Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّكَ‌ ؕ وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُمۡ‌ ؕ وَتَمَّتۡ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمۡلَـئَنَّ جَهَـنَّمَ مِنَ الۡجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجۡمَعِيۡنَ‏ ﴿119﴾
بجز ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے ، انہیں تو اسی لئے پیدا کیا ہے اور آپ کے رب کی یہ بات پوری ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے پر کروں گا ۔
الا من رحم ربك و لذلك خلقهم و تمت كلمة ربك لاملن جهنم من الجنة و الناس اجمعين
Except whom your Lord has given mercy, and for that He created them. But the word of your Lord is to be fulfilled that, "I will surely fill Hell with jinn and men all together."
Ba-juz unn per jin per aap ka rab reham farmaye unhen to issi lie peda kiya hai aur aap kay rab ki yeh baat poori hai kay mein jahannum ko jinno aur insanon sab say pur keroon ga.
البتہ جن پر تمہارا پروردگار رحم فرمائے گا ، ان کی بات اور ہے ( کہ اللہ انہیں حق پر قائم رکھے گا ) اور اسی ( امتحان ) کے لیے اس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ ( ٦٤ ) اور تمہارے رب کی وہ بات پوری ہوگی جو اس نے کہی تھی کہ : میں جہنم کو جنات اور انسانوں دونوں سے بھر دوں گا ۔
مگر جن پر تمہارے رب نے رحم کیا ( ف۲٤۱ ) اور لوگ اسی لیے بنائے ہیں ( ف۲٤۲ ) اور تمہارے رب کی بات پوری ہوچکی کہ بیشک ضرور جہنم بھر دوں گا جنوں اور آدمیوں کو ملا کر ( ف۲٤۳ )
اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے ۔ اِسی ﴿آزادیِ انتخاب و اختیار﴾ کے لیے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا ۔ 116 اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جن اور انسان سب سے بھر دوں گا ۔
سوائے اس شخص کے جس پر آپ کا رب رحم فرمائے ، اور اسی لئے اس نے انہیں پیدا فرمایا ہے ، اور آپ کے رب کا فرمان پورا ہو چکا بیشک میں دوزخ کو جِنّوں اور انسانوں میں سے سب ( اہلِ باطل ) سے ضرور بھر دوں گا
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :116 یہ اس شبہ کا جواب ہے جو بالعموم ایسے مواقع پر تقدیر کے نام سے پیش کیا جاتا ہے ۔ اوپر اقوام گزشتہ کی تباہی کا جو سبب بیان کیا گیا ہے اس پر یہ اعتراض کیا جاسکتا تھا کہ ان میں اہل خیر کا موجود نہ رہنا یا بہت کم پایاجانا بھی تو آخر اللہ کی مشیت ہی سے تھا ، پھر اس کا الزام ان قوموں پر کیوں رکھا جائے؟ کیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہل خیر پیدا کر دیے؟ اس کے جواب میں یہ حقیقت حال صاف صاف بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کے بارے میں یہ ہے ہی نہیں کہ حیوانات اور نباتات اور ایسی ہی دوسری مخلوقات کی طرح اس کو بھی جبلی طور پر ایک لگے بندھے راستے کا پابند بنا دیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے ۔ اگر یہ اس کی مشیت ہوتی تو پھر دعوت ایمان ، بعثت انبیاء اور تنزیل کتب کی ضرورت ہی کیا تھی ، سارے انسان مسلم و مومن ہی پیدا ہوتے اور کفر و عصیان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا ۔ لیکن اللہ نے انسان کے بارے میں جو مشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کو انتخاب و اختیار کی آزادی بخشی جائے ، اسے اپنی پسند کے مطابق مختلف راہوں پر چلنے کی قدرت دی جائے ، اس کے سامنے جنت اور دوزخ دونوں کی راہیں کھول دیں جائیں اور پھر ہر انسان اور ہر انسانی گروہ کو موقع دیا جائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کو بھی اپنے لیے پسند کرے اس پر چل سکے تاکہ ہر ایک جو کچھ بھی پائے اپنی سعی و کسب کے نتیجہ میں پائے ۔ پس جب وہ اسکیم جس کے تحت انسان پیدا کیا گیا ہے ، آزادی انتخاب اور اختیار کفر وایمان کے اصول پر مبنی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی قوم خود تو بڑھنا چاہے بدی کی راہ پر اور اللہ زبردستی اس کو خیر کے راستے پر موڑ دے ۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے تو انسان سازی کے وہ کارخانے بنائے جو ایک سے ایک بڑھ کر بدکار اور ظالم اور فاسق آدمی ڈھال ڈھال کر نکالیں ، اور اللہ اپنی براہ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کر دے جو اس کے بگڑے ہوئے سانچوں کو ٹھیک کر دیں ۔ اس قسم کی مداخلت خدا کے دستور میں نہیں ۔ نیک ہوں یا بد ، دونوں قسم کے آدمی ہر قوم کو خود ہی مہیا کرنے ہوں گے ، جو قوم بحیثیت مجموعی بدی کی راہ کو پسند کرے گی ، جس میں سے کوئی معتدبہ گروہ ایسا نہ اٹھے گا جو نیکی کا جھنڈا بلند کرے اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں اس امر کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہوگی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں ، خدا کو کیا پڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے ، وہ تو اس کو اسی انجام کی طرف دھکیل دے گا جو اس نے خود اپنے لیے انتخاب کیا ہے ۔ البتہ خدا کی رحمت کی مسحتق اگر کوئی قوم ہوسکتی ہے تو صرف وہ جس میں بہت سے افراد ایسے نکلیں جو خود دعوت خیر کو لبیک کہنے والے ہوں اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں یہ صلاحیت باقی رہنے دی ہو کہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اس کے اندر کام کرسکیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الانعام ، حاشیہ 24 )