Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوۡلٌ‌ ۚ فَاِذَا جَآءَ رَسُوۡلُهُمۡ قُضِىَ بَيۡنَهُمۡ بِالۡقِسۡطِ وَهُمۡ لَا يُظۡلَمُوۡنَ‏ ﴿47﴾
اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہے ، سو جب ان کا وہ رسول آچکتا ہے ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا ۔
و لكل امة رسول فاذا جاء رسولهم قضي بينهم بالقسط و هم لا يظلمون
And for every nation is a messenger. So when their messenger comes, it will be judged between them in justice, and they will not be wronged
Aur her ummat kay liye aik rasool hai so jab unn kay woh rasool aa chukta hai unn ka faisla insaf kay sath kiya jata hai aur unn per zulm nahi kiya jata.
اور ہر امت کے لیے ایک رسول بھیجا گیا ہے ، پھر جب ان کا رسول آجاتا ہے تو ان کا فیصلہ پورے انصاف سے کیا جاتا ہے ، اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا ۔
اور ہر امت میں ایک رسول ہوا ( ف۱۲۰ ) جب ان کا رسول ان کے پاس آتا ( ف۱۲۱ ) ان پر انصاف کا فیصلہ کردیا جاتا ( ف۱۲۲ ) اور ان پر ظلم نہیں ہوتا ،
ہر امّت کے لیے ایک رسول ہے 55 ، پھر جب کسی امّت کے پاس اس کا رسول آجاتا ہے تو اس کا فیصلہ پورے انصاف کے ساتھ چکا دیا جاتا ہے اور اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا ۔ 56
اور ہر امت کے لئے ایک رسول آتا رہا ہے ۔ پھر جب ان کا رسول ( واضح نشانیوں کے ساتھ ) آچکا ( اور وہ پھر بھی نہ مانے ) تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا گیا ، اور ( قیامت کے دن بھی اسی طرح ہوگا ) ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :55 ”امت“ کا لفظ یہاں محض قوم کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ ایک رسول کی آمد کے بعد اس کی دعوت جن جن لوگوں تک پہنچے وہ سب اس کی امت ہیں ۔ نیز اس کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ رسول ان کے درمیان زندہ موجود ہو ، بلکہ رسول کے بعد بھی جب تک اس کی تعلیم موجود رہے اور ہر شخص کے لیے یہ معلوم کرنا ممکن ہو کہ وہ درحقیقت کس چیز کی تعلیم دیتا تھا ، اس وقت تک دنیا کے سب لوگ اس کی امت ہی قرار پائیں گے اور ان پر وہ حکم ثابت ہو گا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے ۔ اس لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد تمام دنیا کے انسان آپ کی امت ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک قرآن اپنی خالص صورت میں شائع ہوتا رہے گا ۔ اسی وجہ سے آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ” ہر قوم میں ایک رسول ہے ” بلکہ ارشاد ہو اکہ ” ہر امت کے لیے ایک رسول ہے “ ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :56 اسرائیل کے معنی ہیں عبد اللہ یا بندہ خدا ۔ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ، جو ان کو اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہوا تھا ۔ وہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے ۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں ۔ پچھلے چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی ، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا ۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریر اس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی ہے جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکینِ عرب کی طرف بھی کلام کا رخ پھر گیا مطلب یہ ہے کہ رسول کی دعوت کا کسی گروہ انسانی تک پہنچنا گویا اس گروہ پر اللہ کی حجت کا پورا ہو جانا ہے ۔ اس کے بعد صرف فیصلہ ہی باقی رہ جاتا ہے ، کسی مزید اتمام حجت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ اور یہ فیصلہ غایت درجہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ رسول کی بات مان لیں اور اپنا رویہ درست کرلیں وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ اور جو اس کی بات نہ مانیں وہ عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں ، خواہ وہ عذاب دنیا اور آخرت دونوں میں دیا جائے یا صرف آخرت میں ۔