Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَاُوۡحِىَ اِلٰى نُوۡحٍ اَنَّهٗ لَنۡ يُّؤۡمِنَ مِنۡ قَوۡمِكَ اِلَّا مَنۡ قَدۡ اٰمَنَ فَلَا تَبۡتَٮِٕسۡ بِمَا كَانُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ‌ ۖ ‌ ۚ‏ ﴿36﴾
نوح کی طرف وحی بھیجی گئی کہ تیری قوم میں سے جو ایمان لا چکے ان کے سوا اور کوئی اب ایمان لائے گا ہی نہیں ، پس تو ان کے کاموں پر غمگین نہ ہو ۔
و اوحي الى نوح انه لن يؤمن من قومك الا من قد امن فلا تبتىس بما كانوا يفعلون
And it was revealed to Noah that, "No one will believe from your people except those who have already believed, so do not be distressed by what they have been doing.
Nooh ki taraf wahee bheji gaee kay teri qom mein sa yjo eman laa chukay unn kay siwa aur koi abb eman laye ga hi nahi pus tu inn kay kaamon per ghumgeen na ho.
اور نوح کے پاس وحی بھیجی گئی کہ : تمہاری قوم میں سے جو لوگ اب تک ایمان لاچکے ہیں ، ان کے سوا اب کوئی اور ایمان نہیں لائے گا ۔ لہذا جو حرکتیں یہ لوگ کرتے رہے ہیں ، تم ان پر صدمہ نہ کرو ۔
اور نوح کو وحی ہوئی تمہاری قوم سے مسلمان نہ ہوں گے مگر جتنے ایمان لاچکے تو غم نہ کھا اس پر جو وہ کرتے ہیں ( ف۷٦ )
نوح پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لاچکے بس وہ لاچکے ، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے ۔ ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو ،
اور نوح ( علیہ السلام ) کی طرف وحی کی گئی کہ ( اب ) ہرگز تمہاری قوم میں سے ( مزید ) کوئی ایمان نہیں لائے گا سوائے ان کے جو ( اس وقت تک ) ایمان لا چکے ہیں ، سو آپ ان کے ( تکذیب و استہزا کے ) کاموں سے رنجیدہ نہ ہوں
قوم نوح کا مانگا ہوا عذاب اسے ملا قوم نوح نے جب عذابوں کی مانگ جلدی مچائی تو آپ نے اللہ سے دعا کی الٰہی زمین پر کسی کافر کو رہتا بستا نہ چھوڑ ۔ پرودرگار میں عاجز آگیا ہوں ، تو میری مدد کر ۔ اسی وقت وحی آئی کہ جو ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اور کوئی اب ایمان نہ لائے گا تو ان پر افسوس نہ کر نہ ان کا کوئی ایسا خاص خیال کر ۔ ہمارے دیکھتے ہی ہماری تعلیم کے مطابق ایک کشتی تیار کر اور اب ظالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کر ، ہم ان کا ڈبو دینا مقرر کر چکے ہیں ۔ بعض سلف کہتے ہیں حکم ہوا کہ لکڑیاں کاٹ کر سکھا کر تختے بنالو ۔ اس میں ایک سو سال گزر گئے پھر مکمل تیاری میں سو سال اور نکل گئے ایک قول ہے چالیس سال لگے واللہ اعلم ۔ امام محمد بن اسحق توراۃ سے نقل کرتے ہیں کہ ساگ کی لکڑی کی یہ کشتی تیار ہوئی اس کا طول اسی ( 80 ) ہاتھ تھا اور عرض پچاس ( 50 ) ہاتھ کا تھا ۔ اندر باہر سے روغن کیا گیا تھا پانی کاٹنے کے پر پرزے بھی تھے قتادہ کا قول ہے کہ لمبائی تین سو ہاتھ کی تھی ۔ ابن عباس کا فرمان ہے کہ طول بارہ سو ہاتھ کا تھا اور چوڑائی چھ سو ہاتھ کی تھی ۔ کہا گیا ہے کہ طول دوہزار ہاتھ اور چوڑائی ایک سو ہاتھ کی تھی واللہ اعلم ۔ اس کی اندرونی اونچائی تیس ہاتھ کی تھی اس میں تین درجے تھے ہر درجہ دس ہاتھ اونچا تھا ۔ سب سے نیچے کے حصے میں چوپائے اور جنگلی جانور تھے ۔ درمیان کے حصے میں انسان تھے اور اوپر کے حصے میں پرندے تھے ۔ ان میں چھوٹا دروازہ تھا ، اوپر سے بالکل بند تھی ۔ ابن جریر نے ایک غریب اثر عبداللہ بن عباس سے ذکر کیا ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم سے درخواست کی کہ اگر آپ بحکم الٰہی کسی ایسے مردہ کو جلاتے جس نے کشتی نوح دیکھی ہو تو ہمیں اسے معلومات ہوتیں آپ انہیں لے کر ایک ٹیلے پر پہنچ کر وہاں کی مٹی اٹھائی اور فرمایا جانتے ہو یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ہی علم ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ پنڈلی ہے حام بن نوح کی پھر آپ نے ایک لکڑی اس ٹیلے پر مار کر فرمایا اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو اسی وقت ایک بڈھا سا آدمی اپنے سر سے مٹی جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تو بڑھاپے میں مرا تھا ۔ اس نے کہا نہیں مرا تو تھا جوانی میں لیکن اب دل پر دہشت بیٹھی کہ قیامت قائم ہو گئی اس دہشت نے بوڑھا کر دیا ۔ آپ نے فرمایا اچھا حضرت نوح کی کشتی کی بابت اپنی معلومات بیان کرو ۔ اس نے کہا وہ بارہ سو ہاتھ لمبی اور چھ سو ہاتھ چوڑی تھی تین درجوں کی تھی ۔ ایک میں جانور اور چوپائے تھے ، دوسرے میں انسان ، تیسرے میں پرند ، جب جانوروں کا گوبر پھیل گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی طرف وحی بھیجی کے ہاتھی کی دم ہلاؤ ۔ آپ کے ہلاتے ہی اس سے خنزیر نر مادہ نکل آئے اور وہ میل کھانے لگے ۔ چوہوں نے جب اس کے تختے کترنے شروع کئے تو حکم ہوا کہ شیر کی پیشانی پر انگلی لگا ۔ اس سے بلی کا جوڑا نکلا اور چوہوں کی طرف لپکا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو شہروں کے غرقاب ہو نے کا علم کیسے ہو گیا ؟ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے کوے کو خبر لینے کے لیے بھیجا لیکن وہ ایک لاش پر بیٹھ گیا ، دیر تک وہ واپس نہ آیا تو آپ نے اس کے لیے ہمیشہ ڈرتے رہنے کی بد دعا کی ۔ اسی لیے وہ گھروں سے مانوس نہیں ہوتا ۔ پھر آپ نے کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتون کے درخت کا پتہ لے کر آیا اور اپنے پنجوں میں خشک مٹی لایا اس سے معلوم ہو گیا کہ شہر ڈوب چکے ہیں ۔ آپ نے اس کی گردن میں خصرہ کا طوق ڈال دیا اور اس کے لیے امن وانس کی دعا کی پس وہ گھروں میں رہتا سہتا ہے ۔ حواریوں نے کہا اے رسول اللہ آپ انہیں ہمارے ہاں لے چلئے کہ ہم میں بیٹھ کر اور بھی باتیں ہمیں سنائیں ۔ آپ نے فرمایا یہ تمہارے ساتھ کیسے آسکتا ہے جب کہ اس کی روزی نہیں ۔ پھر فرمایا اللہ کے حکم سے جیسا تھا ویسا ہی ہو جا ، وہ اسی وقت مٹی ہوگیا ۔ نوح علیہ السلام تو کشتی بنانے میں لگے اور کافروں کو ایک مذاق ہاتھ لگ گیا وہ چلتے پھرتے انہیں چھیڑتے اور باتیں بناتے اور طعنہ دیتے کیونکہ انہیں جھوٹا جانتے تھے اور عذاب کے وعدے پر انہیں یقین نہ تھا ۔ اس کے جواب میں حضرت نوح علیہ السلام فرماتے اچھا دل خوش کر لو وقت آرہا ہے کہ اس کا پورا بدلہ لے لیا جائے ۔ ابھی جان لو گے کہ کون اللہ کے عذاب سے دنیا میں رسوا ہوتا ہے اور کس پر اخروی عذاب آچمٹتا ہے جو کبھی ٹالے نہ ٹلے ۔