Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
الٓرٰ‌ كِتٰبٌ اُحۡكِمَتۡ اٰيٰـتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَكِيۡمٍ خَبِيۡرٍۙ‏ ﴿1﴾
الر یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے ۔
الر كتب احكمت ايته ثم فصلت من لدن حكيم خبير
Alif, Lam, Ra. [This is] a Book whose verses are perfected and then presented in detail from [one who is] Wise and Acquainted.
Alif-laam-raa yeh aik aisi kitab hai kay iss ki aayaten mohkum ki gaee hain phir saaf saaf biyan ki gaee hain aik hakeem ba khabar ki taraf say.
الر ( ١ ) یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتوں کو ( دلائل سے ) مضبوط کیا گیا ہے ، ( ٢ ) پھر ایک ایسی ذات کی طرف سے ان کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو حکمت کی مالک اور ہر بات سے باخبر ہے ۔
یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں ( ف۲ ) پھر تفصیل کی گئیں ( ف۳ ) حکمت والے خبردار کی طرف سے ،
ا ل ر ۔ فرمان ہے 1 ، جس کی آیتیں پختہ اور مفصّل ارشاد ہوئی ہیں 2 ، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے ،
الف ، لام ، را ( حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ، یہ وہ ) کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم بنا دی گئی ہیں ، پھر حکمت والے باخبر ( رب ) کی جانب سے وہ مفصل بیان کر دی گئی ہیں
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :1 ”کتاب“ کا ترجمہ یہاں انداز بیان کی مناسبت سے ”فرمان“ کیا گیا ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ کتاب اور نوشتے ہی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ حکم اور فرمان شاہی کے معنی میں بھی آتا ہے اور خود قرآن میں متعدد مواقع پر یہ لفظ اسی معنی میں مُستعمل ہوا ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :2 یعنی اس فرمان میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ پکی اور اٹل ہیں ۔ خوب جچی ٹلی ہیں ۔ نری لفاظی نہیں ہے خطابت کی ساحری اور تخیل کی شاعری نہیں ہے ۔ ٹھیک ٹھیک حقیقت بیان کی گئی ہے اور اس کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو حقیقت سے کم یا زیادہ ہو ۔ پھر یہ آیتیں مفصل بھی ہیں ، ان میں ایک ایک بات کھول کھول کر واضح طریقے سے ارشاد ہوئی ہے ۔ بیان الجھا ہوا ، گنجلک اور مبہم نہیں ہے ۔ ہر بات کو الگ الگ ، صاف صاف سمجھا کر بتایا گیا ہے ۔
تعارف قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو حروف سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفصیل اس تفسیر کے شروع میں سورہ بقرہ کے ان حروف کے بیان میں گزر چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ یہ قرآن لفظوں میں محکم اور معنی میں مفصل ہے ۔ پس مضمون اور معنی ہر طرح سے کامل ہے ۔ یہ اس للہ کا کلام ہے جو اپنے اقوال و احکام میں حکیم ہے ۔ جو کاموں کے انجام سے خبردار ہے ۔ یہ قرآن اللہ کی عبادت کرانے اور دوسروں کی عبادت سے روکنے کے لیے اترا ہے ۔ سب رسولوں پر پہلی وحی توحید کی آتی رہی ہے ۔ سب سے یہی فرمایا گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں ۔ اس کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کریں ۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آجاتے ہیں ان سے میں ڈرا رہا ہوں اور اس کی اطاعت کی بنا پر جو ثواب ملتے ہیں ، ان کی میں بشارت سناتا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے خاندانوں کو آواز دیتے ہیں ۔ زیادہ قریب والے پہلے ، پھر ترتیب وار جب سب جمع ہوجاتے ہیں تو آپ ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اگر میں تم سے کہوں کہ کوئی لشکر صبح کو تم پر دھاوا کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آج تک آپ کی زبان سے کوئی جھوٹ سنا ہی نہیں ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تم سے کہتا ہوں کہ قیامت کے دن تمہاری ان بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت تر عذاب ہوگا ۔ پس تم ان سے ہوشیار ہو جاؤ ۔ پھر ارشاد ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی کہہ دو کہ میں تمہیں اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اگر تم بھی ایسا ہی کرتے رہے تو دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرو گے اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی بڑے بلند درجے عنایت فرمائے گا ۔ قرآن کریم نے ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 97؀ ) 16- النحل:97 ) میں فرمایا ہے کہ جو مرد و عورت ایمان دار ہو کر نیک عمل بھی کرتا رہے ، اسے ہم پاکیزہ زندگی سے زندہ رکھیں گے ۔ صحیح حدیث میں بھی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اللہ کی رضامندی کی تلاش میں تو جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے پائے گا ، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے اس کا بھی ۔ فضل والوں کو اللہ تعالیٰ فضل دے گا ۔ یعنی گناہ تو برابر لکھا جاتا ہے اور نیکی دس گناہ لکھی جاتی ہے پھر اگر گناہ کی سزا دنیا میں ہی ہو گئی تو نیکیاں جوں کی توں باقی رہیں ۔ اور اگر یہاں اس کی سزا نہ ملی تو زیادہ سے زیادہ ایک نیکی اس کے مقابل جاکر بھی نو نیکیاں بچ رہیں ۔ پھر جس کی اکائیاں دھائیوں پر غالب آجائیں وہ تو واقعی خود ہی بد اور برا ہے ۔ پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے جو اللہ کے احکام کی رو گردانی کرلیں اور رسولوں کی نہ مانیں کہ ایسے لوگوں کو ضرور ضرور قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا ۔ تم سب کو لوٹ کر مالک ہی کے پاس جانا ہے ، اسی کے سامنے جمع ہونا ہے ۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے ، اپنے دوستوں سے احسان اپنے دشمنوں سے انتقام ، مخلوق کی نئی پیدائش ، سب اس کے قبضے میں ہے ۔ پس پہلے رغبت دلائی اور اب ڈرایا ۔