Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
لَـقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِىِّ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ الَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُ فِىۡ سَاعَةِ الۡعُسۡرَةِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا كَادَ يَزِيۡغُ قُلُوۡبُ فَرِيۡقٍ مِّنۡهُمۡ ثُمَّ تَابَ عَلَيۡهِمۡ‌ؕ اِنَّهٗ بِهِمۡ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌۙ ‏ ﴿117﴾
اللہ تعالٰی نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی ۔ بلاشبہ اللہ تعالٰی ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے ۔
لقد تاب الله على النبي و المهجرين و الانصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم ثم تاب عليهم انه بهم رءوف رحيم
Allah has already forgiven the Prophet and the Muhajireen and the Ansar who followed him in the hour of difficulty after the hearts of a party of them had almost inclined [to doubt], and then He forgave them. Indeed, He was to them Kind and Merciful.
Allah Taalaa ney payghumber kay haal per tawajja farmaee aur mohajreen aur ansaar kay haal per bhi jinhon ney aisi tangi kay waqt payghumbar ka sath diya iss kay baad kay inn mein say aik giroh kay dilon mein kuch tazalzul ho chala tha. Phir Allah ney unn kay haal per tawajja farmaee. Bila shuba Allah Taalaa inn sab per boht hi shafiq meharban hai.
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے رحمت کی نظر فرمائی ہے نبی پر ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے ایسی مشکل کی گھڑی میں نبی کا ساتھ دیا ، ( ٩٣ ) جبکہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ڈگمگا جائیں ، پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی ۔ یقینا وہ ان کے لیے بہت شفیق ، بڑا مہربان ہے ۔
بیشک اللہ کی رحمتیں متوجہ ہوئیں ان غیب کی خبریں بتانے والے اور ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے مشکل کی گھڑی میں ان کا ساتھ دیا ( ف۲۷۳ ) بعد اس کے کہ قریب تھا کہ ان میں کچھ لوگوں کے دل پھر جائیں ( ف۲۷٤ ) پھر ان پر رحمت سے متوجہ ہوا ( ف۲۷۵ ) بیشک وہ ان پر نہایت مہربان رحم والا ہے
اللہ نے معاف کر دیا نبی کو اور ان مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبی کا ساتھ دیا ۔ 115 اگرچہ ان میں سے کچھ لوگوں کے دل کَجی کی طرف مائل ہو چلے تھے ، 116 ﴿مگر جب انہوں نے اس کجی کا اتباع نہ کیا بلکہ نبی کا ساتھ ہی دیا تو ﴾ اللہ نے انہیں معاف کر دیا 117 ، بےشک اس کا معاملہ ان لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا ہے ۔
یقیناً اﷲ نے نبی ( معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر رحمت سے توجہ فرمائی اور ان مہاجرین اور انصار پر ( بھی ) جنہوں نے ( غزوۂ تبوک کی ) مشکل گھڑی میں ( بھی ) آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پیروی کی اس ( صورتِ حال ) کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل پھر جاتے ، پھر وہ ان پر لطف و رحمت سے متوجہ ہوا ، بیشک وہ ان پر نہایت شفیق ، نہایت مہربان ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :115 یعنی غزوہ تبوک کے سلسلہ میں جو چھوٹی چھوٹی لغزشیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے ہوئیں ان سب کو اللہ نے ان کی اعلیٰ خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے معاف فرما دیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو لغزش ہوئی تھی اس کا ذکر آیت ٤۳ میں گزر چکا ہے ، یعنی یہ کہ جن لوگوں نے استطاعت رکھنے کے باوجود جنگ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت مانگی تھی ان کو آپ نے اجادت دے دی تھی ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :116 یعنی بعض مخلص صحابہ بھی اس سخت وقت میں جنگ پر جانے سے کسی نہ کسی حد تک جی چرانے لگے تھے ، مگر چونکہ ان کے دلوں میں ایمان تھا اور وہ سچے دل سے دین حق کے ساتھ محبت رکھتے تھے اس لیے آخرکار وہ اپنی اس کمزوری پر غالب آگئے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :117 یعنی اب اللہ اس بات پر ان سے مؤاخذہ نہ کرے گا کہ ان کے دلوں میں کجی کی طرف یہ میلان کیوں پیدا ہوا تھا ۔ اس لیے کہ اللہ اس کمزوری پر گرفت نہیں کرتا جس کی انسان نے خود اصلاح کر لی ہو ۔
تپتے صحرا ، شدت کی پاس اور مجاہدین سرگرم سفر مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت جنگ تبوک کے بارے میں اتری ہے اس جنگ میں جانے کے وقت سال بھی قحط کا تھا ، گرمیوں کا موسم تھا ، کھانے پینے کی کمی تھی ، راستوں میں پانی نہ تھا ۔ شام کے ملک تک کا دور دراز کا سفر تھا ۔ سامان رسد کی اتنی کمی کہ دو دو آدمیوں میں ایک ایک کھجور بٹتی تھی ۔ پھر تو یہ ہو گیا تھا کہ ایک کھجور ایک جماعت کو ملتی یہ چوس کر اسے دیتا وہ اور کو اور ایک ایک چوس کر پانی پی لیتا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ان پر لازم کر دی اور انہیں واپس لایا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب اس سختی کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ۔ سخت گرمیوں کے زمانے میں ہم نگلنے کو تھے ، ایک منزل میں تو پیاس کے مارے ہماری گردنیں ٹوٹنے لگیں یہاں تک کہ لوگ اپنے اونٹوں کو ذبح کر کے اس کی اوجھڑی نچوڑ کر اس پانی کو پیتے اور پھر اسے اپنے کلیجے سے لگا لیتے اس وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو ہمیشہ ہی قبول فرمایا ہے ۔ اب بھی دعا کیجئے کہ اللہ قبول فرمائے آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کی اس وقت آسمان پر ابر چھا گیا اور برسنے لگا اور خوب برسا جس کے پاس جتنے برتن تھے سب بھر لیے پھر بارش رک گئی اب جو ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے لشکر کے احاطے سے باہر ایک قطرہ بھی کہیں نہیں برسا تھا ۔ پس اس جہاد میں جنہوں نے روپے پیسے سے ، سواری سے ، خوراک سے ، سامان رسد اور ہتھیار سے پانی وغیرہ سے غرض کسی طرح بھی مومنوں کی مدد کی تھی ، ان کی فضیلت و برتری بیان ہو رہی ہے ۔ یہی وہ وقت تھا کہ بعض کے دل پھر جانے کے قریب ہو گئے تھے ۔ مشقت شدت اور بھوک پیاس نے دلوں کو ہلا دیا تھا ، مسلمان جھنجھوڑ دیئے گئے تھے لیکن رب نے انہیں سنبھال لیا اور اپنی طرف جھکا لیا اور ثابت قدمی عطا فرما کر خود بھی ان پر مہربان ہوگیا ، اللہ تعالیٰ جیسی رافعت و رحمت اور کس کی ہے؟ وہ ان پر خوب ہی رحمت و کرم رکھتا ہے ۔