Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَاِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَةٌ نَّظَرَ بَعۡضُهُمۡ اِلٰى بَعۡضٍؕ هَلۡ يَرٰٮكُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوۡا‌ ؕ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوۡبَهُمۡ بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿127﴾
جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں کہ تم کو کوئی دیکھتا تو نہیں پھر چل دیتے ہیں اللہ تعالٰی نے ان کا دل پھیر دیا اس وجہ سے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں ۔
و اذا ما انزلت سورة نظر بعضهم الى بعض هل يرىكم من احد ثم انصرفوا صرف الله قلوبهم بانهم قوم لا يفقهون
And whenever a surah is revealed, they look at each other, [saying], "Does anyone see you?" and then they dismiss themselves. Allah has dismissed their hearts because they are a people who do not understand.
Aur jab koi surat nazil ki jati hai to aik doosray ko dekhney lagtay hain kay tum ko koi dekhta to nahi phir chal detay hain Allah Taalaa ney inn ka dil pher diya hai iss waja say kay woh bey samajh log hain.
اور جب کبھی کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو یہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں ( اور اشاروں میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں ) کہ کیا کوئی تمہیں دیکھ تو نہیں رہا؟ پھر وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں ۔ ( ١٠٥ ) اللہ نے ان کا دل پھیر دیا ہے ، کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ سمجھ سے کام نہیں لیتے ۔
اور جب کوئی سورت اترتی ہے ان میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگتا ہے ( ف۳۰۲ ) کہ کوئی تمہیں دیکھتا تو نہیں ( ف۳۰۳ ) پھر پلٹ جاتے ہیں ( ف۳۰٤ ) اللہ نے ان کے دل پلٹ دیئے ہیں ( ف۳۰۵ ) کہ وہ ناسمجھ لوگ ہیں ( ف۳۰٦ )
جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو یہ لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں کہ کہیں کوئی تم کو دیکھ تو نہیں رہا ہے ، پھر چپکے سے نکل بھاگتے ہیں ۔ 126 اللہ نے ان کے دل پھیر دیے ہیں کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں ۔ 127
اورجب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں ، ( اور اشاروں سے پوچھتے ہیں ) کہ کیا تمہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر وہ پلٹ جاتے ہیں ۔ اللہ نے ان کے دلوں کو پلٹ دیا ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :126 قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی سورۃ نازل ہوتی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے اجتماع کا اعلان کراتے اور پھر مجمع عام میں اس سورہ کو خطبے کے طور پر سناتے تھے ۔ اس محفل میں اہل ایمان کا حال تو یہ ہوتا تھا کہ ہمہ تن گوش ہو کر اس خطبے کو سنتے اور اس میں مستغرق ہو جاتے تھے ، لیکن منافقین کا رنگ ڈھنگ کچھ اور تھا ۔ وہ آ تو اس لیے جاتے تھے کہ حاضری کا حکم تھا اور اجتماع میں شریک نہ ہونے کے معنی اپنی منافقت کا راز خود فاش کر دینے کے تھے ۔ مگر اس خطبے سے ان کو کوئی دلچسپی نہ ہوتی تھی ۔ نہایت بددلی کے ساتھ اکتائے ہوئے بیٹھے رہتے تھے اور اپنے آپ کو حاضرین میں شمار کرا لینے کے بعد انہیں بس یہ فکر لگی رہتی تھی کہ کسی طرح جلدی سے جلدی یہاں سے بھاگ نکلیں ۔ ان کی اسی حالت کی تصویر یہاں کھینچی گئی ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :127 یعنی یہ بے وقوف خود اپنے مفاد کو نہیں سمجھتے ۔ اپنی فلاح سے غافل اور اپنی بہتری سے بے فکر ہیں ۔ ان کو احساس نہیں ہے کہ کتنی بڑی نعمت ہے جو اس قرآن اور اس پیغمبر کے ذریعے سے ان کو دی جا رہی ہے ۔ اپنی چھوٹی سی دنیا اور اس کی نہایت گھٹیا قسم کی دلچسپیوں میں یہ کنویں کے مینڈک ایسے غرق ہیں کہ اس عظیم الشان علم اور اس زبردست رہنمائی کی قدر و قیمت ان کی سمجھ میں نہیں آتی جس کی بدولت یہ ریگستان عرب کے اس تنگ و تاریک گوشے سے اٹھ کر تمام عالم انسانی کے امام و پیشوا بن سکتے ہیں اور اس فانی دنیا ہی میں نہیں بلکہ بعد کی لازوال ابدی زندگی میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرفراز ہو سکتے ہیں ۔ اس نادانی و حماقت کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں استفادہ کی توفیق سے محروم کر دیا ہے ۔ جب فلاح و کامرانی اور قوت و عظمت کا یہ خزانہ مفت لٹ رہا ہوتا ہے اور خوش نصیب لوگ اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوتے ہیں اس وقت ان بد نصیبوں کے دل کسی اور طرف متوجہ ہوتے ہیں اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی کہ کس دولت سے محروم رہ گئے ۔