Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَقِيۡلَ يٰۤاَرۡضُ ابۡلَعِىۡ مَآءَكِ وَيٰسَمَآءُ اَقۡلِعِىۡ وَغِيۡضَ الۡمَآءُ وَقُضِىَ الۡاَمۡرُ وَاسۡتَوَتۡ عَلَى الۡجُوۡدِىِّ‌ وَقِيۡلَ بُعۡدًا لِّـلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿44﴾
فرما دیا گیا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان بس کر تھم جا ، اسی وقت پانی سکھا دیا گیا اور کام پورا کر دیا گیا اور کشتی جودی نامی پہاڑ پر جا لگی اور فرما دیا گیا کہ ظالم لوگوں پر لعنت نازل ہو ۔
و قيل يارض ابلعي ماءك و يسماء اقلعي و غيض الماء و قضي الامر و استوت على الجودي و قيل بعدا للقوم الظلمين
And it was said, "O earth, swallow your water, and O sky, withhold [your rain]." And the water subsided, and the matter was accomplished, and the ship came to rest on the [mountain of] Judiyy. And it was said, "Away with the wrongdoing people."
Farma diya gaya kay aey zamin apney pani ko nigal jaa aur aey aasman bus ker thum jaa ussi waqt pani sukha diya gaya aur kaam poora ker diya gaya aur kashti “jodi” naami pahar per jaa lagi aur farma diya gaya kay zalim logon per laanat nazil ho.
اور حکم ہوا کہ : اے زمین ! اپنا پانی نگل لے ، اور اے آسمان ! تھم جا ۔ چنانچہ پانی اتر گیا اور سارا قصہ چکا دیا گیا ۔ ( ٢٤ ) کشتی جودی پہاڑ پر آٹھہری ( ٢٥ ) اور کہہ دیا گیا کہ : بربادی ہے اس قوم کی جو ظالم ہو ۔
اور حکم فرمایا گیا کہ اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان! تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی ( ف۹۵ ) کوہ ِ جودی پر ٹھہری ( ف۹٦ ) اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ ،
حکم ہوا اے زمین ، اپنا سارا پانی نِگل جا اور اے آسمان ، رک جا ۔ چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا ، فیصلہ چکا دیا گیا ، کشتی جودی پر ٹِک 46 گئی ، اور کہہ دیا گیا کہ دور ہوئی ظالموں کی قوم!
اور ( جب سفینۂ نوح کے سوا سب ڈوب کر ہلاک ہو چکے تو ) حکم دیا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان! تو تھم جا ، اور پانی خشک کر دیا گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی جودی پہاڑ پر جا ٹھہری ، اور فرما دیا گیا کہ ظالموں کے لئے ( رحمت سے ) دوری ہے
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :46 جودی پہاڑ کردستان کے علاقہ میں جزیرہ ابن عمر کے شمالی مشرقی جانب واقع ہے ۔ بائیبل میں اس کشتی کے ٹھیرنے کی جگہ اراراط بتائی گئی ہے جو ارمینیا کے ایک پہاڑ کا نام بھی ہے اور ایک سلسلہ کوہستان کے نام بھی ۔ سلسلہ کوہستان کے معنی میں جس کو اراراط کہتے ہیں وہ آرمینیا کی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کردستان تک چلتا ہے اور جبل الجودی اسی سلسلے کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے ۔ قدیم تاریخوں میں کشتی کے ٹھیرنے کی یہی جگہ بتائی گئی ہے ۔ چنانچہ مسیح علیہ السلام سے ڈھائی سو برس پہلے بابل کے ایک مذہبی پیشوا بیراسس ( Berasus ) نے پرانی کلدانی روایات کی بنا پر اپنے ملک کی جو تاریخ لکھی ہے اس میں وہ کشتی نوح کے ٹھیرنے کا مقام جودی ہی بتاتا ہے ۔ ارسطو کا شاگرد ابیڈنیوس بھی اپنی تاریخ میں اس کی تصدیق کرتا ہے ۔ نیز وہ اپنے زمانہ کا حال بیان کرتا ہے کہ عراق میں بہت سے لوگوں کے پاس اس کشتی کے ٹکڑے محفوظ ہیں جنہیں وہ گھول گھول کر بیماروں کو پلاتے ہیں ۔ یہ طوفان جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے ، عالمگیر طوفان تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح علیہ السلام کی قوم آباد تھی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا ۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا ( پدائش 7:18-24 ) مگر قرآن میں یہ بات کہیں نہیں کہی گئی ہے ۔ قرآن کے اشارات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انہی لوگوں کی اولاد سے ہیں جو طوفان نوح سے بچالیے گئے تھے ، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو ، کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہوسکتی ہے کہ اس وقت بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود رہی ہو جہاں طوفان آیا تھا ، اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں ۔ اس نظریہ کی تائید دو چیزوں سے ہوتی ہے ایک یہ کہ دجلہ وفرات کی سرزمین میں تو ایک زبردست طوفان کا ثوبت تاریخی روایات سے آثار قدیمہ سے اور طبقات الارض سے ملتا ہے ۔ لیکن روئے زمیں کے تمام خطوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالمگیر طوفان کا یقین کیا جاسکے ۔ دوسرے یہ کہ روئے زمین کی اکثر وبیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں ، حتی کہ آسٹریلیا ، امریکہ اور نیوگنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آباؤ واجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا ۔ اور پھر جب ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ گئیں ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ اعراف حاشیہ نمبر47 )
طوفان نوح علیہ السلام کی روداد روئے زمین کے سب لوگ اس طوفان میں جو درحقیقت غضب الٰہی اور مظلوم پیغمبر کی بد دعا کا عذاب تھا غرق ہوگئے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ عزوجل نے زمین کو اس پانی کے نگل لینے کا حکم دیا جو اس کا اگلا ہوا اور آسمان کا برسایا ہوا تھا ۔ ساتھ ہی آسمان کو بھی پانی برسانے سے رک جانے کا حکم ہوگیا ۔ پانی گھٹنے لگا اور کام پورا ہوگیا یعنی تمام کافر نابود ہوگئے ، صرف کشتی والے مومن ہی بچے ۔ کشتی بحکم ربی جو دی پر رکی ۔ مجاہد کہتے ہیں یہ جزیرہ میں ایک پہاڑ ہے سب پہاڑ ڈبو دیئے گئے تھے اور یہ پہاڑ بوجہ اپنی عاجزی اور تواضع کے غرق ہو نے سے بچ رہا تھا یہیں کشتی نوح لنگر انداز ہوئی ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مہینے بھر تک یہیں لگی رہی اور سب اتر گئے اور کشتی لوگوں کی عبرت کے لیے یہیں ثابت و سالم رکھی رہی یہاں تک کہ اس امت کے اول لوگوں نے بھی اسے دیکھ لیا ۔ حالانکہ اس کے بعد کی بہترین اور مضبوط سینکڑوں کشتیاں بنیں بگڑیں بلکہ راکھ اور خاک ہو گئیں ۔ ضحاک فرماتے ہیں جودی نام کا پہاڑ موصل میں ہے ۔ بعض کہتے ہیں طور پہاڑ کو ہی جودی بھی کہتے ہیں ۔ زربن حبیش کو ابو اب کندہ سے داخل ہو کر دائیں طرف کے زاویہ میں نماز بکثرت پڑھتے ہوئے دیکھ کر نوبہ بن سالم نے پوچھا کہ آپ جو جمعہ کے دن برابر یہاں اکثر نماز پڑھا کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کشتی نوح یہیں لگی تھی ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں بال بچوں سمیت کل اسی ( 80 ) آدمی تھے ۔ ایک سو پچاس دن تک وہ سب کشتی میں ہی رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کشتی کا منہ مکہ شریف کی طرف کر دیا ۔ یہاں وہ چالیس دن تک بیت اللہ شریف کا طواف کرتی رہی ۔ پھر اسے اللہ تعالیٰ نے جودی کی طرف روانہ کر دیا ، وہاں وہ ٹھہر گئی ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کوے کو بھیجا کہ وہ خشکی کی خبر لائے ۔ وہ ایک مردار کے کھانے میں لگ گیا اور دیر لگا دی ۔ آپ نے ایک کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتوں کے درخت کا پتہ اور پنجوں میں مٹی لے کر واپس آیا ۔ اس سے حضرت نوح علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ پانی سوکھ گیا ہے اور زمین ظاہر ہو گئی ہے ۔ پس آپ جودی کے نیچے اترے اور وہیں ایک بستی کی بنا ڈال دی جسے ثمانین کہتے ہیں ۔ ایک دن صبح کو جب لوگ جاتے تو ہر ایک کی زبان بدلی ہوئی تھی ۔ ایسی زبانیں بولنے لگے جن میں سب سے اعلیٰ اور بہترین عربی زبان تھی ۔ ایک کو دوسرے کا کلام سمجھنا محال ہو گیا ۔ نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سب زبانیں معلوم کرا دیں ، آپ ان سب کے درمیان مترجم تھے ۔ ایک کا مطلب دوسرے کو سمجھا دیتے تھے ۔ حضرت کعب احبار فرماتے ہیں کہ کشتی نوح مشرق مغرب کے درمیان چل پھر رہی تھی پھر جودی پر ٹھہر گئی ۔ حضرت قتادہ وغیرہ فرماتے ہیں رجب کی دسویں تاریخ مسلمان اس میں سوار ہوئے تھے پانچ ماہ تک اسی میں رہے انہیں لے کر کشتی جودی پر مہینے بھر تک ٹھہری رہی ۔ آخر محرم کے عاشورے کے دن وہ سب اس میں سے اترے ۔ اسی قسم کی ایک مرفوع حدیث بھی ابن جریر میں ہے ، انہوں نے اس دن روزہ بھی رکھا ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ و علیہ وسلم نے چند یہودیوں کو عاشوررے کے دن روزہ رکھے ہوئے دیکھ کر ان سے اس کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتارا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبو دیا تھا ۔ اور اسی دن کشتی نوح جودی پر لگی تھی ۔ پس ان دونوں پیغمبروں نے شکر الٰہی کا روزہ اس دن رکھا تھا ۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کا سب سے زیادہ حق دار میں ہوں اور اس دن کے روزے کا میں زیادہ مستحق ہوں ۔ پس آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں سے جو آج روزے سے ہو وہ تو اپنا روزہ پورا کرے اور جو ناشتہ کر چکا ہو وہ بھی باقی دن کچھ نہ کھائے ۔ یہ روایت اس سند سے تو غریب ہے لیکن اس کے بعض حصے کے شاہد صحیح حدیث میں بھی موجود ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ظالموں کو خسارہ ، ہلاکت اور رحمت حق سے دوری ہوئی ۔ وہ سب ہلاک ہوئے ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا ۔ تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ قوم نوح میں سے کسی پر بھی رحم کرنے والا ہوتا تو اس بچے کی ماں پر رحم کرتا ۔ حضرت نوح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تک ٹھہرے آپ نے ایک درخت بویا تھا جو سو سال تک بڑھتا اور بڑا ہوتا رہا پھر اسے کاٹ کر تختے بنا کر کشتی بنانی شروع کی ۔ کافر لوگ مذاق اڑاتے کہ یہ اس خشکی میں کشتی کیسے چلائیں گے؟ آپ جواب دیتے تھے کہ عنقریب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے جب آپ بنا چکے اور پانی زمین سے ابلنے اور آسمان سے برسنے لگا اور گلیاں اور راستے پانی سے ڈوبنے لگے تو اس بچے کی ماں جسے اپنے اس بچے سے غایت درجے کی محبت کی تھی وہ اسے لے کر پہاڑ کی طرف چلی گئی اور جلدی جلدی اس پر چڑھنا شروع کیا ، تہائی حصے پر چڑھ گئی لیکن جب اس نے دیکھا کہ پانی وہاں بھی پہنچا تو اور اوپر کو چڑھی ۔ دو تہائی کو پہنچی جب پانی وہاں بھی پہنچا تو اس نے چوٹی پر جا کر دم لیا لیکن پانی وہاں بھی پہنچ گیا جب گردن گردن پانی چڑھ گیا تو اس نے اپنے بچے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اونچا اٹھالیا لیکن پانی وہاں بھی پہنچا اور ماں بچہ دنوں غرق ہوگئے ۔ پس اگر اس دن کوئی کافر بھی بچنے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس بچے کی ماں پر رحم کرتا ۔ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے کہ کعب احبار ، مجاہد اور ابن جبیر سے بھی اس بچے اور اس کی ماں کا یہی قصہ مروی ہے ۔