Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
قُلۡ اَ تُحَآجُّوۡنَـنَا فِى اللّٰهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّکُمۡۚ وَلَنَآ اَعۡمَالُـنَا وَلَـكُمۡ اَعۡمَالُكُمۡۚ وَنَحۡنُ لَهٗ مُخۡلِصُوۡنَۙ‏ ﴿139﴾
آپ کہہ دیجئے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو جو ہمارا اور تمہارا رب ہے ، ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہم تو اسی کے لئے مخلص ہیں ۔
قل اتحاجوننا في الله و هو ربنا و ربكم و لنا اعمالنا و لكم اعمالكم و نحن له مخلصون
Say, [O Muhammad], "Do you argue with us about Allah while He is our Lord and your Lord? For us are our deeds, and for you are your deeds. And we are sincere [in deed and intention] to Him."
Aap keh dijiye kay kiya tum hum say Allah kay baray mein jhagartay ho jo humara aur tumhara rab hai humaray liye humaray aemaal hain aur tumharay liye tumharay aemaal hum to ussi kay liye mukhlis hain.
کہہ دو کہ : کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو؟ حالانکہ وہ ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ( یہ ) اور ( بات ہے کہ ) ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں ، اور تمہارے عمل تمہارے لیے ۔ اور ہم نے تو اپنی بندگی اسی کے لیے خالص کرلی ہے ۔
تم فرماؤ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو ( ف۲۵۰ ) حالانکہ وہ ہمارا بھی مالک ہے اور تمہارا بھی ( ف۲۵۱ ) اور ہماری کرنی ( ہمارے اعمال ) ہمارے ساتھ اور تمہاری کرنی ( تمہارے اعمال ) تمہارے ساتھ اور ہم نرے اسی کے ہیں ۔ ( ف۲۵۲ )
اے نبی! ان سے کہو: ’’ کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو ؟ حالانکہ وہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ۔ 138 ہمارے اعمال ہمارے لیے تمہارے اعمال تمہارے لیے ، اور ہم اللہ ہی کے لیے اپنی بندگی کو خالص کر چکے ہیں ۔ 139
فرما دیں: کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑا کرتے ہو حالانکہ وہ ہمارا ( بھی ) رب ہے ، اور تمہارا ( بھی ) رب ہے اور ہمارے لئے ہمارے اعمال اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، اور ہم تو خالصۃً اسی کے ہو چکے ہیں
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :138 ”یعنی ہم یہی تو کہتے ہیں کہ اللہ ہی ہم سب کا ربّ ہے اور اسی کی فرمانبرداری ہونی چاہیے ۔ کیا یہ بھی کوئی ایسی بات ہے کہ اس پر تم ہم سے جھگڑا کرو؟ جھگڑے کا اگر کوئی موقع ہے بھی ، تو وہ ہمارے لیے ہے ، نہ کہ تمہارے لیے ، کیونکہ اللہ کے سوا دُوسروں کو بندگی کا مستحق تم ٹھیرا رہے ہو نہ کہ ہم ۔ ” اَ تُحَآ جُّوْنَنَا فِی اللہِ“ کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”کیا تمہارا جھگڑا ہمارے ساتھ فِیْ سَبِیْلِ اللہ ہے“؟ اس صُورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اگر واقعی تمہارا یہ جھگڑا نفسانی نہیں ہے ، بلکہ خدا واسطے کا ہے ، تو یہ بڑی آسانی سے طے ہو سکتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :139 یعنی تم اپنے اعمال کے ذمّے دار ہو اور ہم اپنے اعمال کے ۔ تم نے اگر اپنی زندگی کو تقسیم کر رکھا ہے اور اللہ کے ساتھ دُوسروں کو بھی خدائی میں شریک ٹھیرا کر ان کی پرستش اور اطاعت بجا لاتے ہو ، تو تمہیں ایسا کرنے کا اختیار ہے ، اس کا انجام خود دیکھ لو گے ۔ ہم تمہیں زبردستی اس سے روکنا نہیں چاہتے ۔ لیکن ہم نے اپنی بندگی ، اطاعت اور پرستش کو بالکل اللہ ہی کے لیے خالص کر دیا ہے ۔ اگر تم تسلیم کر لو کہ ہمیں بھی ایسا کرنے کا اختیار ہے ، تو خواہ مخواہ کا یہ جھگڑا آپ ہی ختم ہو جائے ۔
مشرکین کے اعمال پر بیزاری مشرکوں کے جھگڑے کو دفع کرنے کا حکم رب العالمین اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے رہا ہے کہ تم ہم سے اللہ کی توحید ، اخلاص ، اطاعت وغیرہ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ وہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ تمہارا رب بھی تو ہے ، ہم پر اور تم پر قابض و متصرف بھی وہی اکیلا ہے ۔ ہمارے عمل ہمارے ساتھ ہیں وہ تمہارے عمل تمہیں کام آئیں گے ، ہم تم سے اور تمہارے شرک سے بیزار ہیں اور جگہ فرمایا آیت ( فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ ) 6 ۔ الانعام:147 ) یعنی اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہدے کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے ( نیک ) کام سے اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( فَاِنْ حَاۗجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلّٰهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ) 3 ۔ آل عمران:20 ) اگر یہ تجھ سے جھگڑیں تو تو کہدے میں نے اور میرے ماننے والوں نے اپنے منہ اللہ کی طرف کر دئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا آیت ( اَتُحَاۗجُّوْۗنِّىْ فِي اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰىنِ ) 6 ۔ الانعام:80 ) کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے اختلاف کرتے ہو؟ اور جگہ ہے؟ آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّهٖٓ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ ) 2 ۔ البقرۃ:258 ) تو نے اسے بھی دیکھا جو ابراہیم ( علیہ السلام ) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑنے لگا ۔ پس یہاں ان جھگڑالو لوگوں سے کہا گیا کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ۔ ہم تم سے الگ ۔ ہم عبادت اور توجہ میں اخلاص اور یکسوئی کرنے والے لوگ ہیں ۔ پھر ان لوگوں کے دعوے کی تردید ہو رہی ہے کہ حضرت ابراہیم نہ تو یہودی ، نہ نصرانی ، تم اے یہودیو اور اے نصرانیو کیوں یہ باتیں بنا رہے ہو؟ کیا تمہارا علم اللہ سے بھی بڑھ گیا ہے اللہ نے تو صاف فرما دیا آیت ( مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:67 ) ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے ، نہ نصرانی ، نہ مشرک ، بلکہ خالص مسلمان تھے ، ان کا حق کی شہادت کو چھپا کر بڑا ظلم کرنا یہ تھا کہ اللہ کی کتاب جو اس کے پاس آئی اس میں انہوں نے پڑھا کہ حقیقی دین اسلام ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے رسول ہیں ۔ ابراہیم ، اسمٰعیل ، اسحاق ، یعقوب وغیرہ یہودیت اور نصرانیت سے الگ تھے لیکن پھر نہ مانا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس بات کو بھی چھپا دیا ۔ پھر فرمایا تمہارے اعمال اللہ سے پوشیدہ نہیں ، اس کا محیط علم سب چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے ، وہ ہر بھلائی اور برائی کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔ یہ دھمکی دے کر پھر فرمایا کہ یہ پاکباز جماعت تو اللہ کے پاس پہنچ چکی ۔ تم جب ان کے نقش قدم پر نہ چلو تو صرف ان کی اولاد میں سے ہونا تمہیں اللہ کے ہاں کوئی عزت اور نفع نہیں دے سکتا ہے ۔ ان کے نیک اعمال میں تمہارا کوئی حصہ نہیں اور تمہاری بد اعمالیوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں جو کرے سو بھرے تم نے جب ایک نبی کو جھٹلایا تو گویا تمام انبیا کو جھٹلایا بالخصوص اے وہ لوگو! جو نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں ہو ۔ تم تو بڑے ہی وبال میں آ گئے ، تم نے تو اس نبی کو جھٹلایا جو سید الانبیاء جو ختم المرسلین ہیں ، جو رسول رب العالمین ہیں جن کی رسالت تمام انسانوں اور جنوں کی طرف ہے ۔ جن کی رسالت کے ماننے کا ہر ایک شخص مکلف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بیشمار درود و سلام آپ پرنازل ہوں اور آپ کے سوا تمام انبیاء کرام پر بھی ۔