Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰٮهُ‌ ؕ قُلۡ اِنِ افۡتَرَيۡتُهٗ فَعَلَىَّ اِجۡرَامِىۡ وَاَنَا بَرِىۡٓءٌ مِّمَّا تُجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿35﴾
کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے خود اسی نے گھڑ لیا ہے؟ تو جواب دے کہ اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہو تو میرا گناہ مجھ پر ہے اور میں ان گناہوں سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو ۔
ام يقولون افترىه قل ان افتريته فعلي اجرامي و انا بريء مما تجرمون
Or do they say [about Prophet Muhammad], "He invented it"? Say, "If I have invented it, then upon me is [the consequence of] my crime; but I am innocent of what [crimes] you commit."
Kiye yeh kehtay hain kay issay khud issi nay gharr liya hai? To jawab dey kay agar mein ney issay gharr liya ho mera gunah mujh per hai aur mein unn gunhaon say bari hun jo tum ker rahey ho.
بھلا کیا ( عرب کے یہ کافر ) لوگ کہتے ہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے یہ قرآن اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے ؟ ( اے پیغمبر ) کہہ دو کہ : اگر میں نے اسے گھڑا ہوگا تو میرے جرم کا وبال مجھی پر ہوگا ، اور جو جرم تم کر رہے ہو ، میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں ۔ ( ١٧ )
کیا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے جی سے بنالیا ( ف۷٤ ) تم فرماؤ اگر میں نے بنالیا ہوگا تو میرا گناہ مجھ پر ہے ( ف۷۵ ) اور میں تمہارے گناہ سے الگ ہوں ،
اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے ؟ ان سے کہو اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جرم کی ذمّہ داری ہے ، اور جو جرم تم کر رہے ہو اس کی ذمّہ داری سے میں بری ہوں ۔ 39 ؏ ۳
۔ ( اے حبیبِ مکرّم! ) کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس ( قرآن ) کو خود گھڑ لیا ہے ، فرما دیجئے: اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہے تو میرے جرم ( کا وبال ) مجھ پر ہوگا اور میں اس سے بری ہوں جو جرم تم کر رہے ہو
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :39 انداز کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضرت نوح علیہ السلام کا یہ قصہ سنتے ہوئے مخالفین نے اعتراض کیا ہوگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ قصے بنا بنا کر اس لیے پیش کرتا ہے کہ انہیں ہم پر چسپاں کرے ۔ جو چوٹیں وہ ہم پر براہ راست نہیں کرنا چاہتا ان کے لیے ایک قصہ گھڑتا ہے اور اس طرح ” در حدیث دیگراں “ کے انداز میں ہم پر چوٹ کرتا ہے ۔ لہٰذا سلسلہ کلام توڑ کر ان کے اعتراض کا جواب اس فقرے میں دیا گیا ۔ واقعہ یہ ہے کہ گھٹیا قسم کے لوگوں کا ذہن ہمیشہ بات کے برےپہلو کی طرف جایا کرتا ہے اور اچھائی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ بات کے اچھے پہلو پر ان کی نظر جا سکے ۔ ایک شخص نے اگر کوئی حکمت کی بات کہی ہے یا وہ تمہیں کوئی مفید سبق دے رہا ہے یا تمہاری کسی غلطی پر تم کو متنبہ کر رہا ہے تو اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنی اصلاح کرو ۔ مگر گھٹیا آدمی ہمیشہ اس میں برائی کا کوئی ایسا پہلو تلاش کرے گا جس سے حکمت اور نصیحت پر پانی پھیر دے اور نہ صرف خود اپنی برائی پر قائم رہے بلکہ قائل کے ذمے بھی الٹی کچھ برائی لگا دے ۔ بہتر سے بہتر نصیحت بھی ضائع کی جا سکتی ہے اگر سننے والا اسے خیر خواہی کے بجائے ” چوٹ “ کے معنی میں لے لے اور اس کا ذہن اپنی غلطی کے احساس و ادراک کے بجائے برا ماننے کی طرف چل پڑے ۔ پھر اس قسم کے لوگ ہمیشہ اپنی فکر کی بنا پر ایک بنیادی بدگمانی پر رکھتے ہیں ۔ جس بات کے حقیقت واقعی ہونے اور ان بناوٹی داستان ہونے کا یکساں امکان ہو ، مگر وہ ٹھیک ٹھیک تمہارے حال پر چسپاں ہو رہی ہو اور اس میں تمہاری کسی غلطی کی نشان دہی ہوتی ہو ، تو تم ایک دانش مند آدمی ہوگے اگر اسے ایک واقعی حقیقت سمجھ کر اس کے سبق آموز پہلو سے فائدہ اُٹھاؤ گے ، اور محض ایک بدگمان و کج نظر آدمی ہو گے اگر کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگا دو گے کہ قائل نے محض ہم پر چسپاں کرنے کے لیے یہ قصہ تصنیف کر لیا ہے ۔ اسی بنا پر یہ فرمایا کہ اگر یہ داستان میں نے گھڑی ہے تو اپنے جرم کا میں ذمہ دار ہوں ، لیکن جس جرم کا تم ارتکاب کر رہے ہو وہ تو اپنی جگہ قائم ہے اور اس کی ذمہ داری میں تم ہی پکڑے جاؤ گے نہ کے میں ۔
کفار کا الزام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جواب یہ درمیانی کلام اس قصے کے بیچ میں اس کی تائید اور تقریر ہے کہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ یہ کفار تجھ پر اس قرآن کے از خود گھڑ لینے کا الزام لگا رہے ہیں تو جواب دے کہ اگر ایسا ہے تو میرا گناہ مجھ پر ہے میں جانتا ہوں کہ اللہ کے عذاب کیسے کچھ ہیں؟ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں اللہ پر جھوٹ افتراء گھڑ لوں؟ ہاں اپنے گناہوں کے ذمے دار تم آپ ہو ۔