Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَ هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَ يَّامٍ وَّكَانَ عَرۡشُهٗ عَلَى الۡمَآءِ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَلَٮِٕنۡ قُلۡتَ اِنَّكُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡمَوۡتِ لَيَـقُوۡلَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿7﴾
اللہ ہی وہ ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے ، اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے یہ کہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے ۔
و هو الذي خلق السموت و الارض في ستة ايام و كان عرشه على الماء ليبلوكم ايكم احسن عملا و لىن قلت انكم مبعوثون من بعد الموت ليقولن الذين كفروا ان هذا الا سحر مبين
And it is He who created the heavens and the earth in six days - and His Throne had been upon water - that He might test you as to which of you is best in deed. But if you say, "Indeed, you are resurrected after death," those who disbelieve will surely say, "This is not but obvious magic."
Allah hi woh hai jiss ney cheh din mein aasman-o-zamin ko peda kiya aur uss ka arsh pani per tha takay woh tumhen aazmaye kay tum mein say achay amal wala kaun hai agar aap inn say kahen kay tum log marney kay baad utha kharay kiye jaogay to kafir log palat ker jawab den gay kay yeh to nira saaf saaf jadoo hi hai.
اور وہی ہے جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ۔ جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ ( ٥ ) تاکہ تمہیں آزمائے کہ عمل کے اعتبار سے تم میں کون زیادہ اچھا ہے ۔ ( ٦ ) اور اگر تم ( لوگوں سے ) یہ کہو کہ تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ، وہ یہ کہیں گے کہ یہ کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ ( ٧ )
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا ( ف۱٦ ) کہ تمہیں آزمائے ( ف۱۷ ) تم میں کس کا کام اچھا ہے ، اور اگر تم فرماؤ کہ بیشک تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو کافر ضرور کہیں گے کہ یہ ( ف۱۸ ) تو نہیں مگر کھلا جادو ( ف۱۹ )
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ۔ ۔ ۔ ۔ جبکہ اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا 7 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ تم کو آزما کر دیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے ۔ 8 اب اگر اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، تم کہتے ہو کہ لوگو ، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے تو منکرین فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگری ہے ۔ 9
اور وہی ( اﷲ ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین ( کی بالائی و زیریں کائناتوں ) کو چھ روز ( یعنی تخلیق و اِرتقاء کے چھ اَدوار و مراحل ) میں پیدا فرمایا اور ( تخلیقِ اَرضی سے قبل ) اس کا تختِ اقتدار پانی پر تھا ( اور اس نے اس سے زندگی کے تمام آثار کو اور تمہیں پیدا کیا ) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہتر ہے؟ اور اگر آپ یہ فرمائیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد ( زندہ کر کے ) اٹھائے جاؤ گے تو کافر یقینًا ( یہ ) کہیں گے کہ یہ تو صریح جادو کے سوا کچھ ( اور ) نہیں ہے
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :7 جملہ معترضہ ہے جو غالبًا لوگوں کے اس سوال کےجواب میں فرمایا گیا ہے کہ آسمان و زمین اگر پہلے نہ تھے اور بعد میں پیدا کیے گئے تو پہلے کیا تھا ؟ اس سوال کو یہاں نقل کیے بغیر اس کا جواب مختصر سے فقرے میں دے دیا گیا ہے کہ پہلے پانی تھا ۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس پانی سے مراد کیا ہے ۔ یہی پانی جسے ہم اس نام سے جانتے ہیں؟ یا یہ لفظ محض استعارے کے طور پر مادے کی اس مائع ( Fluid ) حالت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو موجودہ صورت میں ڈھالے جانے سے پہلے تھی؟ رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا ، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :8 اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اس لیے پیدا کیا کہ تم کو ( یعنی انسان کو ) پیدا کرنا مقصود تھا ، اور تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ تم پر اخلاقی ذمہ داری کا بار ڈالا جائے ، تم کو خلافت کے اختیارات سپرد کیے جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ تم میں سے کون ان اختیارات کو اور اس اخلاقی ذمہ داری کے بوجھ کو کس طرح سنبھالتا ہے ۔ اگر اس تخلیق کی تہہ میں یہ مقصد نہ ہوتا ، اگر اختیارات کو تفویض کے باوجود کسی امتحان کا ، کسی محاسبہ اور باز پرس کا اور کسی جزا و سزا کا کوئی سوال نہ ہوتا ، اور اگر انسان کو اخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونے کے باوجود یونہی بے نتیجہ مر کر مٹی ہو جانا ہی ہوتا ، تو پھر یہ سارا کار تخلیق بالکل ایک مہمل کھیل تھا اور اس تمام ہنگامہ وجود کی کوئی حیثیت ایک فعل عبث کے سوا نہ تھی ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :9 یعنی ان لوگوں کی نادانی کا یہ حال ہے کہ کائنات کو ایک کھلنڈرے کا گھروندا اور اپنے آپ کو اس کے جی بہلانے کا کھلونا سمجھے بیٹھے ہیں اور اس احمقانہ تصور میں اتنے مگن ہیں کہ جب تم انہیں اس کارگاہ حیات کا سنجیدہ مقصد ، اور خود ان کے وجود کی معقول غرض و غایت سمجھاتے ہو تو قہقہہ لگاتے ہیں اور تم پر پھبتی کستے ہیں کہ یہ شخص تو جادو کی سی باتیں کرتا ہے ۔
تخلیق کائنات کا تذکرہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اسے ہر چیز پر قدرت ہے ۔ آسمان و زمین کو اس نے صرف چھ دن میں پیدا کیا ہے ۔ اس سے پہلے اس کا عرش کریم پانی کے اوپر تھا ۔ مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بنو تمیم! تم خوشخبری قبول کرو ۔ انہوں نے کہا خوشخبریاں تو آپ نے سنا دیں اب کچھ دلوائیے ۔ آپ نے فرمایا اے اہل یمن تم قبول کرو ۔ انہوں نے کہا ہاں ہمیں قبول ہے ۔ مخلوق کی ابتدا تو ہمیں سنائے کہ کس طرح ہوئی؟ آپ نے فرمایا سب سے پہلے اللہ تھا ۔ اس کا عرش پانی کے اوپر تھا ۔ اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کا تذکرہ لکھا ۔ راوی حدیث حضرت عمران کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا ہی فرمایا تھا جو کسی نے آن کر مجھے خبر دی کہ تیری اونٹنی زانو کھلوا کر بھاگ گئی ، میں اسے ڈھونڈنے چلا گیا ۔ پھر مجھے نہیں معلوم کہ کیا بات ہوئی؟ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ ایک روایت میں ہے اللہ تھا اور اس سے پہلے کچھ نہ تھا ۔ ایک روایت میں ہے اس کے ساتھ کچھ نہ تھا ۔ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ اس نے ہر چیز کا تذکرہ لکھا ۔ پھر آسمان و زمین کو پیدا کیا ۔ مسلم کی حدیث میں ہے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا ۔ صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر کے موقع پر ایک قدسی حدیث لائے ہیں کہ اے انسان تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دوں گا اور فرمایا اللہ کا ہاتھ اوپر ہے ۔ دن رات کا خرچ اس میں کوئی کمی نہیں لاتا ۔ خیال تو کرو کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے اب تک کتنا کچھ خرچ کیا ہوگا لیکن اس کے داہنے ہاتھ میں جو تھا وہ کم نہیں ہوتا اس کا عرش پانی پر تھا ۔ اس کے ہاتھ میں میزان ہے جھکاتا ہے اور اونچا کرتا ہے مسند میں ہے ابو رزین لقیط بن عامر بن متفق عقیلی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مخلوق پیدائش کرنے سے پہلے ہمارا پروردگار کہاں تھا ؟ آپ نے فرمایا عما میں نیچے بھی ہوا اور اوپر بھی ہوا پھر عرش کو اس کے بعد پیدا کیا ۔ یہ روایت ترمذی کتاب التفسیر میں بھی ہے ۔ سنن ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں ۔ مجاہد کا قول ہے کہ کسی چیز کو پیدا کرنے سے پہلے عرش الٰہی پانی پر تھا ۔ وہب ، ضمرہ ، قتادہ ، ابن جریر وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ قتادہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے ابتداء مخلوق کس طرح ہوئی ۔ ربیع بن انس کہتے ہیں کہ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ جب آسمان و زمین کو پیدا کیا تو اس پانی کے دوحصے کر دیئے ۔ نصف عرش کے نیچے یہی بحر مسجود ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں بوجہ بلندی کے عرش کو عرش کہا جاتا ہے ۔ سعد طائی فرماتے ہیں کہ عرش سرخ یاقوت کا ہے ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں اللہ اسی طرح تھا جس طرح اس نے اپنے نفس کریم کا وصف کیا ۔ اس لیے کہ کچھ نہ تھا ، پانی تھا ، اس پر عرش تھا ، عرش پر ذوالجلال و الاکرام ذوالعزت والسلطان ذوالملک و ققدرہ ذوالعلم والرحمتہ والنعمہ تھا جو جو چاہے کر گزرنے والا ہے ۔ ابن عباس سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا کہ پانی کس چیز پر تھا ؟ آپ نے فرمایا ہوا کی پیٹھ پر ۔ پھر فرماتا ہے ۔ آسمان و زمین کی پیدائش تمہارے نفع کے لیے ہے اور تم اس لیے ہو کہ اسی ایک خالق کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ یاد رکھو تم بیکار پیدا نہیں کئے گئے ۔ آسمان و زمین اور ان کے درمیان چیزیں باطل پیدا نہیں کیں یہ گمان تو کافروں کا ہے اور کافروں کے لیے آگ کا عذاب اور آیت میں ہے ۔ ( اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ١١٥؁ ) 23- المؤمنون:115 ) کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہ جاؤ گے؟ اللہ جو سچا مالک ہے وہی حق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا رب ہے اور آیت میں ہے انسانوں اور جنوں کو میں نے صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے وہ تمہیں آزما رہے ہیں کہ تم میں سے اچھے عمل والے کون ہیں؟ یہ نہیں فرمایا کہ زیادہ عمل والے کون ہیں؟ اس لیے کہ عمل حسن وہ ہوتا ہے جس میں خلوص ہو اور شریعت محمدیہ کی تابعداری ہو ۔ ان دونوں باتوں میں سے اگر ایک بھی نہ ہو تو وہ عمل بیکار اور غارت ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ انہیں کہیں کہ تم مرنے کے بعد زندہ کئے جاؤ گے جس اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی پیدا کرے گا تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم اسے نہیں مانتے حلانکہ قائل بھی ہیں کہ زمین آسمان کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ شروع جس پر گراں نہ گزرا ۔ اس پر دوبارہ کی پیدائش کیسے گراں گزرے گی؟ یہ تو بہ نسبت اول مرتبہ کے بہت ہی آسمان ہے ۔ فرمان الٰہی ہے ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ ۭ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ 27؀ۧ ) 30- الروم:27 ) اسی نے پہلی پیدائش شروع میں کی وہی دوبارہ پیدائش کرے گا اور یہ تو اس پر نہایت ہی آسان ہے اور آیت میں ہے کہ تم سب کا بنانا اور مار کر زندہ کرنا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسا ایک کا ۔ لیکن یہ لوگ اسے نہیں مانتے تھے اور اسے کھلے جادو سے تعبیر کرتے تھے ۔ کفر و عناد سے اس قول کو جادو کا اثر خیال کرتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر ہم عذاب و پکڑ کو ان سے کچھ مقرر مدت تک کے لیے موخر کردیں تو یہ اس کو نہ آنے والا جان کر جلدی کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ عذاب ہم سے موخر کیوں ہوگئے؟ ان کے دل میں کفر و شرک اس طرح بیٹھ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا ہی نہیں ملتا ۔ امت کا لفظ قرآن و حدیث میں کئی ایک معنی میں مستعمل ہے ۔ اس سے مراد مدت بھی ہے اس آیت اور ( وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِيْـلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ 45؀ ) 12- یوسف:45 ) جو سورۃ یوسف میں ہے یہی معنی ہیں ۔ امام و مقتدی کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے ۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ( اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٢٠؀ۙ ) 16- النحل:120 ) آیا ہے ۔ ملت اور دین کے بارے میں بھی یہی لفظ آتا ہے جیسے مشرکوں کا قول ( بَلْ قَالُـوْٓا اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ 22؀ ) 43- الزخرف:22 ) ہے جماعت کے معنی میں بھی آتا ہے ( وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ ۋ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَيْنِ 23؀ ) 28- القصص:23 ) والی آیت میں اور آیت ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا 36؀ ) 16- النحل:36 ) میں ان آیتوں میں امت سے مراد کافر مومن سب امتی ہیں ۔ جیسے مسلم کی حدیث ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت کا جو یہودی نصرانی میرا نام سنے اور مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہے ۔ ہاں تابعدار امت وہ ہے جو رسولوں کو مانے جیسے ( كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ ۭمِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ١١٠؁ ) 3-آل عمران:110 ) والی آیت میں ۔ صحیح حدیث میں ہے میں کہوں گا امتی امتی اسی طرح امت کا لفظ فرقے اور گروہ کے لیے بھی مستعمل ہوتا ہے جیسے ( وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ١٥٩؁ ) 7- الاعراف:159 ) اور جیسے ( مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ ١١٣؁ ) 3-آل عمران:113 ) میں ۔