Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَـفًا مِّنَ الَّيۡلِ‌ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ ‌ؕ ذٰ لِكَ ذِكۡرٰى لِلذّٰكِرِيۡنَ ‌ۚ‏ ﴿114﴾
دن کے دونوں سروں میں نماز برپا رکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے ۔
و اقم الصلوة طرفي النهار و زلفا من اليل ان الحسنت يذهبن السيات ذلك ذكرى للذكرين
And establish prayer at the two ends of the day and at the approach of the night. Indeed, good deeds do away with misdeeds. That is a reminder for those who remember.
Din kay dono siron mein namaz barpa rakh aur raat ki kaee sa’aton mein bhi yaqeenan nekiyan burayion ko door ker deti hain yeh naseehat hai naseehat pakarney walon kay liye.
اور ( اے پیغمبر ) دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کرو ۔ ( ٦٢ ) یقینا نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں ، ( ٦٣ ) یہ ایک نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو نصیحت مانیں ۔
اور نماز قائم رکھو دن کے دونوں کناروں ( ف۲۳۲ ) اور کچھ رات کے حصوں میں ( ف۲۳۳ ) بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں ، ( ف۲۳۳ ) یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کو ،
اور دیکھو ، نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر ۔ 113 درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ، یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لئے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں ۔ 114
اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے ۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں ۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :113 دن کے دونوں سروں پر سے مراد صبح اور مغرب ہے ، اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشاء کا وقت ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ارشاد اس زمانے کا ہے جب نماز کے لیے ابھی پانچ وقت مقرر نہیں کیے گئے تھے ۔ معراج کا واقعہ اس کے بعد پیش آیا جس میں پنج وقتہ نماز فرض ہوئی ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو بنی اسرائیل حاشیہ 95 ، طہ حاشیہ 111 ، الروم ، حاشیہ 124 ) ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :114 یعنی جو برائیاں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور جو برائیاں تمہارے ساتھ اس دعوت حق کی دشمنی میں کی جارہی ہیں ، ان سب کو دفع کرنے کا اصلی طریقہ یہ ہے کہ تم خود زیادہ سے زیادہ نیک بنو اور اپنی نیکی سے اس بدی کو شکست دو ، اور تم کو نیک بنانے کا بہترین ذریعہ نماز ہے جو خدا کی یاد کو تازہ کرتی رہے گی اور اس کی طاقت سے تم بدی کے اس منظم طوفان کا نہ صرف مقابلہ کر سکو گے بلکہ اسے دفع کر کے دنیا میں عملا خیر و صلاح کا نظام بھی قائم کرسکو گے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو العنکبوت حواشی77 تا 79
اوقات نماز کی نشاندہی ابن عباس وغیرہ کہتے ہیں دن کے دونوں سرے سے مراد صبح کی اور مغرب کی نماز ہے ۔ قتادہ ضحاک وغیرہ کا قول ہے کہ پہلے سرے سے مراد صبح کی نماز اور دوسرے سے مراد ظہر اور عصر کی نماز رات کی گھڑیوں سے مراد عشاء کی نماز بقول مجاہد وغیرہ مغرب و عشاء کی ۔ نیکیوں کو کرنا گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے ۔ سنن میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس مسلمان سے کئی گناہ ہو جائے پھر وہ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ لے ، تو اللہ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کیا پھر فرمایا اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا ہے اور آپ نے فرمایا ہے جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے ، جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے تمام اگلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔ مسند میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا ، وضو کیا ، پھر فرمایا میرے اس وضو کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے اور کھڑا ہو کر ظہر کی نماز ادا کرے ، اس کے صبح سے لے کر اب تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، پھر عصر کی نماز پڑھے ، تو ظہر سے عصر تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ، پھر مغرب کی نماز ادا کرے ، تو عصر سے لے کر مغرب تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ پھر عشاء کی نماز سے مغرب سے عشاء تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ پھر یہ سوتا ہے لوٹ پوٹ ہوتا ہے پھر صبح اٹھ کر نماز فجر پڑھ لینے سے عشاء سے لے کر صبح کی نماز تک کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔ یہی ہیں وہ بھلائیاں جو برائیوں کو دور کردیتی ہیں ۔ صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، بتلاؤ تو اگر تم میں سے کسی کے مکان کے دروازے پر ہی نہر جاری ہو اور وہ اس میں ہر دن پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کے جسم پر ذرا سی بھی میل باقی رہ جائے گا ؟ لوگوں کے نے کہا ہرگز نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس یہی مثال ہے ۔ پانچ نمازوں کی کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خطائیں اور گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پانچوں نمازیں اور جمعہ جمعہ تک اور رمضان رمضان تک کا کفارہ ہے جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے مسند احمد میں ہے ہر نماز اپنے سے پہلے کی خطاؤں کو مٹا دیتی ہے ۔ بخاری میں ہے کہ کسی شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا پھر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس گناہ کی ندامت ظاہر کی ۔ اس پر یہ آیت اتری اس نے کہا کیا میرے لیے ہی یہ مخصوص ہے؟ آپ نے جواب دیا نہیں بلکہ میری ساری امت کے لیے یہی حکم ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس نے کہا میں نے باغ میں اس عورت سے سب کچھ کیا ، ہاں جماع نہیں کیا اب میں حاضر ہوں جو سزا میرے لیے آپ تجویز فرمائیں میں برداشت کرلوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ چلا گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی اگر یہ بھی اپنے نفس کی پردہ پوشی کرتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برابر اسی شخص کی طرف دیکھتے رہے پھر فرمایا ۔ اسے واپس بلا لاؤ ۔ جب وہ آ گیا تو آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اس پر حضرت معاذ نے دریافت کیا کہ کیا یہ اسی کے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ سب لوگوں کے لیے ہے ۔ مسند احمد میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح تم میں روزیاں تقسیم فرمائیں ہیں ۔ اخلاق بھی تقسیم فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے ۔ جس سے خوش ہو اور اسے بھی جس سے غضبناک ہو ۔ لیکن دین صرف انہیں کو دیتا ہے جن سے اسے محبت ہو ۔ پس جسے دین مل جائے یقینا اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور اسکی زبان مسلمان نہ ہو جائے ۔ اور بندہ ایماندار نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اسکی ایذاؤں سے بےفکر نہ ہوجائیں ۔ لوگوں نے پوچھا ایذائیں کیا کیا ؟ فرمایا دھوکہ اور ظلم ۔ سنو جو شخص مال حرام کمائے پھر اس میں سے خرچ کرے اللہ اسے برکت سے محروم رکھتا ہے ۔ اگر وہ اس میں سے صدقہ کرے تو قبول نہیں ہوتا ۔ اور جتنا کچھ اپنے بعد باقی چھوڑ مرے وہ سب اس کے لیے آگ دوزخ کا توشہ بنتا ہے ۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو بھلائی سے مٹاتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ ایک عورت سودا لینے کے لیے آتی تھی افسوس کہ میں اسے کوٹھڑی میں لے جاکر اس سے بجز جماع کے اور ہر طرح لطف اندوز ہوا ۔ اب جو اللہ کا حکم ہو وہ مجھ پر جاری کیا جائے ۔ آپ نے فرمایا شاید اس کا خاوند غیر حاضر ہوگا اس نے کہا جی ہاں یہ بات تھی ۔ آپ نے فرمایا تم جاؤ حضرت ابو بکر صدیق سے یہ مسئلہ پوچھو ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے بھی یہی سوال کیا پس آپ نے بھی حضرت عمر کی طرف فرمایا پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی حالت بیان کی آپ نے فرمایا شاید اس کا خاوند اللہ کی راہ میں گیا ہوا ہوگا ؟ پس قرآن کریم کی یہ آیت اتری تو کہنے لگا کیا یہ خاص میرے لیے ہی ہے ؟ تو حضرت عمر نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا نہیں اس طرح صرف تیری ہی آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ سب لوگوں کے لیے عام ہے ۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر سچے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ وہ عورت مجھ سے ایک درہم کی کھجوریں خریدنے آئی تھی تو میں نے اسے کہا کے اندر کوٹھڑی میں اس سے بہت اچھی کھجوریں ہیں وہ اندر گئی میں نے بھی اندر جا کر اسے چوم لیا ۔ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو آپ نے فرمایا اللہ سے ڈر اور اپنے نفس پر پردہ ڈالے رہ ۔ لیکن ابو الیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھ سے صبر نہ ہو سکا ۔ میں نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا افسوس تونے ایک غازی مرد کی اس غیر حاضری میں ایسی خیانت کی ۔ میں نے تو یہ سن کر اپنے آپ کو جہنمی سمجھ لیا اور میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میرا اسلام اس کے بعد کا ہوتا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذرا سی دیر اپنی گردن جھکا لی اسی وقت حضرت جبرائیل یہ آیت لے کر اترے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک شخص نے آکر حضور صیلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی اللہ کی مقرر کردہ حد مجھ پر جاری کیجئے ۔ ایک دو دفعہ اس نے یہ کہا لیکن آپ نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا ۔ پھر جب نماز کھڑی ہوئی اور آپ نماز سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں ۔ آپ نے فرمایا تو نے اچھی طرح وضو کیا ؟ اور ہمارے ساتھ نماز پڑھی اس نے کہا جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا بس تو تو ایسا ہی ہے جیسے اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا ۔ خبردار اب کوئی ایسی حرکت نہ کرنا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ۔ حضرت ابو عثمان کا بیان ہے کہ میں حضرت سلمان کے ساتھ تھا ۔ انہوں نے ایک درخت کی خشک شاخ پکڑ کے اسے جھنجھوڑا تو تمام خشک پتے جھڑ گئے پھر فرمایا ابو عثمان تم پوچھتے نہیں ہو کہ میں نے یہ کیوں کیا ؟ میں نے کہا ہاں جناب ارشاد ہو ۔ فرمایا اسی طرح میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا ۔ پھر فرمایا جب بندہ مسلمان اچھی طرح وضو کر کے پانچوں نمازیں ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی چھڑ جاتے ہیں جیسے اس خشک شاخ کے پتے جھڑ گئے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں برائی اگر کوئی ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لو کہ اسے مٹا دے ۔ اور لوگوں سے خوش اخلاقی سے ملا کرو ۔ اور حدیث میں ہے جب تجھ سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لیا کر تاکہ یہ اسے مٹا دے میں نے کہا یارسول اللہ کیا لا الہ الا اللہ پڑھنا بھی نیکی ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تو بہترین اور افضل نیکی ہے ۔ ابو یعلی میں ہے ۔ دن رات کے جس وقت میں کوئی لا الہ الا اللہ پڑھے اس کے نامہ اعمال میں سے برائیاں مٹ جاتی ہیں یہاں تک کہ ان کی جگہ ویسی ہی نیکیاں ہو جاتی ہیں ۔ اس کے راوی عثمان میں ضعف ہے ۔ بزار میں ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کوئی خواہش ایسی نہیں چھوڑی جسے پوری نہ کی ہو ۔ آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کے ایک ہو نے کی اور میری رسالت کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا ہاں تو آپ نے فرمایا بس یہ ان سب پر غالب رہے گی ۔