Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
وَلَقَدۡ اَهۡلَـكۡنَا الۡـقُرُوۡنَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا ‌ ۙ وَجَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ وَمَا كَانُوۡا لِيُـؤۡمِنُوۡا ‌ ؕ كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡقَوۡمَ الۡمُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿13﴾
اور ہم نے تم سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کر دیا جب کہ انہوں نے ظلم کیا حالانکہ ان کے پاس ان کے پیغمبر بھی دلائل لے کر آئے اور وہ ایسے کب تھے کہ ایمان لے آتے؟ ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ۔
و لقد اهلكنا القرون من قبلكم لما ظلموا و جاءتهم رسلهم بالبينت و ما كانوا ليؤمنوا كذلك نجزي القوم المجرمين
And We had already destroyed generations before you when they wronged, and their messengers had come to them with clear proofs, but they were not to believe. Thus do We recompense the criminal people
Aur hum ney tum say pehlay boht say girohon ko halak ker diya jabkay unhon ney zulm kiya halankay unn kay pass unn kay payghumber bhi dalaeel ley ker aaye aur woh aisay kab thay kay eman ley aatay? Hum mujrim logon ko aisi hi saza diya kertay hain.
اور ہم نے تم سے پہلے ( کئی ) قوموں کو اس موقع پر ہلاک کیا جب انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا تھا ، اور ا ن کے پیغمبر ان کے پاس روشن دلائل لے کر آئے تھے ، اور وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے ، ایسے مجرم لوگوں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔
اور بیشک ہم نے تم سے پہلی سنگتیں ( قومیں ) ( ف۲۷ ) ہلاک فرمادیں جب وہ حد سے بڑھے ( ف۲۸ ) اور ان کے رسول ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے ( ف۲۹ ) اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لاتے ، ہم یونہی بدلہ دیتے ہیں مجرموں کو ،
لوگو ، تم سے پہلے کی قوموں کو 16 ﴿ جو اپنے اپنے زمانہ میں برسرِ عروج تھیں﴾ ہم نے ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کی روِش 17 اختیار کی اور ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے اور انہوں نے ایمان لاکر ہی نہ دیا ۔ اس طرح ہم مجرموں کو ان کے جرائم کا بدلہ دیا کرتے ہیں ۔
اور بیشک ہم نے تم سے پہلے ( بھی بہت سی ) قوموں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا ، اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے ہی نہ تھے ، اسی طرح ہم مجرم قوم کو ( ان کے عمل کی ) سزا دیتے ہیں
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :16 اصل میں لفظ ”قرن“ استعمال ہوا ہے جس سے مراد عام طور پر تو عربی زبان میں ایک ”عہد کے لوگ“ ہوتے ہیں ، لیکن قرآن مجید میں جس انداز سے مختلف مواقع پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ”قرن“ سے مراد وہ قوم ہے جو اپنے دور میں برسر عروج اور کلی یا جزئی طور پر امامت عالم پر سرفراز رہی ہو ۔ ایسی قوم کی ہلاکت لازما یہی معنی نہیں رکھتی کہ اس کی نسل کو بالکل غارت ہی کر دیا جائے ۔ بلکہ اس کا مقام عروج و امارت سے گرا دیا جانا ، اس کی تہذیب و تمدن کا تباہ ہو جانا ، اس کے تشخص کا مٹ جانا اور اس کے اجزاء کا پارہ پارہ ہو کر دوسری قوموں میں گم ہو جانا ، یہ بھی ہلاکت ہی کی ایک صورت ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :17 یہ لفظ ظلم ان محدود معنوں میں نہیں ہے جو عام طور پر اس سے مراد لیے جاتے ہیں ، بلکہ یہ ان تمام گناہوں پر حاوی ہے جو انسان بندگی کی حد سے گزر کر کرتا ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ٤۹ ) ۔
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ سابقہ اقوام پر تکذیب رسول کی وجہ سے عذاب آئے تہس نہس ہوگئے ۔ اب تم ان کے قائم مقام ہو اور تمہارے پاس بھی افضل الرسل آچکے ہیں ۔ اللہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے اعمال کی کیا کیفیت رہتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی ، مزے کی ، سبز رنگ والی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ دنیا سے ہوشیار رہو ۔ اور عورتوں سے ہوشیار رہو ۔ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی آیا تھا ۔ ( مسلم ) حضرت عوف بن مالک نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک رسی لٹکائی گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے مکمل تھام لیا ، پھر لٹکائی گئی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح اسے مضبوطی سے تھام لیا ۔ پھر منبر کے ارد گرد لوگوں نے ناپنا شروع کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تین ذراع بڑھ گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خواب سن کر فرمایا بس ہٹاؤ بھی ۔ ہمیں خوابوں کیا حاجت؟ پھر اپنی خلافت کے زمانے میں عمر فاروق نے کہا عوف تمہارا خواب کیا تھا ؟ حضرت عوف نے کہا جانے دیجئے ۔ جب آپ کو اس کی ضرورت ہی نہیں ۔ آپ نے جب مجھے ڈانٹ دیا پھر اب کیوں پوچھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اس وقت تو تم خلیفۃالرسول کو ان کی موت کی خبر دے رہے تھے ۔ اب بیان کرو انہوں نے بیان کیا ۔ تو آپ نے فرمایا لوگوں کا منبر کی طرف تین ذراع پانا یہ تھا کہ ایک تو خلیفہ برحق تھا ۔ دوسرے خلیفہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بالکل بےپرواہ تھا ۔ تیسرا خلیفہ شہید ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر ہم نے تمہیں خلیفہ بنایا کہ ہم تمہارے اعمال دیکھیں ۔ اے عمر کی ماں کے لڑکے تو خلیفہ بنا ہوا ہے ۔ خوب دیکھ بھال لے کہ کیا کیا عمل کر رہا ہے؟ آپ کا فرمان کہ میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا سے مراد ان چیزوں میں ہے جو اللہ چاہے ۔ شہید ہو نے سے مراد یہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اس وقت مسلمان آپ کی مطیع و فرمانبردار تھے ۔