Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
وَلَقَدۡ بَوَّاۡنَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ مُبَوَّاَ صِدۡقٍ وَّرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ‌ۚ فَمَا اخۡتَلَفُوۡا حَتّٰى جَآءَهُمُ الۡعِلۡمُ‌ؕ اِنَّ رَبَّكَ يَقۡضِىۡ بَيۡنَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ فِيۡمَا كَانُوۡا فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ‏ ﴿93﴾
اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں ۔ سو انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم پہنچ گیا یقینی بات ہے کہ آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان امور میں فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے ۔
و لقد بوانا بني اسراءيل مبوا صدق و رزقنهم من الطيبت فما اختلفوا حتى جاءهم العلم ان ربك يقضي بينهم يوم القيمة فيما كانوا فيه يختلفون
And We had certainty settled the Children of Israel in an agreeable settlement and provided them with good things. And they did not differ until [after] knowledge had come to them. Indeed, your Lord will judge between them on the Day of Resurrection concerning that over which they used to differ
Aur hum ney bani israeel ko boht acha thikana rehney ko diya aur hum ney unhen pakeezah cheezen khaney ko den. So unhon ney ikhtilaf nahi kiya yahan tak kay unn kay pass ilm phonch gaya. Yaqeeni baat hai kay aap ka rab unn kay darmiyan qayamat kay din unn umoor mein faisla ker dey ga jinn mein woh ikhtilaf kertay thay.
اور ہم نے بنو اسرائیل کو ایسی جگہ بسایا جو صحیح معنی میں بسنے کے لائق جگہ تھی ، اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق بخشا ۔ پھر انہوں نے ( دین حق کے بارے میں ) اس وقت تک اختلاف نہیں کیا جب تک ان کے پس علم نہیں آگیا ۔ ( ٣٧ ) یقین رکھو کہ جن باتوں میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے ، ان کا فیصلہ تمہارا پروردگار قیامت کے دن کرے گا ۔
اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ دی ( ف۱۹٦ ) اور انھیں ستھری روزی عطا کی تو اختلاف میں نہ پڑے ( ف۱۹۷ ) مگر علم آنے کے بعد ( ف۱۹۸ ) بیشک تمہارا رب قیامت کے دن ان میں فیصلہ کردے گا جس بات میں جھگڑتے تھے ( ف۱۹۹ )
ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانہ دیا 94 اور نہایت عمدہ وسائلِ زندگی انہیں عطا کیے ۔ پھر انہوں نے بہم اختلاف نہیں کیا مگر اس وقت جب کہ علم ان کے پاس آچکا تھا ۔ 95 یقیناً تیرا ربّ قیامت کے روز ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں وہ اختلاف کر تے رہے ہیں ۔
اور فی الواقع ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کے لئے عمدہ جگہ بخشی اور ہم نے انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا تو انہوں نے کوئی اختلاف نہ کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم و دانش آپہنچی ۔ بیشک آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان امور کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :94 یعنی مصر سے نکلنے کے بعد ارض فلسطین سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :95 مطلب یہ ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنے دین میں جو تفرقے برپا کیے اور نئے نئے مذہب نکالے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو حقیقت کا علم نہیں دیا گیا تھا اور ناواقفیت کی بنا پر انہوں نے مجبورا ایسا کیا ، بلکہ فی الحقیقت یہ سب کچھ ان کے اپنے نفس کی شرارتوں کا نتیجہ تھا ۔ خدا کی طرف سے تو انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ دین حق یہ ہے ، یہ اس کے اصول ہیں ، یہ اس کے تقاضے اور مطالبے ہیں ، یہ کفر واسلام کے امتیازی حدود ہیں ، طاعت اس کو کہتے ہیں ، معصیت اس کا نام ہے ، ان چیزوں کی بازپرس خدا کے ہاں ہونی ہے ، اور یہ وہ قواعد ہیں جن پر دنیا میں تمہاری زندگی قائم ہونی چاہیے ، مگر ان صاف صاف ہدایتوں کے باوجود انہوں نے ایک دین کے بیسیوں دین بنا ڈالے اور خدا کی دی ہوئی بنیادوں کو چھوڑ کر کچھ دوسری ہی بنیادوں پر اپنے مذہبی فرقوں کی عمارتیں کھڑی کرلیں ۔
بنی اسرائیل پر اللہ کے انعامات اللہ نے جو نعمتیں بنی اسرائیل پر انعام فرمائیں ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ شام اور ملک مصر میں بیت المقدس کے آپس پاس انہیں جگہ دی ۔ تمام و کمال ملک مصر پر ان کی حکومت ہوگئ ۔ فرعون کی ہلاکت کے بعد دولت موسویہ قائم ہوگئی ۔ جیسے قرآن میں بیان ہے کہ ہم نے ان کمزور بنی اسرائیلیوں کے مشرق مغرب کے ملک کا مالک کر دیا ۔ برکت والی زمین انکے قبضے میں دے دی اور ان پر اپنی سچی بات کی سچائی کھول دی ان کے صبر کا پھل انہیں مل گیا ۔ فرعون ، فرعونی اور ان کے کاریگریاں سب نیست و نابود ہوئیں اور آیتوں میں ہے کہ ہم نے فرعونیوں کو باغوں سے دشمنوں سے ، خزانوں سے بہترین مقامات اور مکانات سے نکال باہر کیا ۔ اور بنی اسرائیل کے قبضے میں یہ سب کچھ کر دیا ۔ اور آیتوں میں ہے ( كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ 25؀ۙ ) 44- الدخان:25 ) باوجود اس کے خلیل الرحمن علیہ السلام کے شہر بیت المقدس کی محبت ان کے دل میں چٹکیاں لیتی رہی ۔ وہاں عمالقہ کی قوم کا قبلہ تھا انہیوں نے اپنے پیغمبر علیہ السلام سے درخواست کی ، انہیں جہاد کا حکم ہوا یہ نامردی کر گئے جس کے بدلے انہیں چالیس سال تک میدان تیہ میں سرگرداں پھرنا پڑا ۔ وہیں حضرت ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ۔ ان کے بعد یہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے ساتھ نکلے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر بیت المقدس کو فتح کیا ۔ یہاں بخت نصر کے زمانے تک انہیں کا قبضہ رہا پھر کچھ مدت کے بعد دوبارہ انہوں نے اسے لے لیا پھر یونانی بادشاہوں نے وہاں قبضہ کیا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے تک وہاں یونانیوں کا ہی قبضہ رہا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ضد میں ان ملعون یہودیوں نے شاہ یونان سے ساز باز کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری کے احکام انہیں باغی قرار دے کر نکلوا دیئے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ السلام کو تو اپنی طرف چڑھا لیا اور آپ کے کسی حواری پر آپ کی شباہت ڈال دی انہوں نے آپ کے دھوکے میں اسے قتل کر دیا اور سولی پر لٹکا دیا ۔ یقینا جناب روح اللہ علیہ الصلوۃ والسلام ان کے ہاتھوں قتل نہیں ہوئے ۔ انہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف بلند کر لیا ۔ اللہ عزیز و حکیم ہے ۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے تقریباً تین سو سال بعد قسطنطنیہ نامی یونانی بادشاہ عیسائی بن گیا ۔ وہ بڑا پاجی اور مکار تھا ۔ دین عیسوی میں یہ بادشاہ صرف سیاسی منصوبوں کے پورا کرنے اور اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے اور دین نصاری کو بدل ڈالنے کے لیے گھسا تھا ۔ حیلہ اور مکر وفریب اور چال کے طور پر یہ مسیحی بنا تھا کہ مسیحیت کی جڑیں کھوکھلی کر دے ۔ نصرانی علماء اور درویشوں کو جمع کرکے ان سے قوانین شریعت کے مجموعے کے نام سے نئی نئی تراشی ہوئی باتیں لکھوا کر ان بدعتوں کو نصرانیوں میں پھیلا دیا اور اصل کتاب و سنت سے انہیں ہٹا دیا ۔ اس نے کلیسا ، گرجے ، خانقاہیں ، ہیکلیں وغیرہ بنائیں اور بیسیوں قسم کے مجاہدے اور نفس کشی کے طریقے اور طرح طرح کی عبادتیں ریاضتیں نکال کر لوگوں میں اس نئے دین کی خوب اشاعت کی اور حکومت کے زور اور زر کے لالچ سے اسے دور تک پہنچا دیا ۔ جو بےچارے موحد ، متبع انجیل اور سچے تابعدار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصلی دن پر قائم رہے انہیں ان ظالموں نے شہر بدر کر دیا ۔ یہ لوگ جنگلوں میں رہنے سہنے لگے اور یہ نئے دین والے جن کے ہاتھوں میں تبدیلی اور مسخ والا دین رہ گیا تھا اٹھ کھڑے ہوئے اور تمام جزیرہ روم پر چھا گئے ۔ قسطنطنیہ کی بنیادیں اس نے رکھیں ۔ بیت لحم اور بیت المقدس کے کلیسا اور حواریوں کے شہر سب اسی کے بسائے ہوئے ہیں ۔ بڑی بڑی شاندار ، دیرپا اور مضبوط عمارتیں اس نے بنائیں ۔ صلیب کی پرستش ، مشرق کا قبلہ ، کنیسوں کی تصویریں ، سور کا کھانا وغیرہ یہ سب چیزیں نصرانیت میں اسی نے داخل کیں ۔ فروع اصول سب بدل کر دین مسیح کو الٹ پلٹ کر دیا ۔ امانت کبیرہ اسی کی ایجاد ہے اور دراصل ذلیل ترین خیانت ہے ۔ لمبے چوڑے فقہی مسائل کی کتابیں اسی نے لکھوائیں ۔ اب بیت المقدس انہیں کے ہاتھوں میں تھا یہاں تک کہ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتح کیا ۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ مقدس شہر اس مقدس جماعت کے قبضے میں آیا ۔ الغرض یہ پاک جگہ انہیں ملی تھی اور پاک روزی اللہ نے دے رکھی تھی جو شرعا بھی حلال اور طبعا بھی طیب ۔ افسوس باوجود اللہ کی کتاب ہاتھ میں ہو نے کے انہوں نے خلاف بازی اور فرقہ بندی شروع کر دی ۔ ایک دو نہیں بہتر ( ۷۲ ) فرقے قائم ہوگئے ۔ اللہ اپنے رسول پر درود سلام نازل فرمائے آپ نے ان کی اس پھوٹ کا ذکر فرما کر فرمایا کہ میری امت میں بھی یہی بیماری پھیلے گی اور ان کے تہتر فرقے ہو جائیں گے جس میں سے ایک جنتی باقی سب دوزخی ہوں گے پوچھا گیا کہ جنتی کون ہیں؟ فرمایا وہ جو اس پر ہوں جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔ ( مستدرک حاکم ) اللہ فرماتا ہے ان کے اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن میں آپ ہی کروں گا