Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
مَثَلُ الۡفَرِيۡقَيۡنِ كَالۡاَعۡمٰى وَالۡاَصَمِّ وَالۡبَـصِيۡرِ وَالسَّمِيۡعِ‌ ؕ هَلۡ يَسۡتَوِيٰنِ مَثَلًا‌ ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿24﴾
ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے بہرے اور دیکھنے سننے والے جیسی ہے ۔ کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں؟ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔
مثل الفريقين كالاعمى و الاصم و البصير و السميع هل يستوين مثلا افلا تذكرون
The example of the two parties is like the blind and deaf, and the seeing and hearing. Are they equal in comparison? Then, will you not remember?
Inn dono firqon ki misal andhay behray aur dekhney sunnay walay jaisi hai. Kiya yeh dono misal mein barabar hain? Kiya phir bhi tum naseehat hasil nahi kertay?
ان دو گروہوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا ہو ، اور دوسرا دیکھتا بھی ہو ، سنتا بھی ہو ۔ کیا یہ دونوں اپنے حالات میں برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے ؟
دونوں فریق ( ف٤۹ ) کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا اور دوسرا دیکھتا اور سنتا ( ف۵۰ ) کيا ان دونوں حال کا ايک سا ہے ( ف۱۵ ) تو کياتم دہيان نہيں کرتے
اِن دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی تو ہو اندھا بہرا اور دوسرا ہو دیکھنے اور سننے والا ، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟ 28 کیا تم ﴿ اس مثال سے﴾ کوئی سبق نہیں لیتے؟ ؏۲
۔ ( کافر و مسلم ) دونوں فریقوں کی مثال اندھے اور بہرے اور ( اس کے برعکس ) دیکھنے والے اور سننے والے کی سی ہے ۔ کیا دونوں کا حال برابر ہے؟ کیا تم پھر ( بھی ) نصیحت قبول نہیں کرتے
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :28 یعنی کیا ان دونوں کا طرز عمل اور آخرکار دونوں کا انجام یکساں ہو سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ جو شخص نہ خود راستہ دیکھتا ہے اور نہ کسی ایسے شخص کی بات ہی سنتا ہے جو اسے راستہ بتا رہا ہو وہ ضرور کہیں ٹھوکر کھائے گا اور کہیں کسی سخت حادثہ سے دوچار ہوگا ۔ بخلاف اس کے جو شخص خود بھی راستہ دیکھ رہا ہو اور کسی واقف راہ کی ہدایات سے بھی فائدہ اٹھاتا ہو وہ ضرور اپنی منزل پر بسلامت پہنچ جائے گا ۔ بس یہی فرق ان لوگوں کے درمیان بھی ہے جن میں سے ایک اپنی آنکھوں سے بھی کائنات میں حقیقت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور خدا کے بھیجے ہوئے رہنماؤں کی بات بھی سنتا ہے ، اور دوسرا نہ خود ہِیے کی آنکھیں کھلی رکھتا ہے کہ خدا کی نشانیاں اسے نظر آئیں اور نہ پیغمبروں کی بات ہی سن کر دیتا ہے ۔ کیونکر ممکن ہے کہ زندگی میں ان دونوں کا طرز عمل یکساں ہو؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ آخرکار ان کے انجام میں فرق نہ ہو؟