Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
اَوَلَا يَرَوۡنَ اَنَّهُمۡ يُفۡتَـنُوۡنَ فِىۡ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوۡ مَرَّتَيۡنِ ثُمَّ لَا يَتُوۡبُوۡنَ وَلَا هُمۡ يَذَّكَّرُوۡنَ‏ ﴿126﴾
اور کیا ان کو نہیں دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں ۔
او لا يرون انهم يفتنون في كل عام مرة او مرتين ثم لا يتوبون و لا هم يذكرون
Do they not see that they are tried every year once or twice but then they do not repent nor do they remember?
Aur kiya inn ko nahi dikhlaee deta kay yeh log her saal aik baar ya do baar kissi na kissi aafat mein phanstay rehtay hain phir bhi na toba kertay aur na naseehat qabool kertay hain.
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ وہ ہر سال ایک دو مرتبہ کسی آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں ، ( ١٠٤ ) پھر بھی نہ وہ توبہ کرتے ہیں ، اور نہ کوئی سبق حاصل کرتے ہیں ؟
کیا انہیں ( ف۳۰۰ ) نہیں سوجھتا کہ ہر سال ایک یا دو بار آزمائے جاتے ہیں ( ف۳۰۱ ) پھر نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت مانتے ہیں ،
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ؟ 125 مگر اس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں ۔
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال میں ایک بار یا دو بار مصیبت میں مبتلا کئے جاتے ہیں پھر ( بھی ) وہ توبہ نہیں کرتے اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :125 یعنی کوئی سال ایسا نہیں گزر رہا ہے جبکہ ایک دو مرتبہ ایسے حالات نہ پیش آجاتے ہوں جن میں ان کا دعوائے ایمان آزمائش کی کسوٹی پر کسا نہ جاتا ہو اور اس کی کھوٹ کا راز فاش نہ ہو جاتا ہو ۔ کبھی قرآن میں کوئی ایسا حکم آجاتا ہے جس سے ان کی خواہشات نفس پر کوئی نئی پابندی عائد ہو جاتی ہے ، کبھی دین کا کوئی ایسا مطالبہ سامنے آجاتا ہے جس سے ان کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے ، کبھی کوئی اندرونی قضیہ ایسا رونما ہو جاتا ہے جس میں یہ امتحان مضمر ہوتا ہے کہ ان کو اپنے دنیوی تعلقات اور اپنے شخصی و خاندانی اور قبائلی دلچسپیوں کی بہ نسبت خدا اور اس کا رسول اور اس کا دین کس قدر عزیز ہے ۔ ، کبھی کوئی جنگ ایسی پیش آجاتی ہے جس میں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ یہ جس دین پر ایمان لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں ان کی خاطر جان ، مال ، وقت اور محنت کا کتنا ایثار کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ ایسے تمام مواقع پر صرف یہی نہیں کہ منافقت کی وہ گندگی جو ان کے جھوٹے اقرار کے نیچے چھپی ہوئی ہے کھل کر منظر عام پر آجاتی ہے بلکہ ہر مرتبہ جب یہ ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر بھاگتے ہیں تو ان کے اندر کی گندگی پہلے سے کچھ زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔
عذاب سے دوچار ہو نے کے بعد بھی منافق باز نہیں آتا یہ منافق اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ہر سال دو ایک دفعہ ضروری وہ کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کئے جاتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی انہیں اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے نہ آئندہ کے لیے عبرت ہوتی ہے ۔ کبھی قحط سالی ہے کبھی جنگ ہے ، کبھی جھوٹی گپیں ہیں جن سے لوگ بےچین ہو رہے ہیں ۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کاموں میں سختی بڑھ رہی ہے ۔ بخیلی عام ہو رہی ہے ۔ ہر سال اپنے سے پہلے کے سال سے بد آرہا ہے ۔ جب کوئی سورت اترتی ہے ایک دوسرے کی طرف دیکھتا ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ؟ پھر حق سے پلٹ جاتے ہیں نہ حق کو سمجھیں نے مانیں وعظ سے منہ پھیرلیں اور ایسے بھاگیں جیسے گدھا شیر سے ۔ حق کو سنا اور دائیں بائیں کھسک گئے ۔ ان کی اس بے ایمانی کا بدلہ یہی ہے کہ اللہ نے ان کے دل بھی حق سے پھیر دیئے ۔ ان کی کجی نے ان کے دل بھی ٹیرھے کر دیئے ۔ یہ بدلہ ہے اللہ کے خطاب کو بےپروا ہی کر کے نہ سمجھنے کا اس سے بھاگنے اور منہ موڑ لینے کا