Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنٰكُمۡ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَيۡكُمۡ شَهِيۡدًا ؕ وَمَا جَعَلۡنَا الۡقِبۡلَةَ الَّتِىۡ كُنۡتَ عَلَيۡهَآ اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ يَّتَّبِعُ الرَّسُوۡلَ مِمَّنۡ يَّنۡقَلِبُ عَلٰى عَقِبَيۡهِ ‌ؕ وَاِنۡ كَانَتۡ لَكَبِيۡرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِيۡنَ هَدَى اللّٰهُ ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِيْعَ اِيۡمَانَكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿143﴾
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر گواہ ہو جائیں ، جس قبلہ پر تم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے گو یہ کام مشکل ہے ، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ( ان پر کوئی مشکل نہیں ) اللہ تعالٰی تمہارے ایمان ضائع نہیں کرے گا اللہ تعالٰی لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے ۔
و كذلك جعلنكم امة وسطا لتكونوا شهداء على الناس و يكون الرسول عليكم شهيدا و ما جعلنا القبلة التي كنت عليها الا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله و ما كان الله ليضيع ايمانكم ان الله بالناس لرءوف رحيم
And thus we have made you a just community that you will be witnesses over the people and the Messenger will be a witness over you. And We did not make the qiblah which you used to face except that We might make evident who would follow the Messenger from who would turn back on his heels. And indeed, it is difficult except for those whom Allah has guided. And never would Allah have caused you to lose your faith. Indeed Allah is, to the people, Kind and Merciful.
Hum ney issi tarah tumhen aadil ummat banaya hai takay tum logon per gawah hojao aur rasool ( PBUH ) tum per gawah hojayen jiss qiblay per tum pehlay say thay ussay hum ney iss liye muqarrar kiya tha kay hum jaan len kay rasool ka sacha tabey daar kaun hai aur kaun hai jo apni aeyrhiyon kay ball palat jata hai go yeh kaam mushkil hai magar jinhen Allah ney hidayat di hai ( unn per koi mushkil nahi ) Allah Taalaa tumharay aemaal zaya na keray ga Allah Taalaa logon kay sath shafqat aur meharbani kerney wala hai.
اور ( مسلمانو ) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو ، اور رسول تم پر گواہ بنے ( ٩٠ ) اور جس قبلے پر تم پہلے کار بند تھے ، اسے ہم نے کسی اور وجہ سے نہیں ، بلکہ صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کا حکم مانتا ہے اور کون التے پاؤں پھر جاتا ہے ( ٩١ ) ؟ اور اس میں شک نہیں کہ یہ بات تھی بڑی مشکل ، لیکن ان لوگوں کے لیے ( ذرا بھی مشکل نہ ہوئی ) جن کو اللہ نے ہدایت دے دی تھی ۔ اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کردے ۔ ( ٩٢ ) درحقیقت اللہ لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل ، کہ تم لوگوں پر گواہ ہو ( ف۲۵۸ ) اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ( ف۲۵۹ ) اور اے محبوب! تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے ۔ ( ف۲٦۰ ) اور بیشک یہ بھاری تھی مگر ان پر ، جنہیں اللہ نے ہدایت کی اور اللہ کی شان نہیں کہ تمہارا ایمان اکارت کرے ( ف۲٦۱ ) بیشک اللہ آدمیوں پر بہت مہربان ، رحم والا ہے ۔
اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امّتِ وَسَط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو ۔ 144 پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے ، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے ۔ 145 یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت ، مگر ان لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا ، جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے ، اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا ، یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے ۔
اور ( اے مسلمانو! ) اسی طرح ہم نے تمہیں ( اعتدال والی ) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور ( ہمارا یہ برگزیدہ ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تم پر گواہ ہو ، اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم ( پرکھ کر ) ظاہر کر دیں کہ کون ( ہمارے ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پیروی کرتا ہے ( اور ) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے ، اور بیشک یہ ( قبلہ کا بدلنا ) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت ( و معرفت ) سے نوازا ، اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان ( یونہی ) ضائع کردے ، بیشک اﷲ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :144 یہ اُمّتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا اعلان ہے ۔ ”اسی طرح“ کا اشارہ دونوں طرف ہے: اللہ کی اس رہنمائی کی طرف بھی ، جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرنے والوں کو سیدھی راہ معلوم ہوئی اور وہ ترقی کرتے کرتے اس مرتبے پر پہنچے کہ ” اُمّتِ وَسَط“ قرار دیے گئے ، اور تحویلِ قبلہ کی طرف بھی کہ نادان اسے محض ایک سَمْت سے دُوسری سَمْت کی طرف پھرنا سمجھ رہے ہیں ، حالانکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سَمْت قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزُول کیا اور اُمّتِ محمدیہ کو اس پر فائز کر دیا ۔ ”اُمتِ وَسَط“ کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دُوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے ، جو عدل و انصاف اور توسّط کی روش پر قائم ہو ، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو ، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق ، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں”اُمّتِ وَسَط“ اس لیے بنایا گیا ہے کہ”تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسُول تم پر گواہ ہو“ تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوعِ انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گا ، اس وقت رسُول ہمارے ذمّہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکرِ صحیح اور عمل صالح اور نظام عدل کی جو تعلیم ہم نے اسے دی تھی ، وہ اس نے تم کو بےکم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور عملاً اس کے مطابق کام کر کے دکھا دیا ۔ اس کے بعد رسُول کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہوگا اور یہ شہادت دینی ہوگی کہ رسُول نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا ، وہ تم نے انہیں پہنچانے میں ، اور جو کچھ رسُول نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے ۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمّہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسُول صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمّت کے لیے خدا ترسی ، راست روی ، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے ، اسی طرح اس اُمّت کو بھی تمام دنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے ، حتّٰی کہ اس کے قول اور عمل اور برتاؤ ، ہر چیز کو دیکھ کر دنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے ، راست روی یہ ہے ، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے ۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمّہ داری بڑی سخت تھی ، حتّٰی کہ اگر وہ اس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے ، اسی طرح دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمّہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے ۔ اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت ، جو تیرے رسُول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی ، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے ، تو ہم بہت بری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا ۔ ہماری امامت کے دَور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں ، ان سب کے لیے ائمہء شر اور شیاطینِ انس و جِنّ کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے ۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت ، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا ، تو تم کہاں مر گئے تھے ۔ س ُوْرَةُ الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :145 یعنی اس سے مقصُود یہ دیکھنا تھا کہ کون لوگ ہیں جو جاہلیّت کے تعصّبات اور خاک و خون کی غلامی میں مبتلا ہیں ، اور کون ہیں جو ان بندشوں سے آزاد ہو کر حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہیں ۔ ایک طرف اہل عرب اپنے وطنی و نسلی فخر میں مبتلا تھے اور عرب کے کعبے کو چھوڑ کر باہر کے بیت المقدس کو قبلہ بنانا ان کی اس قوم پرستی کے بُت پر ناقابلِ برداشت ضرب تھا ۔ دُوسری طرف بنی اسرائیل اپنی نسل پرستی کے غرور میں پھنسے ہوئے تھے اور اپنے آبائی قبلے کے سوا کسی دُوسرے قبلے کو برداشت کرنا ان کے لیے محال تھا ۔ ظاہر ہے کہ یہ بُت جن لوگوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہوں ، وہ اس راستے پر کیسے چل سکتے تھے ، جس کی طرف اللہ کا رسُول انہیں بُلا رہا تھا ۔ اس لیے اللہ نے ان بُت پرستوں کو سچّے حق پرستوں سے الگ چھانٹ دینے کے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تاکہ جو لوگ عربیّت کے بُت کی پرستش کرتے ہیں ، وہ الگ ہو جائیں ۔ پھر اس قبلے کو چھوڑ کر کعبے کو قبلہ بنایا تاکہ جو اسرائیلیت کے پرستار ہیں ، وہ بھی الگ ہو جائیں ۔ اس طرح صرف وہ لوگ رسُول کے ساتھ رہ گئے ، جو کسی بُت کے پرستار نہ تھے ، محض خدا کے پرستار تھے ۔
پھر فرماتا ہے کہ اس پسندیدہ قبلہ کی طرف تمہیں متوجہ کرنا اس لیے ہے کہ تم خود بھی پسندیدہ امت ہو تم اور امتوں پر قیامت کے دن گواہ بنے رہو گے کیونکہ وہ سب تمہاری فضیلت مانتے ہیں وسط کے معنی یہاں پر بہتر اور عمدہ کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ قریش نسب کے اعتبار سے وسط عرب ہیں اور کہا گیا ہے حضور علیہ السلام اپنی قوم میں وسط تھے یعنی اشرف نسب والے اور صلوۃ وسطی یعنی افضل تر نماز جو عصر ہے جیسے صحیح احادیث سے ثابت ہے اور چونکہ تمام امتوں میں یہ امت بھی بہتر افضل اور اعلی تھی اس لئے انہیں شریعت بھی کامل راستہ بھی بالکل درست ملا اور دین بھی بہت واضح دیا گیا جیسے فرمایا ( هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ) 22 ۔ الحج:78 ) اس اللہ نے تمہیں چن لیا اور تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں کی تمہارے باپ ابراہیم کے دین پر تم ہو ۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے اس سے پہلے بھی اور اس میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نوح علیہ السلام کو قیامت کے دن بلایا جائے گا اور ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے میرا پیغام میرے بندوں کو پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں اللہ پہنچا دیا تھا ۔ ان کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پرسش ہوگی کیا نوح علیہ السلام نے میری باتیں تمہیں پہنچائی تھیں وہ صاف انکار کریں گے اور کہیں گے ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا تمہاری امت انکار کرتی ہے تم گواہ پیش کرو یہ کہیں گے کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت میری گواہ ہے یہی مطلب اس آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ) 2 ۔ البقرۃ:143 ) کا ہے وسط کے معنی عدل کے ہیں اب تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے اور میں تم پر گواہی دوں گا ( بخاری ترمذی ، نسائی ابن ماجہ ) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے قیامت کے دن نبی آئیں گے اور ان کے ساتھ ان کی امت کے صرف دو ہی شخص ہوں گے اور اس سے زیادہ بھی اس کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نبی نے تمہیں تبلیغ کی تھی؟ وہ انکار کریں گے نبی سے کہا جائے گا تم نے تبلیغ کی وہ کہیں گے ہاں ، کہا جائے گا تمہارا گواہ کون ہے؟ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت ۔ پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت بلائی جائے گی ان سے یہی سوال ہو گا کہ کیا اس پیغمبر نے تبلیغ کی؟ یہ کہیں گے ہاں ، ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں کیسے علم ہوا ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے نبی آئے اور آپ نے خبر دی کہ انبیاء علیہم السلام نے تیرا پیغام اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا ۔ یہی مطلب ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان ( وکذلک ) الخ کا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں وسطاً بمعنی عدلاً آیا ہے ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور میری امت قیامت کے دن ایک اونچے ٹیلے پر ہوں گے تمام مخلوق میں نمایاں ہو گے اور سب کو دیکھ رہے ہوں گے اس روز تمام دنیا تمنا کرے گی کہ کاش وہ بھی ہم میں سے ہوتے جس جس نبی کی قوم نے اسے جھٹلایا ہے ہم دربار رب العالمین میں شہادت دیں گے کہ ان تمام انبیاء نے حق رسالت ادا کیا تھا ۔ مستدرک حاکم کی ایک حدیث میں ہے کہ بنی مسلمہ کے قبیلے کے ایک شخص کے جنازے میں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے لوگ کہنے لگے حضور یہ بڑا نیک آدمی تھا ۔ بڑا متقی پارسا اور سچا مسلمان تھا اور بھی بہت سی تعریفیں کیں آپ نے فرمایا تم یہ کس طرح کہ رہے ہو؟ اس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدگی کا علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن ظاہرداری تو اس کی ایسی ہی حالت تھی آپ نے فرمایا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی پھر بنو حارثہ کے ایک شخص کے جنازے میں تھے لوگ کہنے لگے حضرت یہ برا آدمی تھا بڑا بد زبان اور کج خلق تھا آپ نے اس کی برائیاں سن کر پوچھا تم کیسے کہہ رہے ہو اس شخص نے بھی یہی کہا کہ آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی محمد بن کعب اس حدیث کو سن کر فرمانے لگے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں دیکھو قرآن بھی کہہ رہا ہے ( وکذلک ) الخ مسند احمد میں ہے ۔ ابو الاسود فرماتے ہیں میں مدینہ میں آیا یہاں بیماری تھی لوگ بکثرت مر رہے تھے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو ایک جنازہ نکلا اور لوگوں نے مرحوم کی نیکیاں بیان کرنی شروع کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی اتنے میں دوسرا جنازہ نکلا لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی میں نے کہا امیر المومنین کیا واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا میں نے وہی کہا جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مسلمان کی بھلائی کی شہادت چار شخص دیں اسے جنت میں داخل کرتا ہے ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر تین دیں؟ آپ نے فرمایا تین بھی ہم نے کہا اگر دو ہوں آپ نے فرمایا دو بھی ۔ پھر ہم نے ایک کی بابت کا سوال نہ کیا ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے قریب ہے کہ تم اپنے بھلوں اور بروں کو پہچان لیا کرو ۔ لوگوں نے کہا حضور کس طرح ؟ آپ نے فرمایا اچھی تعریف اور بری شہادت سے تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو پھر فرماتا ہے کہ اگلا قبلہ صرف امتحاناً تھا یعنی پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر کے پھر کعبۃ اللہ کی طرف پھیرنا صرف اس لئے تھا کہ معلوم ہو جائے کہ سچا تابعدار کون ہے؟ اور جہاں آپ توجہ کریں وہیں اپنی توجہ کرنے والا کون ہے؟ اور کون ہے جو ایک دم کروٹ لے لیتا ہے اور مرتد ہو جاتا ہے ، یہ کام فی الحقیقت اہم کام تھا لیکن جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار ہیں جو جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو فرمائیں سچ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم کرتا ہے ۔ اپنے بندوں کو جس طرح چاہے حکم دے جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے اسکا ہر کام ، ہر حکم حکمت سے پر ہے ان پر اس حکم کی بجا آوری کچھ بھی مشکل نہیں ۔ ہاں بیمار دل والے تو جہاں نیا حکم آیا انہیں فوراً نیا درد اٹھا قرآن کریم میں اور جگہ ہے ( وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ ۭ هَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا ۭ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ:127 ) یعنی جب کبھی کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض پوچھتے ہیں اس سے کس کا ایمان بڑھا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ایمانداروں کے ایمان بڑھتے ہیں اور ان کی دلی خوشی بھی اور بیمار دل والے اپنی پلیدی میں اور بڑھ جاتے ہیں اور جگہ فرمان ہے ( قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ) 41 ۔ فصلت:44 ) یعنی ایمان والوں کے لیے یہ ہدایت اور شفا ہے اور بے ایمان لوگوں کے کانوں میں بوجھ اور آنکھوں پر اندھاپا ہے اور جگہ فرمان ہے ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا ) 17 ۔ الاسرآء:82 ) یعنی ہمارا اتارا ہوا قرآن مومنوں کے لئے سراسر شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کا نقصان ہی بڑھتا رہتا ہے اس واقعہ میں بھی تمام بزرگ صحابہ ثابت قدم رہے اول سبقت کرنے والے مہاجر اور انصار دونوں قبیلوں کی طرف نماز پڑھنے والے ہیں ۔ چنانچہ اوپر حدیث بیان ہو چکی کہ کس طرح وہ نماز پڑھتے ہوئے یہ خبر سن کر گھوم گئے ۔ مسلم شریف میں روایت ہے کہ رکوع کی حالت میں تھے اور اسی میں کعبہ کی طرف پھر گئے جس سے ان کی کمال اطاعت اور اعلیٰ درجہ کی فرمان برداری ثابت ہوئی پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا ۔ یعنی تمہاری بیت المقدس کی طرف پڑھی ہوئی نمازیں رد نہیں ہوں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں بلکہ ان کی اعلیٰ ایمانداری ثابت ہوئی انہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کا ثواب عطا ہو گا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کے ساتھ تمہارے گھوم جانے کو ضائع نہ کرے گا پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ رؤف رحیم ہے؟ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگی قیدی عورت کو دیکھا جس سے اس کا بچہ چھوٹ گیا تھا وہ اپنے بچہ کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہی تھی اور جب وہ نہیں ملا تو قیدیوں میں سے جس کسی بچہ کو دیکھتی اسی کو گلے لگا لیتی یہاں تک کہ اس کا اپنا بچہ مل گیا خوشی خوشی لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا سینے سے لگایا پیار کیا اور اس کے منہ میں دودھ دیا یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا بتاؤ تو یہ اپنا بس چلتے ہوئے اس بچہ کو آگ میں ڈال دے گی؟ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نہیں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم جس قدر یہ ماں اپنے بچہ پہ مہربان ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رؤف و رحیم ہے ۔