Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
قُلْ لَّوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوۡتُهٗ عَلَيۡكُمۡ وَلَاۤ اَدۡرٰٮكُمۡ بِهٖ ‌ۖ  فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِيۡكُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِهٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿16﴾
آپ یوں کہہ دیجئے کہ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو نہ تو میں تم کو وہ پڑھ کر سناتا اور نہ اللہ تعالٰی تم کو اس کی اطلاع دیتا کیونکہ میں اس سے پہلے تو ایک بڑے حصہ عمر تک تم میں رہ چکا ہوں ۔ پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔
قل لو شاء الله ما تلوته عليكم و لا ادرىكم به فقد لبثت فيكم عمرا من قبله افلا تعقلون
Say, "If Allah had willed, I would not have recited it to you, nor would He have made it known to you, for I had remained among you a lifetime before it. Then will you not reason?"
Aap yun keh dijiye kay agar Allah ko manzoor hota to na to mein tum ko woh parh ker sunata aur na Allah Taalaa tum ko iss ki itlaa deta kiyon kay mein iss say pehlay to aik baray hissay umar tak mein tum mein reh chuka hun. Phir kiya tum aqal nahi rakhtay.
کہہ دو کہ :‘‘ اگر اللہ چاہتا تو میں اس قرآن کو تمہارے سامنے نہ پڑھتا ، اور نہ اللہ تمہیں اس سے واقف کراتا ( ٦ ) ۔ آخر اس سے پہلے بھی تو میں ایک عمر تمہارے درمیان بسر کرچکا ہوں ۔ کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ ( ٧ ) ۔
تم فرماؤ اگر اللہ چاہتا تو میں اسے تم پر نہ پڑھتا نہ وہ تم کو اس سے خبردار کرتا ( ف۳۸ ) تو میں اس سے پہلے تم میں اپنی ایک عمر گزار چکا ہوں ( ف۳۹ ) تو کیا تمہیں عقل نہیں ( ف٤۰ )
اور کہو اگر اللہ کی مشیّت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا ۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے 21 ؟
فرما دیجئے: اگر اللہ چاہتا تو نہ ہی میں اس ( قرآن ) کو تمہارے اوپر تلاوت کرتا اور نہ وہ ( خود ) تمہیں اس سے باخبر فرماتا ، بیشک میں اس ( قرآن کے اترنے ) سے قبل ( بھی ) تمہارے اندر عمر ( کا ایک حصہ ) بسر کرچکا ہوں ، سو کیا تم عقل نہیں رکھتے
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :21 یہ ایک زبردست دلیل ہے ان کے اس خیال کی تردید میں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو خود اپنے دل سے گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعوے کی تائید میں کہ وہ خود اس کے مصنف نہیں ہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے بذریعہ وحی ان پر نازل ہو رہا ہے ۔ دوسرے تمام دلائل تو پھر نسبتا دور کی چیز تھے ، مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو ان لوگوں کے سامنے کی چیز تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے پورے چالیس سال ان کے درمیان گزارے تھے ۔ ان کے شہر میں پیدا ہوئے ، ان کی آنکھوں کے سامنے بچپن گزرا ، جوان ہوئے ، ادھیڑ عمر کو پہنچے ۔ رہنا سہنا ، ملنا چلنا ، لین دین ، شادی بیاہ ، غرض ہر قسم کا معاشرتی تعلق انہی کے ساتھ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی پہلو ان سے چھپا ہوا نہ تھا ۔ ایسی جانی بوجھی اور دیکھی بھالی چیز سے زیادہ کھلی شہادت اور کیا ہو سکتی تھی ۔ آپ کی اس زندگی میں دو باتیں بالکل عیاں تھیں جنہیں مکہ کے لوگوں میں سے ایک ایک شخص جانتا تھا: ایک یہ کہ نبوت سے پہلے کی پوری چالیس سالہ زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی تعلیم ، تربیت اور صحبت نہیں پائی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ معلومات حاصل ہوتیں جن کے چشمے یکا یک دعوائے نبوت کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے پھوٹنے شروع ہو گئے ۔ اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مسائل سے دلچسپی لیتے ہوئے ، ان مباحث پر گفتگو کرتے ہوئے ، اور ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نہیں دیکھے گئے جو اب قرآن کی ان پے درپے سورتوں میں زیر بحث آرہے تھے ۔ حد یہ ہے کہ اس پورے چالیس سال کے دوران میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی گہرے دوست اور کسی قریب ترین رشتہ دار نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرکات و سکنات میں کوئی ایسی چیز محسوس نہیں کی جسے اس عظیم الشان دعوت کی تمہید کہا جا سکتا ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک چالیسویں سال کو پہنچ کر دینی شروع کر دی ۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت تھا کہ قرآن آپ کے اپنے دماغ کی پیداوار نہیں ہے ، بلکہ خارج سے آپ کے اندر آئی ہوئی چیز ہے ۔ اس لیے کہ انسانی دماغ اپنی عمر کے کسی مرحلے میں بھی ایسی کوئی چیز پیش نہیں کر سکتا جس کے نشونما اور ارتقاء کے واضح نشانات اس سے پہلے کے مرحلوں میں نہ پائے جاتے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ کے بعض چالاک لوگوں نے جب خود محسوس کر لیا کہ قرآن کو آپ کے دماغ کی پیداوار قرار دینا صریح طور پر ایک لغو الزام ہے تو آخر کو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ کوئی اور شخص ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باتیں سکھا دیتا ہے ۔ لیکن یہ دوسری بات پہلی بات سے بھی زیادہ لغو تھی ۔ کیونکہ مکہ تو درکنار ، پورے عرب میں کوئی اس قابلیت کا آدمی نہ تھا جس پر انگلی رکھ کر کہہ دیا جاتا کہ یہ اس کلام کا مصنف ہے یا ہو سکتا ہے ۔ ایسی قابلیت کا آدمی کسی سوسائٹی میں چھپا کیسے رہ سکتا ہے؟ دوسری بات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سابق زندگی میں بالکل نمایاں تھی ، وہ یہ تھی کہ جھوٹ ، فریب ، جعل ، مکاری ، عیاری اور اس قبیل کے دوسرے اوصاف میں سے کسی کا ادنیٰ شائبہ تک آپ کی سیرت میں نہ پایا جاتا تھا ۔ پوری سوسائٹی میں کوئی ایسا نہ تھا جو یہ کہہ سکتا ہو کہ اس چالیس سال کی یکجائی معاشرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ایسی صفت کا تجربہ اسے ہوا ہے ۔ برعکس اس کے جن جن لوگوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سابقہ پیش آیا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اک نہایت سچے ، بے داغ ، اور قابل اعتماد ( امین ) انسان کی حیثیت ہی سے جانتے تھے ۔ نبوت سے پانچ ہی سال پہلے تعمیر کعبہ کے سلسلہ میں وہ مشہور واقعہ پیش آچکا تھا جس میں حجر اسود کو نصب کرنے کے معاملہ پر قریش کے مختلف خاندان جھگڑ پڑے تھے اور آپ میں طے ہوا تھا کہ کل صبح پہلا شخص جو حرم میں داخل ہوگا اسی کو پنچ مان لیا جائے گا ۔ دوسرے روز وہ شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو وہاں داخل ہوئے ۔ آپ کو دیکھتے ہی سب لوگ پکار اٹھے ھذا الامین ، رضینا ، ھٰذا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ” یہ بالکل راستباز آدمی ہے ، ہم اس پر راضی ہیں ۔ یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے“ ۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مقرر کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ پورے قبیلہ قریش سے بھرے مجمع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ” امین“ ہونے کی شہادت لے چکا تھا ۔ اب یہ گمان کرنے کی کیا گنجائش تھی کہ جس شخص نے تمام عمر کبھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں بھی جھوٹ ، جعل اور فریب سے کام نہ لیا تھا وہ یکایک اتنا بڑا جھوٹ اور ایسا عظیم الشان جعل و فریب لے کر اٹھ کھڑا ہوا کہ اپنے ذہن سے کچھ باتیں تصنیف کیں اور ان کو پورے زور اور تحدی کے ساتھ خدا کی طرف منسوب کرنے لگا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان کے اس بیہودہ الزام کے جواب میں ان سے کہو کہ اللہ کے بندو ، کچھ عقل سے تو کام لو ، میں کوئی باہر سے آیا ہوا اجنبی آدمی نہیں ہوں ، تمہارے درمیان اس سے پہلے ایک عمر گزار چکا ہوں ، میری سابق زندگی کو دیکھتے ہوئے تم کیسے یہ توقع مجھ سے کر سکتے ہو کہ میں خدا کی تعلیم اور اس کے حکم کے بغیر یہ قرآن تمہارے سامنے پیش کر سکتا تھا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ قصص ، حاشیہ نمبر ۱۰۹ ) ۔