Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
‌وَقَالَ مُوۡسٰى رَبَّنَاۤ اِنَّكَ اٰتَيۡتَ فِرۡعَوۡنَ وَمَلَاَهٗ زِيۡنَةً وَّاَمۡوَالًا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ۙ رَبَّنَا لِيُضِلُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِكَ‌ۚ رَبَّنَا اطۡمِسۡ عَلٰٓى اَمۡوَالِهِمۡ وَاشۡدُدۡ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ فَلَا يُؤۡمِنُوۡا حَتّٰى يَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَ لِيۡمَ‏ ﴿88﴾
اور موسیٰ ( علیہ السلام ) نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے اے ہمارے رب! ( اسی واسطے دیئے ہیں کہ ) وہ تیری راہ سے گمراہ کریں ۔ اے ہمارے رب! انکے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ۔
و قال موسى ربنا انك اتيت فرعون و ملاه زينة و اموالا في الحيوة الدنيا ربنا ليضلوا عن سبيلك ربنا اطمس على اموالهم و اشدد على قلوبهم فلا يؤمنوا حتى يروا العذاب الاليم
And Moses said, "Our Lord, indeed You have given Pharaoh and his establishment splendor and wealth in the worldly life, our Lord, that they may lead [men] astray from Your way. Our Lord, obliterate their wealth and harden their hearts so that they will not believe until they see the painful punishment."
Aur musa ( alh-e-salam ) ney arz kiya aey humaray rab! Tu ney firaon ko aur uss kay sardaron ko saman-e-zeenat aur tarah tarah kay maal dunayawi zindagi mein diye. Aey humaray rab! ( issi wastay diye hain kay ) woh teri raah say gumrah keren. Aey humaray rab! Unn kay malon ko neest-o-nabood ker dey aur unn kay dilon ko sakht ker dey so yeh eman na laa payen yahan tak kay dard naak azab ko dekh len.
اور موسیٰ نے کہا : اے ہمارے پروردگار ! آپ نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیوی زندگی میں بڑی سج دھج اور مال و دولت بخشی ہے ، اے ہمارے پروردگار ! اس ‌كا ‌نتیجہ ‌یہ ‌ہورہا ‌ہے ‌كہ ‌وہ ‌لوگوں ‌كو ‌آپ ‌كے ‌راستے ‌سے ‌بھٹكا ‌رہے ‌ہیں ‌ ۔ ‌اے ‌ہمارے ‌پروردگار ! ان کے مال و دولت کو تہس نہس کردیجیے ، اور ان کے دلوں کو اتنا سخت کردیجیے کہ وہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ۔ ( ٣٥ )
اور موسیٰ نے عرض کی اے رب ہمارے تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو آرائش ( ف۱۸۵ ) اور مال دنیا کی زندگی میں دیے ، اے رب ہمارے! اس لیے کہ تیری راہ سے بہکادیں ، اے رب ہمارے! ان کے مال برباد کردے ( ف۱۸٦ ) اور ان کے دل سخت کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ( ف۱۸۷ )
موسیٰ نے دعا 86 کی اے ہمارے رب ، تونے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت 87 اور اموال 88 سے نواز رکھا ہے ۔ اے رب ، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے رب ، ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔ 89
اور موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا: اے ہمارے رب! بیشک تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیوی زندگی میں اسبابِ زینت اور مال و دولت ( کی کثرت ) دے رکھی ہے ، اے ہمارے رب! ( کیا تو نے انہیں یہ سب کچھ اس لئے دیا ہے ) تاکہ وہ ( لوگوں کو کبھی لالچ اور کبھی خوف دلا کر ) تیری راہ سے بہکا دیں ۔ اے ہمارے رب! تو ان کی دولتوں کو برباد کردے اور ان کے دلوں کو ( اتنا ) سخت کردے کہ وہ پھر بھی ایمان نہ لائیں حتٰی کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :86 اوپر کی آیات حضرت موسی علیہ السلام کی دعوت کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اور یہ دعا زمانہ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے کی ہے ۔ بیچ میں کئی برس کا طویل فاصلہ ہے جس کی تفصیلات کو یہاں نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ دوسرے مقامات پر قرآن میں اس بیچ کے دور کا بھی مفصل حال بیان ہوا ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :87 یعنی ٹھاٹھ ، شان وشوکت اور تمدن وتہذیب کی وہ خوش نمائی جس کی وجہ سے دنیا ان پر اور ان کے طور طریقوں پر ریجھتی ہے اور ہر شخص کا دل چاہتا ہے کہ ویسا ہی بن جائے جیسے وہ ہیں ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :88 یعنی ذرائع اور وسائل جن کی فراوانی کی وجہ سے وہ اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں رکھتے ہیں اور جن کے فقدان کی وجہ سے اہل حق اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے سے عاجز رہ جاتے ہیں ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :89 جیسا کہ ابھی ہم بتا چکے ہیں ، یہ دعا حضرت موسی علیہ السلام نے زمانہ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے میں کی تھی ، اور اس وقت کی تھی جب پے در پے نشانات دیکھ لینے اور دین کی حجت پوری ہوجانے کے بعد بھی فرعون اور اس کے اعان سلطنت حق کی دشمنی پر انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ جمے رہے ۔ ایسے موقع پر پیغمبر جو بددعا کرتا ہے وہ ٹھیک ٹھیک وہی ہوتی ہے جو کفر پر اصرار کرنے والوں کے بارے میں خود اللہ تعالی کا فیصلہ ہے ، یعنی یہ کہ پھر انہیں ایمان کی توفیق نہ بخشی جائے ۔
فرعون کا تکبر اور موسیٰ علیہ السلام کی بد دعا جب فرعون اور فرعونیوں کا تکبر ، تجبر ، تعصب بڑھتا ہی گیا ۔ ظلم و ستم بےرحمی اور جفا کاری انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ کے صابر نبیوں نے ان کے لیے بد دعا کی کہ یا اللہ تو نے انہیں دنیا کی زینت و مال خوب خوب دیا اور تو بخوبی جانتا ہے کہ وہ تیرے حکم کے مطابق مال خرچ نہیں کرتے ۔ یہ صرف تیری طرف سے انہیں ڈھیل اور مہلت ہے ۔ یہ مطلب تو ہے جب لیضلِّوا پڑھا جائے جو ایک قرأت ہے اور جب لِیُضِلُّوا پڑھیں تو مطلب یہ ہے کہ یہ اس لئے کہ وہ اوروں کو گمراہ کریں جن کی گمراہی تیری چاہت میں ہے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ یہی لوگ اللہ کے محبوب ہیں ورنہ اتنی دولت مندی اور اس قدر عیش و عشرت انہیں کیوں نصیب ہوتا ہے؟ اب ہمای دعا ہے کہ ان کے یہ مال تو غارت اور تباہ کر دے ۔ چنانچہ ان کے تمام مال اسی طرح پتھر بن گئے ۔ سونا چاندی ہی نہیں بلکہ کھیتیاں تک پتھر کی ہوگئیں حضرت محمد بن کعب اس سورہ یونس کی تلاوت امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے کر رہے تھے جب اس آیت تک پہنچے تو خلیفۃالمسلمین نے سوال کیا کہ یہ طمس کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا ان کے مال پتھر بنا دیئے گئے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا صندوقچہ منگوا کر اس میں سے سفید چنا نکال کر دکھایا جو پتھر بن گیا تھا ۔ اور دعا کی کہ پروردگار ان کے دل سخت کر دے ان پر مہر لگادے کہ انہیں عذاب دیکھنے تک ایمان لانا نصیب نہ ہو ۔ یہ بد دعا صرف دینی حمیت اور دینی دل سوزی کی وجہ سے تھی یہ غصہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر تھا ۔ جب دیکھ لیا اور مایوسی کی حد آگئی حضرت نوح علیہ السلام کی دعا ہے کہ الٰہی زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑ ورنہ اورں کو بھی بہکائیں گے اور جو نسل ان کی ہوگی وہ بھی انہیں جیسی بے ایمان بدکار ہوگی ۔ جناب باری نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں بھائیوں کی یہ دعا قبول فرمائی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے جاتے تھے اور حضرت ہارون علیہ السلام آمین کہتے جاتے تھے ۔ اسی وقت وحی آئی کہ ہماری یہ دعا مقبول ہو گئی سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ آمین کا کہنا بمنزلہ دعا کرنے کے ہے کیونکہ دعا کرنے والے صرف حضرت موسیٰ تھے آمین کہنے والے حضرت ہارون تھے لیکن اللہ نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی پس مقتدی کے آمین کہہ لینے سے گویا فاتحہ کا پڑھ لینے والا ہے ۔ پس اب تم دونوں بھائی میرے حکم پر مضبوطی سے جم جاؤ ۔ جو میں کہوں بجا لاؤ ۔ اسی دعا کے بعد فرعون چالیس ماہ زندہ رہا کوئی کہتا ہے چالیس دن ۔