Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اُولٰٓٮِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنۡ رَّبِّهِمۡ‌ وَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ﴿5﴾
یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔
اولىك على هدى من ربهم و اولىك هم المفلحون
Those are upon [right] guidance from their Lord, and it is those who are the successful.
Yehi log apney rab ki taraf say hidayat per hain aur yehi log falah aur nijat paney walay hain.
یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے پروردگار کی طرف سے صحیح راستے پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں ۔
وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے ۔
ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔
وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں
ہدایت یافتہ لوگ یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا ، نماز قائم رکھنا ، اللہ کے دئیے ہوئے سے دینا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اترا اس پر ایمان لانا ، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا ، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لئے نیک اعمال کرنا ۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا ۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا ، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے ۔ ابن عباس نے ہدایت کی تفسیر نور اور استقامت سے کی ہے اور فلاح کی تفسیر اپنی چاہت کو پا لینے اور برائیوں سے بچ جانے کی ہے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور ، دلیل ، ثابت قدمی ، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات ، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں ۔ ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے اولئک کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کی صفت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے جیسے پہلے گزر چکا ۔ اس اعتبار سے آیت ( والذین یومنون بما انزل الیک ) الخ پہلے کی آیت سے جدا ہو گا اور مبتدا بن کر مرفوع ہو گا اور اس کی خبر آیت ( اولئک ھم المفلحون ) ہو گی لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں ۔ حضرت ابن عباس ، حضرت ابن مسعود اور بعض صحابہ سے مروی ہے کہ آیت ( یومنون بالغیب ) سے مراد عرب ایمان دار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں ۔ پھر دونوں کے لئے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں ۔ اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے واللہ اعلم ۔ مجاہد ، ابو العالیہ ، ربیع بن انس ، اور قتادہ سے یہی مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ حضور قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھاریں دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم نامید ہو جائیں ۔ آپ نے فرمایا لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتا دوں ۔ پھر آپ نے الم سے مفلحون تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں صحابہ نے خوش ہو کر فرمایا الحمد للہ ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں پھر آیت ( ان الذین کفروا ) سے عظیم تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں ۔ انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں آپ نے فرمایا ہاں ۔ ( ابن ابی حاتم )