Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
قَالُوۡا يٰلُوۡطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنۡ يَّصِلُوۡۤا اِلَيۡكَ‌ فَاَسۡرِ بِاَهۡلِكَ بِقِطۡعٍ مِّنَ الَّيۡلِ وَلَا يَلۡتَفِتۡ مِنۡكُمۡ اَحَدٌ اِلَّا امۡرَاَتَكَ‌ؕ اِنَّهٗ مُصِيۡبُهَا مَاۤ اَصَابَهُمۡ‌ؕ اِنَّ مَوۡعِدَهُمُ الصُّبۡحُ‌ؕ اَلَيۡسَ الصُّبۡحُ بِقَرِيۡبٍ‏ ﴿81﴾
اب فرشتوں نے کہا اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو ۔ تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہیئے بجز تیری بیوی کے اس لئے کہ اسے بھی وہی پہنچنے والا ہے جو ان سب کو پہنچے گا ، یقیناً ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے ، کیا صبح بالکل قریب نہیں ۔
قالوا يلوط انا رسل ربك لن يصلوا اليك فاسر باهلك بقطع من اليل و لا يلتفت منكم احد الا امراتك انه مصيبها ما اصابهم ان موعدهم الصبح اليس الصبح بقريب
The angels said, "O Lot, indeed we are messengers of your Lord; [therefore], they will never reach you. So set out with your family during a portion of the night and let not any among you look back - except your wife; indeed, she will be struck by that which strikes them. Indeed, their appointment is [for] the morning. Is not the morning near?"
Abb farishton ney kaha aey loot! Hum teray perwerdigar kay bhejay huye hain na mumkin hai kay yeh tujh tak phonch payen pus tu apney ghar walon ko ley ker kuch raat rahey nikal khara ho. Tum mein say kissi ko murr ker bhi na dekhna chahaiye ba-juz teri biwi kay iss liye kay ussay bhi wohi phonchney wala hai jo inn sab ko phonchay ga yaqeenan inn kay waday ka waqt subha ka hai kiya subha bilkul qarib nahi.
۔ ( اب ) فرشتوں نے ( لوط سے ) کہا : اے لوط ! ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ۔ یہ ( کافر ) لوگ ہرگز تم تک رسائی حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ لہذا تم رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے روانہ ہوجاؤ ، اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھے ۔ ہاں مگر تمہاری بیوی ( تمہارے ساتھ نہیں جائے گی ) اس پر بھی وہی مصیبت آنے والی ہے جو اور لوگوں پر آرہی ہے ۔ یقین رکھو کہ ان ( پر عذاب نازل کرنے ) کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے ۔ کیا صبح بالکل نزدیک نہیں آگئی ۔
فرشتے بولے اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں ( ف۱٦۵ ) وہ تم تک نہیں پہنچ سکتے ( ف۱٦٦ ) تو اپنے گھر والوں کو راتوں رات لے جاؤ اور تم میں کوئی پیٹھ پھیر کر نہ دیکھے ( ف۱٦۷ ) سوائے تمہاری عورت کے اسے بھی وہی پہنچنا ہے جو انھیں پہنچے گا ( ف۱٦۸ ) بیشک ان کا وعدہ صبح کے وقت کا ہے ( ف۱٦۹ ) کیا صبح قریب نہیں ،
“ تب فرشتوں نے اس سے کہا کہ ” اے لوط ، ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ، یہ لوگ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ۔ بس تو کچھ رات رہے اپنے اہل و عیال کو لے کر نِکل جا ۔ اور دیکھو ، تم میں سے کوئی شخص پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے ۔ 89 مگر تیری بیوی ﴿ ساتھ نہیں جائے گی﴾ کیونکہ اس پر بھی وہی کچھ گزرنے والا ہے جو ان لوگوں پر گزرنا ہے ۔ 90 ان کی تباہی کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ صبح ہوتے اب دیر ہی کتنی ہے!
۔ ( تب فرشتے ) کہنے لگے: اے لوط! ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ تم تک ہرگز نہ پہنچ سکیں گے ، پس آپ اپنے گھر والوں کو رات کے کچھ حصہ میں لے کر نکل جائیں اور تم میں سے کوئی مڑ کر ( پیچھے ) نہ دیکھے مگر اپنی عورت کو ( ساتھ نہ لینا ) ، یقینًا اسے ( بھی ) وہی ( عذاب ) پہنچنے والا ہے جو انہیں پہنچے گا ۔ بیشک ان ( کے عذاب ) کا مقررہ وقت صبح ( کا ) ہے ، کیا صبح قریب نہیں ہے
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :89 جیسا کہ ابھی ہم بتا چکے ہیں ، یہ دعا حضرت موسیٰ نے زمانۂ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے میں کی تھی اور اس وقت کی تھی جب پے دَر پے نشانات دیکھ لینے اور دین کی حجت پوری ہو جانے کے بعد بھی فرعون اور اس کے اعیان سلطنت حق کی دشمنی پر انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ جمے رہے ۔ ایسے موقع پر پیغمبر جو بد دعا کرتا ہے وہ ٹھیک ٹھیک وہی ہوتی ہے جو کفر پر اصرار کر نے والوں کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے ، یعنی یہ کہ پھر انہیں ایمان کی توفیق نہ بخشی جائے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :90 جو لوگ حقیقت کو نہیں جانتے اور اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے وہ باطل کے مقابلہ مین حق کی کمزوری ، اور اقامت حق کے لیے سعی کرنے والوں کی مسلسل ناکامیاں ، اور ائمہ باطل کے ٹھاٹھ اور ان کی دنیوی سرفرازیاں دیکھ کر یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ اس کے باغی دنیا پر چھائے رہیں ، اور شاید حضرت حق خود ہی باطل کے مقابلہ میں حق کی تائید کرنا نہیں چاہتے ، پھر وہ نادان لوگ آخر کار اپنی بدگمانیوں کی بنا پر یہ نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اقامتِ حق کی سعی لاحاصل ہے اور اب مناسب یہی ہے کہ اس ذرا سی دینداری پر راضی ہو کر بیٹھ رہا جائے جس کی اجازت کفر و فسق کی سلطانی میں مل رہی ہو ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اور ان کے پیرووں کو اسی غلطی سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ صبر کے ساتھ انہی ناموافق حالات میں کام کیے جاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو تمہیں بھی وہی غلط فہمی ہو جائے جو ایسے حالات میں جاہلوں اور نادانوں کو عمومًا لاحق ہو جایا کرتی ہے ۔