Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
سَيَقُوۡلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰٮهُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِهِمُ الَّتِىۡ كَانُوۡا عَلَيۡهَا ‌ؕ قُل لِّلّٰهِ الۡمَشۡرِقُ وَالۡمَغۡرِبُ ؕ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ اِلٰى صِراطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏ ﴿142﴾
عنقریب نادان لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالٰی ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے ۔
سيقول السفهاء من الناس ما ولىهم عن قبلتهم التي كانوا عليها قل لله المشرق و المغرب يهدي من يشاء الى صراط مستقيم
The foolish among the people will say, "What has turned them away from their qiblah, which they used to face?" Say, "To Allah belongs the east and the west. He guides whom He wills to a straight path."
Un qarib nadan log kahen gay kay jiss qabeelay per yeh thay iss say enhen kiss cheez na hataya? Aap keh dijiye kay mashriq-o-maghrib ka maalik Allah Taalaa hi hai woh jissay chahaye seedhi raah ki hidayat ker dey.
اب یہ بے وقوف لوگ کہیں گے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جس نے ان ( مسلمانوں ) کو قبلے سے رخ پھیرنے پر آمادہ رکدیا جس کی طرف وہ منہ کرتے چلے آرہے تھے؟ آپ کہہ دیجیے کہ مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کی ہیں ۔ وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت کردیتا ہے ( ٨٩ )
اب کہیں گے ( ف ۲۵۵ ) بیوقوف لوگ ، کس نے پھیردیامسلمانوں کو ، ان کے اس قبلہ سے ، جس پر تھے ( ف۲۵٦ ) تم فرمادو کہ پورب پچھم ( مشرق مغرب ) سب اللہ ہی کا ہے ( ف۲۵۷ ) جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے ۔
نادان لوگ ضرور کہیں گے : اِنہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے ، اس سے یکایک پھر گئے 142 ؟ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ان سے کہو : مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں ۔ اللہ جسے چاہتا ہے ، سیدھی راہ دکھادیتا ہے ۔ 143
اَب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے کہ ان ( مسلمانوں ) کو اپنے اس قبلہ ( بیت المقدس ) سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ ( پہلے سے ) تھے ، آپ فرما دیں: مشرق و مغرب ( سب ) اﷲ ہی کے لئے ہے ، وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :142 نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہء طیّبہ میں سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المَقْدِس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے ۔ پھر کعبے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم آیا ، جس کی تفصیل آگے آتی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :143 یہ ان نادانوں کے اعتراض کا پہلا جواب ہے ۔ ان کے دماغ تنگ تھے ، نظر محدُود تھی ، سمت اور مقام کے بندے بنے ہوئے تھے ۔ ان کا گمان یہ تھا کہ خدا کسی خاص سمت میں مُقَیّد ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے ان کے جاہلانہ اعتراض کی تردید میں یہی فرمایا گیا کہ مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں ۔ کسی سمت کو قبلہ بنانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ اسی طرف ہے ۔ جن لوگوں کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے ، وہ اس قسم کی تنگ نظریوں سے بالاتر ہوتے ہیں اور ان کے لیے عالمگیر حقیقتوں کے ادراک کی راہ کھُل جاتی ہے ۔ ( ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۱۱۵ ، نمبر۱۱٦ )
تحویل کعبہ ایک امتحان بھی تھا ۔ اور تقرر جہت بھی بیوقوفوں سے مراد یہاں مشرکین عرب اور علماء یہود اور منافقین وغیرہ ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی لیکن خود آپ کی چاہت یہ تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ شریف ہو ۔ چنانچہ اب حکم آ گیا اور آپ نے عصر کی نماز اس کی طرف ادا کی ۔ آپ کے ساتھ کے نمازیوں میں سے ایک شخص کسی اور مسجد میں پہنچا ، وہاں جماعت رکوع میں تھی اس نے ان سے کہا اللہ کی قسم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نماز پڑھ کر ابھی آ رہا ہوں ۔ جب ان لوگوں نے سنا تو اسی حالت میں وہ کعبہ کی طرف گھوم گئے ، اب بعض لوگوں نے یہ کہا کہ جو لوگ اگلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں ان کی نمازوں کا کیا حال ہے ۔ تب یہ فرمان نازل ہوا کہ ( وما کان اللہ ) الخ یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت ( قدنری ) الخ یعنی اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہ کرے گا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو آپ اکثر آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے یہاں تک کہ آیت جس پر فرمان ( ماکان اللہ ) الخ نازل ہوا اور ان کی نمازوں کی طرف سے اطمینان ہوا ۔ اب بعض بیوقوف اہل کتاب نے قبلہ کے بدلے جانے پر اعتراض کیا ، جس پر یہ آیتیں ( سَیَقُوْلُ السُّفَہَآءُ ) الخ نازل ہوئیں شروع ہجرت کے وقت مدینہ شریف میں آپ کو بیت المقدس کی طرف نمازیں ادا کرنے کا حکم ہوا تھا ۔ یہود اس سے خوش تھے لیکن آپ کی چاہت اور دعا قبلہ ابراہیمی کی تھی ۔ آخر جب یہ حکم نازل ہوا تو یہودیوں نے جھٹ سے اعتراض جڑ دیا ۔ جس کا جواب ملا کہ مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں خلاصہ یہ ہے کہ مکہ شریف میں آپ دونوں رکن کے درمیان نماز پڑھتے تھے تو آپ کے سامنے کعبہ ہوتا تھا اور بیت المقدس کے صخرہ کی طرف آپ کا منہ ہوتا تھا ، لیکن مدینہ جا کر یہ معاملہ مشکل ہو گیا ۔ دونوں جمع نہیں ہو سکتے تھے تو وہاں آپ کو بیت المقدس کی طرف نماز ادا کرنے کا حکم قرآن میں نازل ہوا تھا یا دوسری وحی کے ذریعہ یہ حکم ملا تھا ۔ بعض بزرگ تو کہتے ہیں یہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہادی امر تھا اور مدینہ آنے کے بعد کئی ماہ تک اسی طرف آپ نمازیں پڑھتے رہے گو چاہت اور تھی ۔ یہاں تک کہ پروردگار نے بیت العتیق کی طرف منہ پھیرنے کو فرمایا اور آپ نے اس طرف منہ کر کے پہلے نماز عصر پڑھی اور پھر لوگوں کو اپنے خطبہ میں اس امر سے آگاہ کیا ۔ بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ ظہر کی نماز تھی ۔ حضرت ابو سعید بن معلی فرماتے ہیں میں نے اور میرے ساتھی نے اول اول کعبہ کی طرف نماز پڑھی ہے اور ظہر کی نماز تھی بعض مفسرین وغیرہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قبلہ بدلنے کی آیت نازل ہوئی ۔ اس وقت آپ مسجد بنی سلمہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے ، دو رکعت ادا کر چکے تھے پھر باقی کی دو رکعتیں آپ نے بیت اللہ شریف کی طرف پڑھیں ، اسی وجہ سے اس مسجد کا نام ہی مسجد ذو قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد ہے ۔ حضرت نویلہ بنت مسلم فرماتی ہیں کہ ہم ظہر کی نماز میں تھے جب ہمیں یہ خبر ملی اور ہم نماز میں ہی گھوم گئے ۔ مرد عورتوں کی جگہ آگئے اور عورتیں مردوں کی جگہ جا پہنچیں ۔ ہاں اہل قبا کو دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت یہ خبر پہنچی بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگ مسجد قبا میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے ۔ اچانک کسی آنے والے نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رات کو حکم قرآنی نازل ہوا اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم ہو گیا ۔ چنانچہ ہم لوگ بھی شام کی طرف سے منہ ہٹا کر کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناسخ کے حکم کا لزوم اسی وقت ہوتا ہے ۔ جب اس کا علم ہو جائے گو وہ پہلے ہی پہنچ چکا ہو ۔ اس لئے کہ ان حضرات کو عصر مغرب اور عشا کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا ۔ واللہ اعلم ۔ اب باطل پرست کمزور عقیدے والے باتیں بنانے لگے کہ اس کی کیا وجہ ہے کبھی اسے قبلہ کہتا ہے کبھی اسے قبلہ قرار دیتا ہے ۔ انہیں جواب ملا کہ حکم اور تصرف اور امر اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جدھر منہ کرو ۔ اسی طرف اس کا منہ ہے بھلائی اسی میں نہیں آ گئی بلکہ اصلیت تو ایمان کی مضبوطی ہے جو ہر حکم کے ماننے پر مجبور کر دیتی ہے اور اس میں گویا مومنوں کو ادب سکھایا گیا ہے کہ ان کا کام صرف حکم کی بجا آوری ہے جدھر انہیں متوجہ ہونے کا حکم دیا جائے یہ متوجہ ہو جاتے ہیں اطاعت کے معنی اس کے حکم کی تعمیل کے ہیں اگر وہ ایک دن میں سو مرتبہ ہر طرف گھمائے تو ہم بخوشی گھوم جائیں گے ہم اس کے غلام ہیں ہم اس کے ماتحت ہیں اس کے فرمانبردار ہیں اور اس کے خادم ہیں جدھر وہ حکم دے گا پھیر لیں گے ۔ امت محمدیہ پر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے کہ انہیں خلیل الرحمن علیہ السلام کے قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا جو اسی اللہ لا شریک کے نام پر بنایا گیا ہے اور تمام تر فضیلتیں جسے حاصل ہیں ۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث ہے کہ یہودیوں کو ہم سے اس بات پر بہت حسد ہے کہ اللہ نے ہمیں جمعہ کے دن کی توفیق دی اور یہ اس سے بھٹک گئے اور اس پر کہ ہمارا قبلہ یہ ہے اور وہ اس سے گمراہ ہو گئے اور بڑا حسد ان کو ہماری آمین کہنے پر بھی ہے جو ہم امام کے پیچھے کہتے ہیں