سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :90
جو لوگ حقیقت کو نہیں جانتے اور اللہ تعالی کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے وہ باطل کے مقابلہ میں حق کی کمزوری ، اور اقامت حق کے لیے سعی کرنے والوں کی مسلسل ناکامیاں اور ائمہ باطل کے ٹھاٹھ اور ان کی دنیوی سرفرازیاں دیکھ کر یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ تعالی کو یہی منظور ہے کہ اس کے باغی دنیا پر چھائے رہیں ، اور شاید حضرت حق خود ہی باطل کے مقابلہ میں حق کی تائید کرنا نہیں چاہتے ۔ پھر وہ نادان لوگ آخرکار اپنی بدگمانیوں کی بنا پر یہ نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اقامت حق کی سعی لاحاصل ہے اور اب مناسب یہی ہے کہ اس ذرا سی دینداری پر راضی ہو کر بیٹھ رہا جائے جس کی اجازت کفروفسق کی سلطانی میں مل رہی ہو ۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو اور ان کے پیرؤوں کو اسی غلطی سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ صبر کے ساتھ انہی ناموافق حالات میں کام کیے جاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بھی وہی غلط فہمی ہوجائے جو ایسے حالات میں جاہلوں اور نادانوں کو عموما لاحق ہو جایا کرتی ہے ۔