Surah

Information

Surah # 11 | Verses: 123 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 52 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 12, 17, 114, from Madina
وَلَوۡ شَآءَ رَبُّكَ لَجَـعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً‌ وَّلَا يَزَالُوۡنَ مُخۡتَلِفِيۡنَۙ‏ ﴿118﴾
اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راہ پر ایک گروہ کر دیتا ۔ وہ تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے ۔
و لو شاء ربك لجعل الناس امة واحدة و لا يزالون مختلفين
And if your Lord had willed, He could have made mankind one community; but they will not cease to differ.
Agar aap ka perwerdigar chahata to sab logon ko aik hi raah per aik giroh ker deta. Woh to barabar ikhtilaf kerney walay hi rahen gay.
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی طریقے کا پیرو بنا دیتا ، ( مگر کسی کو زبردستی کسی دین پر مجبور کرنا حکمت کا تقاضا نہیں ہے ، اس لیے انہیں اپنے اختیار سے مختلف طریقے اپنانے کا موقع دیا گیا ہے ) اور وہ اب ہمیشہ مختلف راستوں پر ہی رہیں گے ۔
اور اگر تمہارا رب چاہتا تو سب آدمیوں کو ایک ہی امت کردیتا ( ف۲۳۹ ) اور وہ ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے ( ف۲٤۰ )
بے شک تیرا ربّ اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا ، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے ،
اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا ( مگر اس نے جبراً ایسا نہ کیا بلکہ سب کو مذہب کے اختیار کرنے میں آزادی دی ) اور ( اب ) یہ لوگ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے
جس پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہو اللہ کی قدر کسی کام سے عاجز نہیں ۔ وہ چاہے تو سب کو ہی اسلام یا کفر پر جمع کردے لیکن اس کی حکمت ہے جو انسانی رائے ان کے دین و مذاہب جدا جدا برابر جاری و ساری ہیں ۔ طریقے مختلف ، مالی حالات جداگانہ ایک ایک کے ماتحت یہاں مراد دین و مذہب کا اختلاف ہے ۔ جن پر اللہ کا رحم ہو جائے وہ رسولوں کی تابعداری رب تعالیٰ کی حکم برداری میں برابر لگے رہتے ہیں ۔ اب وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مطیع ہیں ۔ اور یہی نجات پانے والے ہیں ۔ چنانچہ مسند و سنن میں حدیث ہے جس کی ہر سند دوسری سند کو تقویت پہنچا رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودیوں کے اکہتر گروہ ہوئے ۔ نصاریٰ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے ، اس امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے ، سب جہنمی ہیں سوائے ایک جماعت کے ، صحابہ نہ پوچھا یا رسول وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے جواب دیا وہ جو اس پر ہوں جس پر میں ہو اور میرے اصحاب ( مستدرک حاکم ) بقول عطا مختلفین سے مراد یہودی ، نصرانی ، مجوسی ہیں اور اللہ کے رحم والی جماعت سے مراد یک طرفہ دین اسلام کے مطیع لوگ ہیں ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ جماعت ہے گو ان کے وطن اور بدن جدا ہوں اور اہل معصیت فرقت و اختلاف والے ہیں گو ان کے وطن اور بدن ایک ہی جا جمع ہوں ۔ قدرتی طور پر ان کی پیدائش ہی اسی لیے ہے شقی و سعید کی ازلی تقسیم ہے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ رحمت حاصل کرنے والی یہ جماعت بالخصوص اسی لیے ہے ۔ حضرت طاؤس کے پاس دو شخص اپنا جھگڑا لے کر آئے اور آپس کے اختلاف میں بہت بڑھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ تم نے جھگڑا اور اختلاف کیا اس پر ایک شخص نے کہا اسی لیے ہم پیدا کئے گئے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ، غلط ہے اس نے اپنے ثبوت میں اسی آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا اس لیے نہیں پیدا کیا کہ آپس میں اختلاف کریں ، بلکہ پیدائش تو جمع کے لیے اور رحمت حاصل کرنے کے لیے ہوئی ہے جیسے کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ رحمت کے لیے پیدا کیا ہے نہ کہ عذاب کے لیے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 56؀ ) 51- الذاريات:56 ) میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے ۔ تیسرا قول ہے کہ رحمت اور اختلاف کے لیے پیدا کیا ہے ۔ چنانچہ مالک اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک فرقہ جنتی اور ایک جہنمی ۔ انہیں رحمت حاصل کرنے اور انہیں اختلاف میں مصروف رہنے کے لیے پیدا کیا ہے تیرے رب کا یہ فیصلہ ناطق ہے کہ اس کی مخلوق میں ان دونوں اقسام کے لوگ ہوں گے اور ان دونوں سے جنت دوزخ پر کئے جائیں گے ۔ اس کی کامل حکمتوں کو وہی جانتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت دوزخ دونوں میں آپس میں گفتگو ہوئی ۔ جنت نے کہا مجھ میں تو صرف ضعیف اور کمزور لوگ ہی داخل ہوتے ہیں اور جہنم نے کہا میں تکبر اور ظلم کرنے والوں کے ساتھ مخصوص کی گئی ہوں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ عزوجل نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے ، جسے میں چاہوں اسے تجھ سے نواز دوں گا ۔ اور جہنم سے فرمایا تو میرا عذاب ہے جس سے میں چاہوں تیرے عذاب کے ذریعہ اس سے انتقام لوں گا ۔ تم دونوں پر ہو جاؤ گی ۔ جنت میں تو برابر زیادتی رہے گی یہاں تک کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا اور اسے اس میں بسائے گا اور جہنم بھی برابر زیادتی طلب کرتی رہے گی یہاں تک کہ اس پر اللہ رب العزت اپنا قدم رکھ دے گا تب وہ کہے گی تیری عزت کی قسم اب بس ہے بس ہے ۔