار لے کر میں نے پہنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو نے کے لیے گھر سے نکلا ۔ راستے میں جوق در جوق لوگ مجھ سے ملنے لگے اور مجھے میری توبہ کی بشارت مبارکباد دینے لگے ۔ کہ کعب اللہ تعالیٰ کا تمہاری توبہ کو قبول فرما لینا تمہیں مبارک ہو ۔ میں جب مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور دیگر صحابہ بھی حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت طلحہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور دوڑتے ہوئے آگے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی ۔ مہاجرین میں سے سوائے ان کے اور کوئی صاحب کھڑے نہیں ہوئے ۔ حضرت کعب حضرت طلحہ کی اس محبت کو ہمیشہ ہی اپنے دل میں لیے رہے ۔ جب میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کیا ، اس وقت آپ کے چہرہ مبارک کی رگیں خوشی سے چمک رہی تھیں ۔ آپ نے فرمایا کعب تم پر تمہاری پیدائش سے لے کر آج تک آج جیسا خوشی کا دن کوئی نہیں گزرا ۔ میں نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ عزوجل کی جانب سے؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی خوشی ہوتی تو آپ کا چہرہ مثل چاند کے ٹکڑے کے چمکنے لگ جاتا تھا اور ہر شخص چہرے مبارک کو دیکھتے ہی پہنچان لیا کرتا تھا ۔ میں نے آپ کے پاس بیٹھ کر عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ میں نے نذر مانی ہے کہ اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے تو میرا سب مال اللہ کے نام صدقہ ہے ۔ اس کے رسول کے سپرد ہے ۔ آپ نے فرمایا تھوڑا بہت مال اپنے پاس رکھ لو ، یہی تمہارے لیے بہتر ہے ۔ میں نے کہا جو حصہ میرا خیبر میں ہے وہ تو میرا رہا باقی للہ خیرات ہے ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری نجات کا ذریعہ میرا سچ بولنا ہے میں نے یہ بھی نذر مانی ہے کہ باقی زندگی بھی سوائے سچ کے کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالوں گا ۔ میرا ایمان ہے کہ سچ کی وجہ سے جو نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی وہ کسی مسلمان کو نہیں ملی ۔ اس وقت سے لے کر آج تک بحمد اللہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ اور جو عمر باقی ہے ، اس میں بھی اللہ تعالیٰ سے مجھے یہی امید ہے ۔ اللہ رب العزت نے ( آیت لقد تاب اللہ ) سے کئی آیتیں تک ہماری توبہ کے بارے نازل فرمائیں ۔ اسلام کی نعمت کے بعد مجھ پر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جھوٹ بات نہ کہی جیسے کہ اوروں نے جھوٹی باتیں بنائیں ورنہ میں بھی ان کی طرح ہلاک ہوجاتا ۔ ان جھوٹے لوگوں کو کلام اللہ شریف میں بہت ہی برا کہا گیا ۔ فرمایا ( آیت سیحلفون باللہ لکم الخ ، ) یعنی تمہارے واپس آنے کے بعد یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر چاہتے ہیں کہ تم ان سے چشم پوشی کر لو ۔ اچھا تم چشم پوشی کر لو لیکن یاد رہے کہ اللہ کے نزدیک یہ لوگ گندے اور پلید ہیں ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو ان کے عمل کا بدلہ ہو گا ۔ یہ تمہیں رضامند کرنے کے لیے حلف اٹھا رہے ہیں تم گو ان سے راضی ہو جاؤ لیکن ایسے فاسق لوگوں سے اللہ خوش نہیں ۔ تم تینوں کے امر ان لوگوں کے امر سے پیچھے ڈال دیا گیا تھا ۔ ان کے عذر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمائے تھے ، ان سے دوبارہ بیعت کر لی تھی اور ان کے لیے استغفار بھی کیا تھا ۔ اور ہمارا معاملہ تاخیر میں پڑ گیا تھا جس کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ۔ اسی لیے آیت کے الفاظ ( آیت وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا ) ہیں ۔ پس اس پیچھے چھوڑ دئیے جانے سے مراد غزوے سے رک جانا نہیں بلکہ ان لوگوں کے جھوٹے عذر کے قبول کئے جانے سے ہمارا معاملہ موخر کر دینا ہے ۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے بخاری مسلم دونوں میں ہے ۔ الحمد اللہ اس حدیث میں اس آیت کی پوری اور صحیح تفسیر موجود ہے ۔ کہ تینوں بزرگ انصاری تھے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ایک روایت میں مرارہ بن ربیعہ کے بدلے ربیع بن مرارہ آیا ہے ۔ ایک میں ربیع بن مرار یا مرار بن ربیع ہے ۔ لیکن صحیح وہی ہے جو بخاری و مسلم میں ہے یعنی مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ ۔ ہاں زہری کی اوپر والی روایت میں جو یہ لفظ ہے کہ وہ دونوں بدری صحابی تھے جو حضرت کعب کی طرح چھوڑ دئیے گئے تھے یہ خطا ہے ۔ ان تینوں بزرگوں میں سے ایک بھی بدری نہیں واللہ اعلم ۔ چونکہ آیت میں ذکر تھا کہ کسی طرح ان بزرگوں نے صحیح سچا واقع کہہ دیا جس سے گو کچھ دنوں تک وہ رنج و غم میں رہے لیکن آخر سلامتی اور ابدی راحت ملی ۔ اس کے بعد ہی فرماتا ہے کہ اے مومنو سچ بولا کرو اور سچائی کو لازم پکڑے رہو سچوں میں ہو جاؤ تاکہ ہلاکت سے نجات پاؤ ، غم رنجم سے چھوٹ جاؤ ۔ مسند احمد میں ہے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لوگو سچائی کو لازم کر لو ، سچ بھلائی کی رہبری کرتا ہے اور بھلائی جنت کی رہبری کرتی ہے ۔ انسان کے سچ بولنے اور سچ پر کار بند رہنے سے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے ۔ جھوٹ سے بچو ۔ جھوٹ بولتے رہنے سے اللہ کے ہاں کذاب لکھ لیا جاتا ہے ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قصداً یا مذاقاً کسی حالت میں بھی جھوٹ انسان کے لائق نہیں ۔ کیونکہ اللہ مالک الملک فرماتا ہے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھی بن جاؤ ، پس کیا تم اس میں کسی کے لیے بھی رخصت پاتے ہو؟ بقول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سچوں سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں ۔ اگر سچوں کے ساتھ بننا چاہتے ہو تو دنیا میں بےرغبت رہو اور مسلمانوں کو نہ ستاؤ ۔