Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ‌ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَيۡرِ هٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡهُ‌ ؕ قُلۡ مَا يَكُوۡنُ لِىۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَهٗ مِنۡ تِلۡقَآئِ نَـفۡسِىۡ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوۡحٰۤى اِلَىَّ‌ ۚ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَيۡتُ رَبِّىۡ عَذَابَ يَوۡمٍ عَظِيۡمٍ‏ ﴿15﴾
اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں جو بالکل صاف صاف ہیں تو یہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کی امید نہیں ہے یوں کہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا قرآن لائیے یا اس میں کچھ ترمیم کر دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں بس میں تو اسی کا اتباع کرونگا جو میرے پاس وحی کے ذریعے سے پہنچا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں ۔
و اذا تتلى عليهم اياتنا بينت قال الذين لا يرجون لقاءنا ات بقران غير هذا او بدله قل ما يكون لي ان ابدله من تلقا نفسي ان اتبع الا ما يوحى الي اني اخاف ان عصيت ربي عذاب يوم عظيم
And when Our verses are recited to them as clear evidences, those who do not expect the meeting with Us say, "Bring us a Qur'an other than this or change it." Say, [O Muhammad], "It is not for me to change it on my own accord. I only follow what is revealed to me. Indeed I fear, if I should disobey my Lord, the punishment of a tremendous Day."
Aur jab inn kay samney humari aayaten parhi jati hain jo bilkul saaf saaf hain to yeh log jin ko humaray pass aaney ki umeed nahi hai yun kehtay hain kay iss kay siwa koi doosra quran layiye ya iss mein kuch tarmeem ker dijiye. Aap keh dijiye kay mujhay yeh haq nahi kay mein apni taraf say iss mein tarmeem kerdoon bus mein to issi ki ittabaa keroon ga jo meray pass wahee kay zariye say phoncha hai agar mein apney rab ki na farmani keroon to mein aik baray din kay azab ka andesha rakhta hun.
اور وہ لوگ جو ( آخرت میں ) ہم سے آملنے کی توقع نہیں رکھتے جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں ، جبکہ وہ بالکل واضح ہوتی ہیں ، تو وہ یہ کہتے ہیں کہ :‘‘ یہ نہیں ، کوئی اور قرآن لے کر آؤ ، یا اس میں تبدیلی کرو ’’ ۔ ( اے پیغمبر ) ان سے کہہ دو کہ :‘‘ مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کروں ۔ میں تو کسی اور چیز کی نہیں ، صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ اگر کبھی میں اپنے رب کی نافرمانی کر بیٹھوں تو مجھے ایک زبردست دن کے عذاب کا خوف ہے ۔
اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں ( ف۳۱ ) پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں جنہیں ہم سے ملنے کی امید نہیں ( ف۳۲ ) کہ اس کے سوا اور قرآن لے آیئے ( ف۳۳ ) یا اسی کو بدل دیجیے ( ف۳٤ ) تم فرماؤ مجھے نہیں پہنچتا کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں میں تو اسی کا تابع ہوں جو میری طرف وحی ہوتی ہے ( ف۳۵ ) میں اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں ( ف۳٦ ) تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے ( ف۳۷ )
جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو ۔ 19 اے محمد ، ان سے کہو میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیّر و تبدّل کرلوں ، میں تو بس اس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے ۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے ۔ 20
اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ، کہتے ہیں کہ اس ( قرآن ) کے سوا کوئی اور قرآن لے آئیے یا اسے بدل دیجئے ، ( اے نبیِ مکرّم! ) فرما دیں: مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں ، میں تو فقط جو میری طرف وحی کی جاتی ہے ( اس کی ) پیروی کرتا ہوں ، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بیشک میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :19 ان کا یہ قول اول تو اس مفروضے پر مبنی تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ پیش کر رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے دماغ کی تصنیف ہے ، اور اس کو خدا کی طرف منسوب کر کے انہوں نے صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ ان کی بات کا وزن بڑھ جائے ۔ دوسرے ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ تم نے توحید اور آخرت اور اخلاقی پابندیوں کی بحث کیا چھیڑ دی ، اگر رہنمائی کے لیے اٹھے ہو تو کوئی ایسی چیز پیش کرو جس سے قوم کا بھلا ہو اور اس کی دنیا بنتی نظر آئے ۔ تا ہم اگر تم اپنی اس دعوت کو بالکل نہیں بدلنا چاہتے تو کم از کم اس میں اتنی لچک ہی پیدا کرو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کم و بیش پر مصالحت ہو سکے ۔ کچھ ہم تمہاری مانیں ، کچھ تم ہماری مان لو ۔ تمہاری توحید میں کچھ ہمارے شرک کے لیے ، تمہاری خدا پرستی میں کچھ ہماری نفس پرستی اور دنیا پرستی کے لیے اور تمہارے عقیدہ آخرت میں کچھ ہماری ان امیدوں کے یے بھی گنجائش نکلنی چاہیے کہ دنیا میں ہم جو چاہیں کرتے رہیں ، آخرت میں ہماری کسی نہ کسی طرح نجات ضرور ہو جائے ۔ پھر تمہارے یہ قطعی اور حتمی اخلاقی اصول بھی ہمارے لیے ناقابل قبول ہیں ۔ ان میں کچھ ہمارے تعصبات کے لیے ، کچھ ہمارے رسم و رواج کے لیے ، کچھ ہماری شخصی اور قومی اغراض کے لیے ، اور کچھ ہماری خواہشات نفس کے لیے بھی جگہ نکلنی چاہیے ، کیوں نہ ایسا ہو کہ دین کے مطالبات کا ایک مناسب دائرہ ہماری اور تمہاری رضامندی سے طے ہو جائے اور اس میں ہم خدا کا حق ادا کر دیں ۔ اس کے بعد ہمیں آزاد چھوڑ دیا جائے کہ جس جس طرح اپنی دنیا کے کام چلانا چاہتے ہیں چلائیں ۔ مگر تم یہ غضب کر رہے ہو کہ پوری زندگی کو اور سارے معاملات کو توحید و آخرت کے عقیدے اور شریعت کے ضابطہ سے کس دینا چاہتے ہو ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :20 یہ اوپر کی دونوں باتوں کا جواب ہے ۔ اس میں یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ وحی کے ذریعہ سے میرے پاس آئی ہے جس میں کسی ردوبدل کا مجھے اختیار نہیں ۔ اور یہ بھی کہ اس معاملہ میں مصالحت کا قطعا کوئی امکان نہیں ہے ، قبول کرنا ہو تو اس پورے دین کو جوں کا توں قبول کرو ورنہ پورے کو رد کر دو ۔
کفار کی بدترین حجتیں مکے کے کفار کا بغض دیکھئے قرآن سن کر کہنے لگے ، اسے تو بدل لا ، بلکہ کوئی اور ہی لا ۔ تو جواب دے کہ یہ میرے بس کی بات نہیں میں تو اللہ کا غلام ہوں اس کا رسول ہوں اس کا کہا کہتا ہوں ۔ اگر میں ایسا کروں تو قیامت کے عذاب کا مجھے ڈر ہے ۔ دیکھو اس بات کی دلیل یہ کیا کم ہے؟ کہ میں ایک بےپڑھا لکھا شخص ہوں تم لوگ استاد کلام ہو لیکن پھر بھی اس کا معارضہ اور مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ میری صداقت و امانت کے تم خود قائل ہو ۔ میری دشمنی کے باوجود تم آج تک مجھ پر انگلی ٹکا نہیں سکتے ۔ اس سے پہلے میں تم میں اپنی عمر کا بڑا حصہ گزار چکا ہوں ۔ کیا پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے؟ شاہ روم ہرقل نے ابو سفیان اور ان کے ساتھیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں دریافت کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی تم نے اسے جھوٹ کی تہمت لگائی ہے؟ تو اسے باوجود دشمن اور کافر ہو نے کے کہنا پڑا کہ نہیں ، یہ ہے آپ کی صداقت جو دشمنوں کی زبان سے بھی بےساختہ ظاہر ہوتی تھی ۔ ہرقل نے نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کیسے مان لوں کہ لوگوں کے معاملات میں تو جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لے ۔ حضرت جعفر بن ابو طالب نے دربار نجاشی میں شاہ حبش سے فرمایا تھا ہم میں اللہ نے جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے ہم اس کی صدقت امانت نسب وغیرہ سب کچھ جانتے ہیں وہ نبوت سے پہلے ہم میں چالیس سال گزار چکے ہیں ۔ سعید بن مسیب سے تنتالیس سال مروی ہیں لیکن مشہور قول پہلا ہی ہے ۔